• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

متنوع موضوعات پر ڈراما نگاری، آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ، جیو پاکستان، ہنسنا منع ہے، ٹاپ ریٹڈ شوز

ہمارے یہاں نہ جانے کیوں تمام تر انٹرٹینمینٹ چینلز نے ’’انٹرٹینمینٹ‘‘ کا مطلب صرف اور صرف ڈراموں کی بھرمار ہی کو سمجھ لیا ہے۔ صُبح، دوپہر، شام ڈرامے ہی ڈرامے۔ پِری پرائم ٹائم ڈراما، پرائم ٹائم ڈراما، آفٹر پرائم ٹائم ڈراما، پھرری پِیٹ ٹیلی کاسٹ، اور ری پِیٹ ٹیلی کاسٹ بھی محض ایک بار نہیں، دو بار، تین بار، بار بار۔ دِن کے کسی حصّے میں کوئی بھی انٹرٹینمینٹ چینل ٹیون کیا جائے، کوئی نہ کوئی ’’ڈراما‘‘ ہی چل رہا ہوگا۔ مطلب ڈرامے میں بھی ڈراما۔ وہی گِھسی پٹی کہانیاں، اُلٹ پُلٹ کے وہی چہرے اور ہر چہرہ مصنوعی۔ 

باورچی خانے میں کھانا پکاتی، گھرکی صفائی ستھرائی کرتی، حتیٰ کہ سو کے بستر سے اُٹھتی اداکارہ بھی بِلوڈرائی سمیت فُل میک اَپ میں لتھڑی ہی نظر آئے گی۔ ایک تو سب ایک جیسے ڈرامے (ایک دو ولی اللہ ٹائپ کریکٹرز، ایک دو شیطانی کردار، ایک او ایس ٹی اور پھر شیطان کی آنت کی طرح کِھنچتی ہی چلی جاتی اقساط) اُس پر اوور ڈوز بھی۔ اور یہ سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے اِسی طرح چلا آ رہا تھا۔ بہرکیف، صدشُکر کہ سال 2023ء میں مقابلے کی دوڑ میں ایک سرسبز چینل کا اضافہ کیا ہوا، دیگر چینلز کی جُون بھی کافی حد تک تبدیل ہوگئی۔ 

سالِ رفتہ کے ڈراموں کے نہ صرف موضوعات کے انتخاب میں بہتری دیکھی گئی بلکہ بامقصد، تعمیری و اصلاحی اور دیرینہ مسائل پر مبنی ڈراما میکنگ پر بھی خاصی توجّہ مرکوز ہوئی۔ اور اس ضمن میں جیو انٹرٹینمینٹ کے ڈرامے ’’حادثہ‘‘، ’’مجھے قبول نہیں‘‘ اور ’’جنّت سے آگے‘‘ سرِفہرست رہے۔ ڈراما ’’حادثہ‘‘ 27 اقساط پر مشتمل زنجبیل عاصم شاہ کا تحریر کردہ اور وجاہت رئوف، شازیہ وجاہت کی ڈائریکشن/ پروڈکشن میں تیار ہونے والا ایک بےحدمعیاری ڈراما سیریل تھا، جسے کچھ لایعنی اعتراضات کی بنیاد پر کچھ عرصے کے لیے آف ائیر بھی کیا گیا، بعدازاں کورٹ کے فیصلے کے بعد بقیہ اقساط ریلیز کر دی گئیں۔ 

ڈرامے میں معروف گلوکارہ (اور اب خُود کو بہترین پرفارمر کے طور پر بھی منوانےوالی) حدیقہ کیانی کی شان دار پرفارمینس کی تعریف نہ کرنا حد درجہ زیادتی ہوگی (یاد رہے، حدیقہ نے اپنی نوعیت کے منفرد ڈرامے ’’رقیب سے‘‘ سے ڈیبیو کیا اور نعمان اعجاز، ثانیہ سعید کے بالمقابل اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا) بقیہ کاسٹ میں بھی علی خان کے سوا لگ بھگ تمام ہی اداکاروں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے۔ اِسی طرح ڈراما ’’مجھے قبول نہیں‘‘ اور ’’جنّت سے آگے‘‘ کے موضوعات کو اپنی انفرادیت و تنوّع، بہترین کاسٹ اور عُمدہ ڈائریکشن کے سبب ناظرین سے سندِ قبولیت ملی۔ 

