• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نامساعد حالات کے باوجود ہر شعبہ زندگی میں صلاحیتوں کا اظہار، مردوں کی بالادستی چیلنج کی

خواتین کے حوالے سے متعصّبانہ سوچ اور رویّہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، اس کا تعلق کسی مخصوص قبیلے یا ثقافت سے براہِ راست نہیں، بلکہ یہ ایک عمومی رویّہ ہے اور یہی سلوک ہمیں یہ بتاتا ہے کہ عورت نے تاریخ میں کس قدر متعصّبانہ رویّے برداشت کیے ہیں۔ یوں کہنا چاہیے کہ ہزاروں سال کے اس مسلسل ناروا سلوک نے گویا اسے عورت کے ساتھ مشروط کردیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ پچاس برسوں میں کچھ واضح تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ 

تاہم، یہ تبدیلیاں اسی قدر ہیں کہ کہیں عورت کے ساتھ تعصّب کچھ کم برتا جارہاہے اور کہیں اب بھی زیادہ ہے، لیکن بہرحال،یہ اب بھی اپنی بھیانک شکل میں موجود ہے۔جب کہ اس سب کے باوجود کئی طویل المدتی تحقیقات نے ثابت کیا کہ متعدد شعبوں میں خواتین، مردوں سے بہتر کارکردگی کی حامل ہیں۔

2023ء دنیا بھر کی خواتین کے لیے حسبِ سابق ایک صبر آزما اور حوصلہ شکن سال رہا۔ بلاشبہ ترقی یافتہ ممالک اور بعض ترقی پذیر ممالک کی کئی خواتین نے انفرادی طور پر دنیا بھر میں اپنا نام روشن کیا، لیکن مجموعی طور پر صنفی مساوات کے حوالے سے مردوں کی بالادستی نمایاں رہی۔ ماہرینِ سماجیات تو کئی سال سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ دنیا میں عورتوں اور مَردوں کی برابری کا جو خواب دیکھا جارہا ہے، اُسے پورا ہونے میں کم ازکم 130برس کا عرصہ درکار ہے۔ 

اندازہ ہے کہ اگر دنیا میں خواتین کو مردوں کے برابر مواقع حاصل ہوں، تو دنیا بھرکی مجموعی قومی آمدنی میں 12کھرب ڈالر کا اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں ایک انتہائی خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود خواتین نے اقتصادی و سماجی میدان میں اپنی اہمیت منوالی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں آج کا دَور خواتین کی اہمیت کے حوالے سے "WOMEN ECONOMIC"کہلاتا ہے۔ یہ اصطلاح جاپانی وزیراعظم نے 2013ء میں وضع کی، اور پھر جاپان کی اقتصادی ترقی میں خواتین کو بھرپور مواقع فراہم کرکے اُن کی افادیت بھی ثابت کردی۔ بہرحال، خواتین کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں جدوجہد جاری ہے اور 2023ء میں خواتین کے عالمی دن کا نعرہ بھی یہی تھا کہ ’’عہدِ جدید کی ٹیکنالوجی کے تمام تر ذرائع بروئے کار لاکر صنفی مساوات کا خواب پورا کیا جائے۔‘‘

مجموعی طور پر دیکھا جائے، تو عالمی سطح پر سیاست اور بزنس میں ہزارہا مشکلات کے باوجود خواتین جدوجہد میں مصروفِ عمل نظر آتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے ’’ویمن میپ آف ویمن اِن پالیٹکس‘‘ کے مطابق، اس وقت 151 ممالک میں (بادشاہتوں کو چھوڑ کر)17ممالک میں خواتین سربراہانِ مملکت اور193ممالک میں سے19میں ہیڈ آف گورنمنٹ ہیں۔ یورپی ممالک ان میں سرفہرست ہیں، جہاں 16خواتین حکم ران ہیں۔ دنیا میں صرف13 ممالک ایسے ہیں، جہاں کی کابینہ میں خواتین کی تعداد مردوں کے برابر ہے، لیکن یہ گنتی کی محض چند خواتین ہیں۔ 

مجموعی طور پر دنیا بھر میں خواتین، غربت اور کسمپرسی کا شکار ہیں اور 2030ء تک عالمی سطح پرغربت کی شکار خواتین کی تعداد میں8فی صد اضافے کا خدشہ ہے۔ اس وقت خواتین اوسطاً 2اعشاریہ 15 ڈالر روزانہ پر گزارہ کررہی ہیں۔ دنیا میں 24فی صد خواتین غذائی قلّت کی شکار ہیں اور زچگی کے دوران اموات کی جو شرح 2015ء میں تھی، اب تک برقرار ہے، اس میں کوئی واضح کمی نہیں آسکی، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ 

