• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس صاحب! آپ نے کہا تھا کہ عدالتی کارروائی عوام کو سنانے کا فائدہ یہ ہے کہ لوگ مطمئن ہوتے ہیں۔ آپ نے پڑھا، سنا اور دیکھا ہے کہ مجبور، بے بس اور ستائی ہوئی آپ کی اور ہم سب کی بیٹیاں کھلے آسمان تلے ہفتہ بھر سے اس التماس کے ساتھ بیٹھی ہیں کہ ان کے بچوں، مردوں اور جوانوں کو کسی نہ کسی طرح بازیاب کرائیں۔ یہ کوئی ڈرامہ نہیں کررہیں، ان میں سے کوئی سردار اور نواب کی بیٹی نہیں ہے۔ آپ کے حکم اور چیف آف آرمی اسٹاف کے تعاون سے یہ مسئلہ حل اس لیے ہوسکتا ہے کہ فوج (افغان بارڈر کے ساتھ) پورے بلوچستان پر حاوی ہے۔ یوں تو ہم سب کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے سرداروں اور نوابوں کے خاندانوں میں غلامی کی تہذیب اب تک حاوی ہے۔ ان سب نے چیف صاحب! آپ کا کہا سنا اور پڑھا ہوگا کہ یہ جمہوری ملک ہے۔ یہاں نہ کوئی سردار ہے، نہ نواب، جو لوگ اپنے نام کے ساتھ یہ لاحقہ رکھتے ہیں، وہ ختم کریں۔ اپنے نام کی حرمت پر اعتماد کریں۔ ہمارا میڈیا اور اخبار ان ہی القابات کو استعمال کررہے ہیں، جو انگریزوں نے اپنے حواریوں کو انعام کے طور پر عطا کیے تھے۔

ویسے اس وقت بھی انتخابات کیلئے شاید دسویں دفعہ امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ہیں۔ہر کسی نے نوابی، خاندانی اور دیگر لاحقوں کو اپنے نام کے ساتھ منسلک رکھا ہے۔ شاید آپ ایک آرڈر کے ذریعےاس نحوست سے قوم کی جان چھڑا سکتے ہیں۔