سیونتھ اسکائی انٹرٹینمینٹ، عبداللہ کادوانی/ اسد قریشی پروڈکشنز کا ڈراما ’’مجھے قبول نہیں‘‘ گرچہ 49 اقساط پر مشتمل تھا، لیکن ڈومیسٹک وائلینس کے خلاف مؤثر آواز اور اسٹار کاسٹ کے سبب ہائی ریٹنگ لیتا رہا۔ اِسی طرح ’’جنّت سے آگے‘‘، خواتین کی مَن پسند رائٹر، عُمیرہ احمد کی تحریر، حسیب حسن کی ہدایت کاری اور کبریٰ خان، رمشہ خان اور گوہر رشید جیسے فن کاروں کی اعلیٰ کردار نگاری کے سبب آغاز تا اختتام ریٹنگ چارٹ پر نمایاں رہا۔ 

مگر، سالِ رفتہ جس ڈرامے نے پی ٹی وی دَور کی یاد تازہ کر دی، انتہائی منفرد موضوع سے لے کر ڈراما میکنگ کے اِک اِک شعبے میں کچھ نئی ہی روایات، معیارات کی بنیاد رکھی، وہ تھا ظفر معراج کی لاثانی تحریر اور کاشف نثار کی لافانی ڈائریکشن کا شاہ کار ڈراما ’’کابلی پلائو‘‘۔ جس نےنہ صرف ملک کے طول و عرض میں بلکہ سرحد پار بھی مقبولیت و پسندیدگی کے نئے ریکارڈز قائم کیے۔ روایتی ہیرو، ہیروئن کا سال ہا سال کا ڈھلا ڈھلایا سانچا ہی توڑ ڈالا۔ 

پھر قدرےعُمر رسیدہ ہیرو محمّد احتشام الدین کے بالمقابل نوعُمر سبینہ فاروق نے، ایسے جَم کے اداکاری کی کہ انڈسٹری کے بڑے بڑے فن کار دانتوں تلے اُنگلیاں داب کے رہ گئے، حالاں کہ اِس سے قبل سبینہ نے ٹی آر پی (ٹیلی ویژن / ٹارگٹ ریٹنگ پوائنٹ) کے اعتبار سے سالِ رفتہ کے سب سے کام یاب ڈراما سیریل ’’تیرے بِن‘‘ میں ایک نیگیٹیو کردار نبھایا۔ مختلف و منفرد، متنوّع موضوعات کے ضمن میں جن مزید ڈراموں نے خاصی کام یابی حاصل کی، اُن میں پنجرا، پیاری مونا، میرے بن جائو، بے بی باجی، رضیہ، گرو، سرِ راہ،22واں قدم، ورکنگ ویمن، جِندو، نوروز، فاطمہ فینگ، مائےری، جیون نگر، 101 طلاقیں، جیسے آپ کی مرضی، مَیں کہانی ہوں، گِرے اور بریکنگ نیوز وغیرہ شامل ہیں۔

روایتی موضوعات کے ساتھ بھی نہ صرف کام یابی بلکہ کھڑکی توڑ کام یابی حاصل کرنے والےڈراموں میں’’تیرے بِن‘‘ کا تو کوئی مدمقابل ہی نہیں تھا۔ یہ ڈراما28 اگست 2022ء کو آن ائیرہوا اور6جولائی 2023ء کو58اقساط کے ساتھ اختتام پذیر، لیکن اس پورے عرصے میں نہ صرف ٹاپ ٹرینڈنگ میں رہا بلکہ مختلف النّوع وجوہ کے سبب سوشل میڈیا پر مستقل ڈسکشن کا موضوع بھی بنا رہا۔ ڈراما سیونتھ اسکائی انٹرٹینمینٹ کے بینر تلے تیار ہوا۔ رائٹر، نوراں مخدوم اور ہدایت کار، سراج الحق کی مشترکہ کاوش ’’تیرے بِن‘‘ کی ٹرائیکا لَو اسٹوری نے مقبولیت کے تو کچھ نئے جھنڈے گاڑے ہی، لیکن وہاج علی اور یمنیٰ زیدی کو سال کی سب سے پسندیدہ، مقبول ترین جوڑی بھی بنا دیا۔ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی عائزہ خان، ہمایوں سعید کی جوڑی کے بعد یہ جوڑی شوبز کی ہر دِل عزیز جوڑی ٹھہری۔ 