دنیا میں خواتین کی محنت و مشقّت کا معاوضہ مردوں کے مقابلے میں بہت کم اور بعض حالات میں تو آدھا بھی نہیں ہے۔ خواتین کو مساوی حقوق دیئے جانے کے حوالے سے اس وقت دنیا بھر میں آئی لینڈ سرفہرست ہے، جب کہ عراق کا شمار نچلے ترین درجے میں ہے۔ مجموعی صورتِ حال سے واضح ہے کہ خواتین کو اپنی خوش حالی اور بہتری کے لیے ایک طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی خواتین کو، جہاں مَردوں کی بالادستی کو چیلنج کرنا کوہِ گراں سَر کرنے کے مترادف ہے۔

بہرحال، ان تمام تر مشکلات کے باوجود 2023ء میں دنیا بھر میں خواتین نے انفرادی طور پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے مَردوں کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے۔ اس ضمن میں معروف جریدے’’FORTUNE‘‘نے دنیا کی جن 100 کام یاب خواتین کی فہرست شائع کی، ان میں ایک بزنس وومین کیرن لینچ(KAREN LYNCT) سرفہرست ہیں، جن کے مالیاتی اثاثے کروڑوں ڈالر ہیں۔ 

فارچون کی اس فہرست میں 67خواتین، چیف ایگزیکیٹو آفیسرز ہیں۔61کا امریکا اور صرف16کا تعلق ایشیا سے ہے۔ ان تمام خواتین نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بزنس ایمپائرز کھڑی کرکے کاروبار میں مَردوں کی بالادستی کو چیلنج کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر دنیا کی مقبول ترین خواتین میں 2023ء میں کینڈل جینر (Kendall Jenner) کا پہلا نمبر رہا۔27 سالہ جینر کے اثاثہ جات کی مالیت 6 کروڑ ڈالر ہے، جب کہ ان کے فالوورز کی تعداد28 کروڑ سے زائد ہے۔ وہ امریکی میڈیا کی ایک اہم شخصیت ہیں۔ حیرت انگیز طور پر نیٹ پر دوسرے نمبر پر امریکی اداکارہ مارلن منرو ہیں۔ ماضی کی یہ مقبول ترین اداکارہ اس دنیا میں نہ ہونے کے باوجود اب بھی سب سے زیادہ ’’سرچ‘‘ کی جانے والی خواتین میں شامل ہے۔ بھارتی اداکارہ، پریانکا چوپڑا بھی اس فہرست میں شامل ہیں، جن کے انسٹا گرام پرفالوورز کی تعداد 8 کروڑ 60 لاکھ ہے۔ 

وہ مقبولیت میں 12ویں نمبر پر ہیں۔ امریکی سیاست میں فعال رہنے والی 75سالہ ہیلری کلنٹن بھی60لاکھ فالوورز کے ساتھ جانی پہچانی جاتی ہیں۔ گلوکارہ ٹیلر سوفٹ اور لیڈی گاگا بھی مقبول ترین خواتین کی فہرست میں شامل ہیں۔امریکی جریدے ’’ٹائم میگزین‘‘ نے بھی ویمن آف دی ایئر2023ء میں شامل خواتین کی فہرست کا اعلان کیا، جس میں کوئنٹا برونسن، کیٹ بلانسٹ اور انجیلا باسیٹ کے علاوہ دیگر باصلاحیت خواتین شامل ہیں۔ ان تمام خواتین نے فنونِ لطیفہ، بنیادی انسانی حقوق اور تحفّظِ ماحولیات کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ 2مارچ 2023ء کو جاری کی جانے والی اس فہرست میں خاتون باکسر، رملہ علی اور تحفّظِ ماحولیات کے حوالے سے پاکستانی نژاد عائشہ صدیقہ کے نام بھی شامل ہیں۔ 

نیویارک میں مقیم 27سالہ عائشہ بنیادی انسانی حقوق اور ماحولیاتی تبدیلی پر ایک مضبوط آواز سمجھی جاتی ہیں، انہوں نے گزشتہ برس شرم الشیخ میں اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی کلائمیٹ کانفرنس سے بھی خطاب کیا تھا۔ ویکلی ٹائم میگزین نے 2023ء کی بہترین شخصیت کے طور پر 33سالہ امریکی گلوکارہ ٹیلرسوئفٹ کا انتخاب کیا۔ 2023ء میں خلائی سفر کے حوالے سے بتایا گیا کہ 73خواتین خلا نورد، خلا کا سفر کرچکی ہیں۔ 