سر جی! آصف زرداری اور فائز عیسیٰ جی اور سید آرمی چیف صاحب! آپ سب نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا کہ محمود قریشی پولیس کو ہائی کورٹ کے رہائی کے آرڈر دکھا رہے تھے، اتنے میں ایک گول مٹول انسپکٹر صاحب سامنے آئے، قریشی کی کمر میں مکا مارا اور دھکیلتا ہوا پولیس وین میں لے گیا۔ کسی اخبار، کسی چینل نے نہ تبصرہ کیا، نہ اس رویے پہ احتجاج کیا، مگر کیسے کریں، عمران ریاض جیسوں کا انجام دیکھنے کے بعد اور حامد میر کے آف میڈیاہونے کے بعد، اب سب آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی طرح بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچ خواتین کا مضحکہ اڑانے کے لیے بدقماش لوگ طرح طرح کے نعرے لگا رہے ہیں، ان کا مذاق اڑا رہے ہیں، جہاں تک ارشاد نگراں وزیراعظم کا ہے کہ بلوچ، پنجابیوں کو گالی دیتے ہیں۔ آج سے چالیس سال پہلے بھی بلوچوں کو نہیں، پنجابیوں اور دوسری قوموں کو پولیس میں ملازم رکھا جاتا تھا۔ جب ہم عطا شاد سے اس بدعت کی وجہ پوچھتے تو اول وہ خاموش ہوجاتا اور پھر بھٹو صاحب نے صوبائی حکومت کو جس طرح ختم کیا تھا، اس کے بعد بلوچوں کو حکومتی عمل دخل میں کم اہمیت اور پنجاب کے ملازمین زیادہ بھرتی کیے جاتے تھے۔ آپ محترم! بتائیں جس علاقے کے لوگ ملازمتوں اور نمائندگی سے محروم رکھے جائیں، ان کو غیر محب وطن سمجھا جائے، جہاں کی معدنیات کے ٹھیکے غیروں کو دیے جائیں، جہاں سے گیس آج سے60برس پہلے نکلی تھی، اس صوبے کے آدھے حصے میں آج بھی گیس نہیں ہے۔ فیروز خان نون نے گوادر، عرب ممالک سے سیاسی قوت کے ساتھ حاصل کیا۔ وہاں کی زمینوں کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوا تو خود میرے ساتھ بیٹھے پنجاب اور پشتون اکڑے ہوئے سفید سوٹ پہنے گوادر میں سودا کرنے جارہے ہوتے تھے۔ وہ زمینیں کئی ہاتھوں بدل بدل کر بیچی اور خریدی گئیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے، غریب مچھیروں کا وہی حال ہے اور وڈیرے ٹرالر میں اعلیٰ مچھلیاں برسوں سے لاکر دوسرے ملکوں میں فروخت کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بدین سے لے کر آدھا بلوچستان بے آب وگیاہ، ویران پڑا ہے۔ تافتان کے رستے سے اسمگلنگ نہ ہو تو یہ آدھا بلوچستان بھوکا مر جائے۔ یہ ساری باتیں اتنی ہی پرانی ہیں جتنی پاکستان کی تاریخ، پھر میں جرات کرکے کیوں نہ پوچھوں جناب زمینوں پر جو قابض ہوں، ان کو بلوچ گالیاں نہ دیں تو کیا پھولوں کے ہار پہنائیں۔ قاضی عیسیٰ، زیارت، چلتن، چلغوزے اور آب پاشی کے انوکھے طریقے بلوچستان کی پہچان تھے۔ پھر اس میں سینڈک، سوئی گیس، کوئلے کی کانیں، سونے اور تانبے کے ذخائر کے نام اچھالے گئے،پر نالہ وہیں کا وہیں رہا۔ بلوچ رئوسا، ناقدری کے ہاتھوں عاجز ہوکر، غیر ممالک کو وہ سرمایہ دیتے رہے جو ملک میں خرچ ہونا تھا، بگٹی صاحب کا مارا جانا تو ایک حوالہ ہے۔ کبھی آپ کو فرصت ہو تو اپنے ہی والد کے صوبے میں ڈاکٹر شاہ محمد مری نے آزادی کے علمبرداروں کے حوالے سے50کتابیں لکھی ہیں، وہی پڑھ لیں۔

بلوچوں کا اختلاف رائے بالکل مشرقی پاکستان کے عوام اور زراعت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے مسائل ہیں۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا، سرائیکی، گلگتی، وزیرستان کے لوگ بھی اسی طرح زیادتیوں کے بارے میں بولتے ہیں، یہ طوفان ابھی اندر اندر پک رہا ہے، آپ سے زیادہ فوج ان سارے عوامل کو خوب جانتی ہے۔ سید صاحب یعنی آرمی چیف قرآن و سنت کے علاوہ، سیاسی طور پر آگاہ ہیں۔ اس وقت دنیا میںامریکہ اور روس کھیل میں مبتلا ہیں، چالاکی دیکھیں کہ پہلے خود امریکہ نے اسرائیل کو بے پناہ اسلحہ دیا اور اب جنگ بند کرنے کی تلقین کررہاہے۔

اس وقت پریس کلب کے سامنے بیٹھے لوگ آزاد ہیں، صرف اس گرائونڈ میں چلنے پھرنے کیلئے، خدا نہ کرے کہ مخالف نعرے باز سبقت لے جائیں اور بلوچ آوازیں دب جائیں۔ پاکستان بنانے والے نے آخری سفر جس علاقے سے کیا تھا، وہاں کی تہذیب اور غیرت کو مت للکاریں، پشتون بھی یہی کہہ رہے ہیں، دھیان رکھیں، الیکشن بروقت اور صحیح طریقے پر ہوجائیں تو پھر ان شاء اللہ کبھی نگراں حکومت نہیں آئے گی۔

تازہ ترین