دیگر مقبول ڈراموں میں کچھ اَن کہی، کلنک، جُرم، یُونہی، مجھے پیار ہوا تھا، محبّت گم شدہ میری، جھوک سرکار، نجات، صرف تم، نیم، جھوم، مَیں، جن زادہ، بے لگام، ماں نہیں، ساس ہوں مَیں، شکاری، بوجھ، احرامِ جنوں، تمہارے حُسن کے نام، شناس، رُخِ ماروشن، جنجال پورہ، مہر ماہ، بندش 2، قابیل، گنجل، سمجھوتا، ہُوک، نُور، دِل ہی تو ہے، فرق، قلندر، سیانی، نکاح، فیری ٹیل 2، ظلم، فریب، اگر، کچّا دھاگا، میرے داماد، ایک تھی لیلیٰ، میری شہزادی اور تاحال آن ائیر ڈراموں میں عشق مرشد، گِرے، اسٹینڈ اَپ گرل، سیریل کلر، محبت سَت رنگی، ایک جھوٹی لَو اسٹوری، بریکنگ نیوز، تیرے خُوشبو میں بسے خط، خُمار، منّت مراد اور خئی شامل ہیں۔ 

غالباً ڈراموں کی اِس بھرمار، یلغار ہی کے سبب سالِ گزشتہ ایک چینل نے ’’کیا ڈراما ہے‘‘ کے عنوان سے ایک تجزیاتی پروگرام کا بھی آغاز کیا، جس میں میزبان کے ساتھ تین ماہرین لگ بھگ تمام انٹرٹینمینٹ چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں کا جائزہ لیتے اور بہت حد تک غیر جانب دارانہ تجزئیات پیش کرتے رہے، جب کہ سال کے آخر میں اِسی پلیٹ فارم سے’’فرسٹ ڈراما آئی کون ایوارڈ‘‘ کے نام سے ایک ایوارڈ تقریب بھی منعقد کی گئی۔

پچھلے دو ایک سالوں سے مختلف چینلز پر ’’رمضان اسپیشل ٹرانس میشن‘‘ کے نام پر شروع ہونے والے کھیل تماشے، ہڑبونگ کا غلغلہ تو پیمرا کے نوٹس لینے کےبعد کافی حد تک کم ہوگیا ہے، خصوصاً جیو نیٹ ورک نے اس ضمن میں بھی ٹرینڈ سیٹر کا کردار ادا کیا۔ اور پچھلے سالوں کی طرح 2023ء میں بھی ’’احساس رمضان‘‘ سیریز کے تحت ’’سحری میں کیا ہے‘‘، ’’افطاری میں کیا ہے‘‘ اور معروف عالم دین، علّامہ سیّد مظفّر حسین شاہ کی خصوصی سحروافطار دُعا کے علاوہ کئی دینی، اصلاحی، تاریخی و تعمیری ڈراموں، پروگرامز ہی پر فوکس رکھا۔ ’’احساس رمضان‘‘ کے لیے راحت فتح علی کی آواز میں ریکارڈ شدہ ’’احساس ہے رمضان‘‘ سے بھی گویا ایک سماں سا بندھ جاتا ہے اور پھر کرلوس عثمان (سیزن فور)، سُلطان محمد فاتح، اصلاحی ڈراما سیریز دکھاوا (سیزن فور)، مکافات (سیزن فائیو) اور عبداللہ نے بھی ناظرین کی خاصی توجّہ سمیٹی۔ 

نیز، ہلکے پھلکے مزاح پر مبنی 33 اور 38 اقساط کے دو سیریلز ’’ہیر دا ہیرو‘‘ اور ’’تیرے آنے سے‘‘ بھی خاصے پسند کیے گئے۔ دیگر چینلز سے بھی رمضان المبارک کے خصوصی اہتمام پر مبنی پروگرامز نشر ہوئے، جن میں پی ٹی وی کا ’’رمضان پاکستان‘‘ اور دیگر چینلز کے ’’شانِ رمضان‘‘، ’’نورِ رحمان، عشق رمضان‘‘، ’’رمضان میں بول‘‘، ’’بارانِ رحمت‘‘، ’’رمضان کریم‘‘، ’’رمضان کا سما‘‘ اور ’’پیارا رمضان‘‘ وغیرہ نمایاں رہے۔ نیز، جیو انٹرٹینمینٹ کی طرح کچھ اور چینلز نےرمضان میں ایک دو اسپیشل ڈرامے بھی ریلیز کیے، جن میں فیری ٹیل اورچاند تارا دیکھے اور پسند کیے گئے۔