اس موقعے پر ایک دانش وَر ویلنٹیا ترسخوف نے کہا کہ ’’جس طرح پرندہ ایک پَر سے نہیں اڑسکتا، اسی طرح خلائی پروازوں میں بھی خواتین کی شرکت کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔‘‘ ادھر، یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، ابھی بھی سائنس کے میدان میں خواتین متعصّبانہ رویّوں کی شکار ہیں اور انجینئرنگ کی فیلڈ سے لے کر معتبر جرنلز میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت تک، ہر جگہ واضح صنفی تعصّب نظر آتا ہے۔

پاکستانی خواتین

عالمی منظرنامے سے ہٹ کر اگراپنے ملک میں خواتین کے حالاتِ زندگی کا جائزہ لیا جائے، تو یہاں کی صورتِ حال بھی کچھ زیادہ خوش آئند اور حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت صنفی مساوات کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے 146ممالک میں142ویں درجے پر ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ برسوں سے پاکستان کا شمار خواتین کے لیے 5انتہائی خطرناک ممالک میں ہوتا چلا آرہا ہے۔

تاہم، بے شمار مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود، پاکستانی خواتین نے سینٹرل سُپریئرسروسز(سی ایس ایس)سے لے کر تعلیم و تدریس، فنونِ لطیفہ، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، افواجِ پاکستان، طب، کھیل، پولیس، بزنس، اسپورٹس اور دیگر شعبہ جات میں ملک و قوم کا خوب نام روشن کیا ہے۔ ’’وومین آف دی ایئر‘‘ کے حوالے سے عائشہ صدیقہ کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔2023ء میں بی بی سی نے جن پُرعزم اور باہمّت خواتین کی فہرست جاری کی، اُن میں دو پاکستانی خواتین بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک مڈوائف اور ہیلتھ ورکر، نیہا منکانی اور دوسری افروزخاتون ہیں۔ نیہا گزشتہ کئی دہائیوں سے سندھ کے دُوردراز دیہات میں دایہ کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ 

انہوں نے ’’ماما بے بی فنڈ‘‘ کے تحت سیلاب کے دوران 15ہزار خاندانوں کو زچّہ و بچّہ کی محفوظ سہولتیں فراہم کیں۔ دوسری جفاکش خاتون افروز، پاکستان کی وادئ شمشال میں گزشتہ 30برس سے بھیڑبکریاں چَراکر، صدیوں پرانے پیشے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ عالمی سطح پر اعزاز حاصل کرنے والوں میں ڈسکہ (سیال کوٹ) میں مقیم ٹیچر، سسٹرزیف بھی شامل ہیں۔ جنہوں نے بے سہارا اور غریب افراد کے لیے درس و تدریس کے ضمن میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ جس کے اعتراف میں انھیں عالمی اعزاز ’’گلوبل ٹیچر‘‘ سے نوازا گیا۔ملتان کے ایک کالج کی پرنسپل بینش سعید نے ایشیا کا ’’پرنسپل آف دی ایئر‘‘ کا ایوارڈ جیت لیا۔ انھوں نے ایشیا کے 15ممالک کے 2085مرد و خواتین امیدواروں میں سے یہ ایوارڈ جیتا ۔

اسپورٹس کے میدان میں 5پاکستانی خاتون ایتھلیٹس نے چین میں چن گو کے مقام پر ہونے والے عالمی مقابلوں میں دو گولڈ میڈل، ایک سلور اور ایک کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ خواتین کی کرکٹ ٹیم نے نیوزی لینڈ کو ٹی۔ ٹوئنٹی سیریز میں شکست دی۔ اس کے علاوہ ایک عالمی تنظیم نے یاسمین لاری کو ’’فرسٹ فی میل آرکیٹیکٹ‘‘ کے ایوارڈ’’Riba Gold‘‘ میڈل سے نوازا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی منظرنامے پر ’’مس یونیورس پاکستان‘‘ اور ’’مس انٹرنیشنل پاکستان 2023ء‘‘ کے حوالے سے پاکستانی نژاد امریکی خاتون، ماڈل ایریکا رابن اور جرمنی میں مقیم مصباح ارشد کے نام سامنے آئے، جو کافی بحث مباحثے کا سبب بھی بنے۔ 

