تاحیات نااہلی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ کے ہاتھوںپانامااور اقامہ کا ڈراما چھ سال بعد انجام کو پہنچا لیکن یہ سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ اس سازشی کھیل کے ذریعے جن افراد نے تیزی سے ترقی کرتے ملک کو تباہی کے غار میں دھکیلا، ان کا قرار واقعی محاسبہ بھی ضروری ہے یا نہیں؟اب جبکہ یہ حقائق بڑی حد تک بے نقاب ہوچکے ہیں کہ طاقتور کہلانے والوں نے ایک منتخب آئینی حکومت کو اپنے من مانے مطالبات کے بجائے آئین اور قانون کی راہ پر چلنے کی سزا دینے اور سو فی صد اپنی پروردہ سیاسی قیادت کو اقتدار میں لانے کی خاطر اعلیٰ عدلیہ کی بعض شخصیات سے ملی بھگت کے ساتھ یہ تباہ کن ڈراما رچایا تھا، جھوٹے مقدمات کی بھرمار کرکے اس قیادت کے سیاسی مخالفین کو جیلوں سے باہر نہ آنے دینے کی ہر ممکن چال آزمائی تھی، جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر جھوٹے پروپیگنڈے، سراسر بے بنیاد الزام تراشی، گالم گلوچ اور ہر قسم کے منفی ہتھکنڈوں پر مبنی مہمات چلائی تھیں، تہذیب و شائستگی کے کلچر کو گہرا دفن کرنے کا اہتمام کیا تھا،پچھلے عام انتخابات کے ہر مرحلے میں جارحانہ مداخلت اور دھاندلی کے ذریعے سے اپنے مطلوبہ نتائج کی راہ ہموار کی تھی، اس کیلئے عدالتوں کے فرض شناس ججوں کو راستے سے ہٹانے کے اقدامات کیے تھے، کمزور کردار کی حامل عدالتی شخصیات سے من مانے فیصلے کرانےکیلئے ان کے کمزور لمحوں کو بے نقاب کرنے کا خوف دلایا تھا، جن کے ثبوت و شواہد آڈیو وڈیو ریکارڈنگز کی شکل میں پوری پاکستانی قوم ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے آچکے ہیں... کیا بس اب اس سب کے تاریخ کا حصہ بن جانے کو کافی سمجھا جانا چاہیے ؟کیا یہ طرزعمل انصاف کے تقاضوں کے مطابق سمجھا جائے گا؟ کیا اس کے نتیجے میں مزید ایسے تجربات کے جاری رہنے اور ملک کے ان کی تباہ کاریوں کا نشانہ بننے کے خدشات حقیقت میں ڈھلتے نہیں رہیں گے جبکہ پون صدی میں یہ سرزمین پاک مختلف طالع آزماؤں کے ایسے پے درپے اقدامات کے باعث بظاہر مزید کسی ایسے تجربے کی متحمل نظر نہیں آتی؟شاید ہی کوئی معقول شخص یہ سمجھتا ہو کہ جو کچھ ہوچکا اسے بھول جانا چاہیے ، ملک کی اس تباہی کے ذمے داروں کو قانون اور انصاف کے کسی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جانا چاہیے اور کسی سے کوئی بازپرس نہیں ہونی چاہیے۔ اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہماری مکمل رہنمائی کررہا ہے کہ’’ تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا اور طاقتور شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا لیکن جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔‘‘ لہٰذا ضروری ہے کہ طاقتوروں کے ایسے جرائم سے ہرگز صرف نظر نہ کیا جائے جن کی وجہ سے یہ ملک عشروں پیچھے چلا گیا ہے۔ 2014ء کے دھرنے سے شروع ہونے والا کھیل جسے پاناما کے ڈرامے کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا،اس کے سارے حقائق کی چھان بین اور اس کے ذمے داروں کا تعین بآسانی ممکن ہے۔اس کھیل کے سارے کردار ابھی دنیا میں موجود ہیں اور اپنے دفاع کا حق بھی کسی دشواری کے بغیر استعمال کرسکتے ہیں۔
قوم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پاناما پیپرز میں جن ساڑھے چار سو پاکستانیوں کے نام تھے، نیب کے اس وقت کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے اس دعوے کے باوجود کہ ان سب کا محاسبہ کیا جائے گا، ایسا کیوں نہیں ہوا؟معاملہ صرف ایک شخص تک کیوں محدود رہا اور وہ بھی پاناما کے بجائے اقامہ کا مجرم ٹھیرا؟ باقی ساڑھے چار سو لوگوں کا کیا بنا جبکہ ان کے بیرون ملک کھاتوں میںموجود سینکڑوں ارب ڈالر کی لوٹی گئی دولت کا دو چار فی صد بھی قومی خزانے میں آجائے تو ملک کی معاشی مشکلات دور ہوسکتی ہیں۔جو سیاسی قائدین پاناما کے مقدمے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت میں مدعی بن کر پہنچے تھے انہیں بھی بتانا چاہیے کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے کی کیا کوششیں ان کی طرف سے کی گئیں اور وہ نتیجہ خیز کیوں ثابت نہیں ہوئیں اور یہ بھی کہ اب جب کہ موجودہ چیف جسٹس کی آمد کے بعد سپریم کورٹ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ فعال ہے اور مقدمات کی کارروائی میں مکمل شفافیت کا اہتمام کیا جارہا ہے تویہ سیاسی رہنما ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے اس اہم مقدمے کو انجام تک پہنچانے کیلئے کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟پاناما کے بعد پینڈورا لیکس اور سوئس پیپرز کی شکل میں کئی ہزار دولت مند اور بااثر پاکستانی شہریوںکی آف شور کمپنیوں کی تفصیلات بھی تحریک انصاف کے دور میں منظر عام پر آچکی ہیں اور سابق وزیر اعظم نے ان کی تحقیقات کی یقین دہانی بھی کرائی تھی لیکن پھر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا، کئی سو ارب ڈالر پر مشتمل یہ دولت اگر واقعی پاکستان کی ہے تو اس معاملے میں خاموشی قومی جرم ہے لیکن اگر یہ سب محض کہانیاں تھیں تب بھی ضروری تحقیقات کرکے ان کی حقیقت قوم کے علم میںلائی جانی چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)