سالِ رفتہ کی بیسٹ آن اسکرین جوڑیوں کی بات کی جائے، تو وہاج علی/ یمنیٰ زیدی کے بعد، وہاج علی/ ہانیہ عامر، وہاج علی/ عائزہ خان، بلال اشرف/ مایا علی، خوش حال خان/ دنانیر مبین، فرحان سعید/ حِبا بخاری، دانش تیمور/ عائزہ خان، ہارون کادوانی/ زارا نُور عباس، عمران عباس/ صبا قمر، حمزہ سہیل/ سحر خان، بلال عباس/ سجل علی اور بلال عباس/ دُرِّفشاں سلیم کے پیئرز کو لوگوں نے قبول ہی نہیں کیا، خُوب سراہا بھی۔ جب کہ ایک ’’بے جوڑ، جوڑا‘‘ بھی مقبولیت کے عروج پر دیکھا گیا۔ جی ہاں، آپ بالکل ٹھیک سمجھے۔ احتشام الدین اور سبینہ فاروق۔ لیکن مجموعی طور پر سال 2023ء وہاج علی اور یمنیٰ زیدی ہی کا سال رہا۔

مُلک میں چینلز کی بھرمار کے ساتھ (کہ اِس وقت لگ بھگ100 چینلز آن ائیر ہیں) ابتداً جن پروگرامزپرفوکس کیا گیا، اُن میں مارننگ شوز، ٹاک شوز، مزاحیہ شوز اور سیلیبریٹیز کے انٹرویوز وغیرہ پر مبنی شوز سرِفہرست رہے۔ پھر رفتہ رفتہ مارننگ شوز کی یک سانیت سے گھریلوخواتین بھی اُکتانےلگیں، جب کہ حضرات تو شروع ہی سے اِن شوز کے فارمیٹ سے کچھ خائف ہی سے تھے۔ غالباً ’’جیو نیٹ ورک‘‘ نے اِس صورتِ حال کو قبل اَز وقت ہی بھانپ لیا تھا، تب ہی 2016ء ہی میں دو بہترین اینکرز کے ساتھ ایک عُمدہ سلوگن ’’اِک نئی صُبح کا آغاز‘‘ کے عنوان اور’’جیو پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نیوز بیسڈ مارننگ شو کا آغاز کیا گیا، جو اپنی ابتدا سے تاحال ٹاپ ریٹڈ پروگرام ہے۔

کیوں کہ اس شو میں فضول ناچ گانے، شادی بیاہ کی بے ہنگم رسومات اور رونے دھونے، جادُو ٹونے جیسے فارمولاز (’’فارمولا کار‘‘ والے فارمولے) سے قطعاً اجتناب برتا جاتا ہے، جب کہ سالِ رفتہ بھی اِس نے اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے متعدّد کام یاب پروگرامز کیے۔ ’’جیونیوز‘‘ ہی کے نقشِ قدم پرکچھ دیگر چینلز کی بھی روش بدلی، تو اُن پر بھی ’’چائے ٹوسٹ اور ہوسٹ‘‘، ’’صُبح کا سماء‘‘، ’’ایکسپریسو‘‘، ’’صُبح سے آگے‘‘، ’’صُبح سویرے پاکستان‘‘، ’’آج پاکستان‘‘، ’’دُنیا بول ہے‘‘ اور ’’پیامِ صبح‘‘ جیسے قدرے مختلف شوز کا اجراء ہوا، جن کا سفرسالِ رفتہ بھی جاری ہی رہا۔ جب کہ ’’مارننگ وِد ساحر‘‘، ’’جی اُٹھا پاکستان‘‘، ’’دھنک‘‘، ’’صُبح کا ستارہ‘‘، ’’مارننگ اسٹار‘‘، ’’نیوز کیفے‘‘، ’’مُسکراتی صبح‘‘، ’’گُڈ مارننگ لاہور‘‘، ’’مارننگ ایٹ ہوم‘‘ اور ’’گُڈ مارننگ پاکستان‘‘ کےناموں سےروایتی مارننگ شوز کا سلسلہ بھی حسبِ سابق ہی چلتا رہا۔

ٹاک شوز کا ذکر کریں، تو پچھلے کئی برسوں کی طرح سال 2023ء بھی شاہ زیب خانزادہ کے عروج و کمال ہی کا سال تھا۔ اَن گنت تحقیقی و معلوماتی، دل چسپ وحیران کُن، ہر دو طرفہ مؤقف کے حامل اور بہت حد تک بےعیب (Flawless)، مکمل، بے حد کام یاب و بھرپور پروگرامز کا ریکارڈ رکھنے والے اِس شو کے ذریعے سالِ رفتہ بھی کئی ایکس کلیوسیو اسٹوریز سامنے لائی گئیں۔ دراصل شو کا موٹو ’’سوال کی چوٹ سے گرے گی دیوار‘‘ ہی شو کا اصل فارمیٹ ہے کہ شاہ زیب کی حاضر جوابی، تابڑ توڑ اور انتہائی منطقی، بروقت و برجستہ سوالات کے سامنے بڑے بڑوں کا پِتّا پانی ہو جاتا ہے۔ 

تب ہی سالِ رفتہ 3000 سے زائد ایپی سوڈز کی تکمیل کے باوجود شو کا سحر ہے کہ کسی طور ٹُوٹنے میں نہیں آ رہا۔ معاصر چینلز نےاینکرز پر اینکرز بدل دیکھے، مگر شاہ زیب خانزادہ کے ائیر ٹائم (10 سے 11 کے سلاٹ میں) میں لوگ کوئی دُوسرا چینل بمشکل ہی ٹیون کرپاتے ہیں۔ ’’جیو نیوز نیٹ ورک‘‘ کے دیگر ٹاپ ریٹڈ ٹاک شوز میں ’’کیپیٹل ٹاک‘‘، ’’جرگہ‘‘، ’’نیا پاکستان‘‘، ’’آپس کی بات‘‘ اور ’’رپورٹ کارڈ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ عین ’’ڈراما آور‘‘ میں نشر ہونے کے باوجود برسوں سے ریٹنگ چارٹ پر نمایاں ہے۔ پروگرام ’’آپس کی بات‘‘ نجم سیٹھی کے بعد بھی اگر کام یابی سے جاری رہا، تو بڑی وجہ میزبان منیب فاروق کا ساتھ تھا، لیکن سالِ گزشتہ جون میں یہ 13 سالہ رفاقت بہت خوش دِلی کے ساتھ، بڑے خوش گوار ماحول میں ختم ہوئی۔ 

منیب فاروق نے ایک شان دار نوٹ کے ساتھ اپنے اِس سفر کے اختتام کا باقاعدہ اعلان کیا اور ’’جیو نیوز نیٹ ورک‘‘ کو صحافتی اعتبار سے نمبر ون چینل ہی نہیں، ایک بہترین مادرِعلمی، درس گاہ بھی قرار دیا۔ نیز، ہر کڑے وقت میں ادارے کےپشت پرموجودہونے، کھڑے رہنے کی روش کی بھی خُوب توصیف کی۔ دیگر چینلز کے قابلِ ذکر پولیٹیکل ٹاک شوز میں ’’ندیم ملک لائیو، دنیا کامران خان کے ساتھ، آن دِی فرنٹ وِد کامران شاہد، کل تک وِد جاوید چوہدری، میرے سوال، منصور علی خان کے ساتھ (بعد ازاں، منیب فاروق کے ساتھ) فیصلہ آپ کا وِد عاصمہ شیرازی، آف دی ریکارڈ، خبر، مہر بخاری کے ساتھ، ذرا ہٹ کے، نیوز بِیٹ ود پارس جہانزیب، ریڈ لائن وِد سیّد طلعت حُسین،جی فارغریدہ، لائیو وِد ڈاکٹر شاہد مسعود، بریکنگ پوائنٹ وِد مالک، الیونتھ آور، سوال یہ ہے، اب تک، ڈاکٹر دانش کے ساتھ، نسیم زہرا ایٹ پاکستان، نیوز اِیج وِد فریحہ ادریس، دو ٹوک، ایسے نہیں چلے گا، مدِمقابل، رُوبرو، اِن فوکس،خبرگرم ہے،اعتراض ہے،نکتۂ اعتراض، نائٹ ایڈیشن، دی رپورٹرز، نائنٹی ٹو ایٹ8، نیوز آئی، اسپاٹ لائٹ، اسٹریٹ ٹاک اور سیدھی بات وِد بینش سلیم وغیرہ شامل ہیں۔

خالص سیاسی، تجزیاتی ٹاک شوز سے ہٹ کر بات کریں، تو پولیٹیکل کامیڈی اور نان پولیٹیکل کامیڈی شوز نے بھی خاصی ریٹنگ لی، لیکن اِس صف میں بھی ’’جیو نیوز‘‘ کے مئی 2022ء میں آغاز ہونے والے کامیڈی شو ’’ہنسنا منع ہے‘‘ نے سب کو مات دے دی۔ جس کی بڑی وجہ یقیناً پروگرام کے میزبان تابش ہاشمی کا بے ساختہ پن، حاضر جوابی اور حسِ مزاح کی خداداد صلاحیت سے مالا مال ہونا ہے، تب ہی اُنہیں اسٹیج پر بےوجہ اچھل کُود (وہ پنجابی میں کہتے ہیں ناں، ٹپوسیاں مارنے)، بار بار مہمان کے جا گلے لگنے اور کسی لچر پن کی قطعاً ضرورت نہیں پڑتی۔ 

اُن کا ’’سینس آف ہیومر‘‘ ہی درحقیقت پروگرام کی کام یابی کی کلید ہے اور شاید اِسی سبب ’’HMH‘‘ کے لیے آئی ایم ڈی بی (انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس) کے رجسٹرڈ صارفین کی (یاد رہے، یہ صارفین 1 سے 10 تک کے ہندسوں میں ووٹنگ کرسکتے ہیں) ریٹنگ 8.2 تک جاپہنچی ہے۔ سال 2023ء میں ’’ہنسنا منع ہے‘‘ میں مختلف شعبۂ ہائے زندگی کی معروف ترین سلیبریٹیز نے نہ صرف شرکت کی بلکہ رات 11 بجے سے11:55 تک ناظرین کو جیو اسکرینز سے ہٹنے بھی نہیں دیا۔ 

اِسی نوعیت کے دیگر شوز میں ’’گپ شپ وِد واسع‘‘، ’’مذاق رات، عمران اشرف کے ساتھ‘‘، ’’حد کردی وِد مومن ثاقب‘‘، ’’پبلک ڈیمانڈ شو وِد محسن حیدر‘‘، ’’خبرہار وِد آفتاب اقبال‘‘، ’’ہوشیاریاں‘‘، ’’زبردست، وصی شاہ کے ساتھ‘‘، ’’دی شعیب اختر شو‘‘، حسن چوہدری کا ’’دی ٹاک ٹاک شو‘‘ اور عائشہ جہانزیب کا ’’چاکلیٹ ٹائمز‘‘ بھی دیکھے گئے، لیکن اِن میں سے زیادہ تر شوز ٹی وی اسکرین کے بجائے یا تو کسی نہ کسی سوشل میڈیا کنٹرووَرسی کے سبب ہائی لائٹ ہوئے یا صارفین کی طرف سے شیئرکردہ چھوٹے چھوٹے کلپس کی صُورت دیکھے گئے۔ ہاں البتہ ہر فن مولا سہیل احمد کی لاجواب مزاح نگاری کے سبب مقبول پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ کئی میزبانوں کی تبدیلی کے باوجود (آج کل فرید رئیس یہ ذمّے داری نبھا رہے ہیں) تاحال دیکھا اور پسند کیا جارہا ہے۔ اِسی طرح سہیل وڑائچ کے ’’ایک دن، جیو کے ساتھ‘‘ کی مقبولیت بھی ہنوز برقرار ہے، حالاں کہ اِسی فارمیٹ پر دوسرے چینلز کے کئی پروگرامز شروع ہوکر بند بھی ہوچُکے۔

پی ٹی وی ہوم نے سالِ رفتہ اپنی 59 ویں سال گرہ کافی دھوم دھام سے منائی۔ اِس ضمن میں ’’سفرمحبّتوں کا‘‘ کے عنوان سے کئی عُمدہ پروگرام ترتیب دیئے گئے، جن میں ماضی میں پی ٹی وی سے وابستہ رہنے والے متعدد لیجنڈز نےنہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی بہت خُوب صُورت، خوش گوار یادیں بھی تازہ کیں۔ پھر جشنِ آزادی کے موقعے پر’’سلام پاکستان‘‘ کے عنوان سے بھی خصوصی ٹرانس میشن کا اہتمام کیا گیا۔ 

نیز، عاصم یار ٹوانہ کے ’’اسٹار اینڈ اسٹائل‘‘ پروگرام کے سیزن فور کا سفر بھی بہت کام یابی مکمل ہوا، جب کہ اس سیزن کی شریک میزبان شرمین علی نے بھی اپنی فرائض عُمدگی سے انجام دیئے۔ ایک وقت تھا کہ پی ٹی وی کے ڈرامے، مُلک بھر کی گلیاں، سڑکیں ویران کردیتےتھےاورآج حال یہ ہےکہ سرکاری ٹی وی، نجی چینلز کے ڈرامے ری ٹیلی کاسٹ کرکے اپنا وقت پورا کررہا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک طے شدہ امرہے کہ اچھا کانٹینٹ آج بھی اپنی جگہ بنا لیتا ہے، خواہ پلیٹ فارم کتنا ہی چھوٹا، غیرمقبول کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ میاں یوسف صلاح الدّین کا پروگرام ’’وَرثہ‘‘ جتنے برس جاری رہا، لوگوں نے بصدشوق ہی دیکھا۔ سو، پی ٹی وی کواپنےاحیاء کے لیے ایسے ہی منفردپروگرامز کی تیاری پر بہت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

پاکستان سے فلمی موسیقی تو تقریباً ختم ہی ہوگئی ہے۔ دورِ حاضر میں نغمہ نگاروں، موسیقاروں اور گلوکاروں کو اگر کسی چیز نے زندہ رکھا ہوا ہے، تو وہ ہیں مختلف ڈراموں کے اوریجنل سائونڈ ٹریکس (او ایس ٹیز)۔ سال 2023ء میں بھی کئی او ایس ٹیز نے بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور سُر سنگیت کا شوق و شعور رکھنے والوں کے ہونٹوں پرمچلتے رہے۔ اور اس معاملے میں بھی مُلک کا سب سے مقبول و معتبر چینل ’’جیو‘‘ ہی نمبر لے گیا۔ 

سال کا سب سے مقبول او ایس ٹی ڈراما ’’جنّت سے آگے‘‘ کے لیے قراۃ العین بلوچ اور شجاع حیدر کا گایا ہوا ’’یار بہتیرے مِل جاندے، جنّت کمانا اوکھا ای اے..... اندر کجھ، باہرکجھ، دنیاتے یارو دھوکا ای اے‘‘ رہا، تو ’’تیرے بِن‘‘کا صابر ظفر کا لکھا اور شانی ارشد کا گایا ہوا ’’کیا ہوتی ہے بے وفائی، تجھے کرکے دِکھا دوں گا‘‘ نے بھی سرحد پار کے کئی معروف گیتوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ کیفی خلیل کا مقبول گانا ’’مجھے پیار ہوا تھا‘‘ چوں کہ اِسی نام پر تیار کردہ ڈرامے کا تھیم سانگ بھی تھا، تو سال بھر سُنا جاتا رہا۔ 

ڈرامے ’’کابلی پلائو‘‘ نے جہاں کئی اور ریکارڈ اپنے نام کیے، وہیں اُس کے لیے راحت فتح علی خان کے گائے او ایس ٹی ’’تمہیں دیکھا، تو یوں دیکھا، مصوّر ہوگئیں آنکھیں‘‘ اور سمی خان، نمرہ رفیق کی آواز میں دوسرے تھیم سانگ ’’کچھ ٹوٹی پھوٹی سی،آدھی ادھوری سی زندگی تو ڈھل جائے گی‘‘ نے بھی میوزک لووَرز کو پاگل کیے رکھا۔ اِسی طرح ساحر علی بگّا کی آواز میں ڈراما ’’جیون نگر‘‘ کے او ایس ٹی ’’آپ کتنےحسیں،آپ خُود بھی نہیں جانتے‘‘، ’’ورکنگ ویمن‘‘ کے’’او میرے عشق نُوں قتل نہ کر وَے‘‘ اور’’تمہارے حُسن کے نام‘‘ کے’’عشق کے روگ کو جانیےلادوا‘‘ نےبھی ناظرین و سامعین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ 

نیز، شائے گل اورسمی خان کی آواز میں ڈراما ’’یونہی‘‘ کا ٹائٹل سانگ ’’آ ملےہو یونہی، یا پھر یونہی آملے ہو‘‘، ’’جھوم‘‘ کا’’زندگی آوارگی ہے‘‘ اور عاصم اظہرکا’’منّت مراد‘‘ ڈرامےکا او ایس ٹی ’’دل ہارا، دل ہارا، تجھ پہ دل ہارا‘‘ بھی خُوب سُنے گئے، تو آن ایئر ڈرامے ’’عشق مرشد‘‘ کے ٹائٹل سانگ ’’تیرا میرا ہے پیار امر، تُو چاہے تو قدموں میں سَر رکھ دوں‘‘ کو احمد جہانزیب کی آواز نے کچھ ایسا سوز و گداز دے دیا ہے کہ ایک بار سُننے والا، دوسری بار سُنے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ 

ویسے اِن او ایس ٹیز کی اس قدر قبولیتِ عام کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ دورانِ ڈراما چوں کہ یہ بیک گرائونڈ میں مسلسل چلتے رہتے ہیں، تو کچھ تو ویسے ہی خاصی محنت سے تیارکردہ ہوتے ہیں، دوم بار بار سُن کے بھی ذہن میں رچ بس سے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ، سالِ رفتہ کوک اسٹوڈیو کے سیزن 15 نے خاصا مایوس کیا، حالاں کہ اِسی پلیٹ فارم سے سمی میری وار، توں جھوم جھوم، کنّایاری، بازی اور پسوڑی جیسے بلاک بسٹر نغمات ریلیز ہوچُکے ہیں۔

بچّوں کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ پروگرامز کا حسبِ روایت فقدان ہی رہا۔ تب ہی ٹی وی اسکرینز سے پہلے ہی دُور بچّے مزید دُور ہوگئے۔ جب کہ گزرنے وقت کے ساتھ ساتھ دینی و مذہبی پروگرامز کاتناسب بھی کم سے کم ہوتا چلا جارہاہے۔ اسپورٹس کی روزمرّہ خبروں کے ساتھ او ڈی آئی کرکٹ سیزن میں مختلف چینلز نے کچھ اسپورٹس شو ضرور تیار کیے، جن میں سرِفہرست جیو کا ’’جشنِ کرکٹ‘‘ تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا کہ کرکٹ سیزن میں اِس پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی تابش ہاشمی نے نبھائےاورکیا ہی عُمدگی سے نبھائے۔ 

اس کے علاوہ فخرِعالم کا ’’دی پویلین‘‘، ’’وسیم بادامی کا ’’ہر لمحہ پُرجوش‘‘، یحییٰ حسینی کا ’’اسکور‘‘ اور دانش انیس کا ’’اسپورٹس فلور‘‘ اور مرزا اقبال بیگ کا ’’اسپورٹس پیج‘‘ بھی دیکھے گئے۔ 2023ء میں پاکستان کے مقبول ترین ’’ایوارڈ شو‘‘ لکس اسٹائل ایوارڈ کی 22 ویں تقریب کا انعقاد بہت ہی دھوم دھام سے ہوا، اور حسبِ سابق و حسبِ روایت انعقاد کے کئی ہفتے بعد تک شو سخت تنقید کی زَد میں بھی رہا اور ہمیشہ کی طرح مدّعا وہی تھا ‘‘بولڈ ڈریسنگ‘‘، ’’فحش ڈانسز‘‘۔ 

ہاں، اس بار زیادہ سخت تنقید صبا قمر، آئمہ بیگ، امر خان، ماہم شاہد، مایا علی اور عائشہ عُمرکےحصّےآئی۔ لیکن ہواکیا، مختلف ولاگرز، سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے کچھ دن شور شرابا، احتجاج کیا اور اُس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ جیسی ہمارے یہاں عموماً ہر بڑے واقعے کے بعد چھا جاتی ہے۔ بہرحال، سالِ نو اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے، تو دیکھیں، یہ اپنے دامن میں کیا کیا سمیٹے آیا ہے اور کیا کیا گُل کِھلا کے جائے گا۔