مصباح ارشد، مس یونیورس2023ء کے مقابلے میں سرِفہرست 20خواتین میں شامل تھیں۔ 2023ء میں پاکستانی نژاد امریکی گلوکارہ عروج آفتاب نے گریمی پریمئر ایوارڈ شو میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ملتان میں مقیم شازیہ پروین نے پاکستان کی پہلی فائر فائٹر خاتون کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ پاکستانی خواتین تو عالمی منظرنامے پر اُجاگر ہوئیں۔ تاہم، ملک کے اندر خواتین کو برسوں سے جاری چیلنجز کا سالِ رفتہ بھی سامنا رہا۔ صنفی مساوات کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ زچگی کے دوران ہر سال 5ہزار خواتین کی موت کی شرح بدستور برقرار رہی۔ پاپولیشن کائونسل کی رپورٹ کے مطابق، صوبہ پنجاب میں اوسطاً 3اعشاریہ 4بچّے پیدا ہورہے ہیں۔

تاہم، ہر سال ایک ہزار بچّوں میں سے 73بچّے، ایک سال کی عُمر تک پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں۔ اس سال خواتین پر گھریلو تشدّد بھی کم نہ ہوسکا۔ ملک میں 15سے 49سال کی عُمر کی 40فی صد خواتین کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر 10میں سے ایک خاتون زندگی میں ایک بار تو تشدّد کا نشانہ ضرور بنتی ہے۔ پاکستان، دنیا بھر میں غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بھی خاصا بدنام ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2022ءمیں غیرت کے نام پر قتل کے 470 واقعات ہوئے، لیکن اکثر حلقے ان اعداد و شمار سے متفق نہیں۔

کیوں کہ پاکستان کے دُور دراز دیہات اور قبائلی علاقوں میں ہونے والے اس قسم کے واقعات بہت کم میڈیا کی توجّہ حاصل کرپاتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ’’پاپولیشن فنڈ‘‘ نے دنیا بھر میں ہر سال غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات کی تعداد 5ہزار بتائی ہے۔ اس سلسلے میں ایران سرِفہرست ہے۔2023ء کا سال بھی بہیمانہ طور پر قتل کی جانے والے دو خواتین، نورمقدم اور سارہ انعام کے غم زدہ لواحقین کے لیے حصول انصاف کے کرب انگیز انتظار میں گزرا۔ نورمقدم کا کیس اب تک عدالت میں ہے، تاہم، دسمبر کے دوسرے ہفتے میں سارہ انعام قتل کیس کا فیصلہ آگیا، جس کے مطابق مجرم شاہ نواز امیر کو سزائے موت اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی، جب کہ عدم ثبوت کی بنا پر مجرم کی والدہ ثمینہ شاہ کو بری کردیا۔ عدالت نے مجرم کو مرنے تک پھانسی پر لٹکانے اور جرمانے کی رقم مقتولہ سارہ انعام کے ورثاء کو دینے کی بھی ہدایت کی۔

پاکستان میں اقتصادی بحران، منہگائی اور بے روزگاری کی لہرسے خواتین بھی شدید متاثر ہوئیں۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون خانہ کا کہنا تھا کہ ’’دسمبر 2023ء میں پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ انڈیکس کے تمام گزشتہ ریکارڈ ٹوٹنے کا دن رات چرچا رہا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے منہگائی اور بے روزگاری کم ہوئی اور عوام کے دیگر مسائل حل ہوئے۔ یقیناً اس کا جواب نفی ہی میں آئے گا۔‘‘ ملک میں خواتین کی بے روزگاری کے حوالے سے گزشتہ برس کی ایک رپورٹ سے بہت کچھ واضح ہوگیا۔ ’’گیلپ پاکستان‘‘ اور ’’پرائڈ‘‘ کی مشترکہ ریسرچ کے مطابق، اس وقت ملک میں تقریباً 29ہزار خواتین انجینئرز گریجویٹس موجود ہیں، جن میں سے صرف 8ہزار146برسرِروزگار، جب کہ 70فی صد بے روزگار ہیں۔ (واضح رہے، ان میں بیلچرز، ایم۔ ایس، ایم ایس سی۔ ایم فل اور پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز بھی شامل ہیں)۔ 

ویسے پاکستانی خواتین نے 2023ء میں انفرادی طور پر زندگی کے لگ بھگ تمام ہی شعبوں میں قابلِ قدر ترقی، بالخصوص اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی شرح میں اضافہ ہوا اور منہگی ترین تعلیم کے باوجود والدین پیٹ کاٹ کر اپنی بیٹیوں کوصرف اس امید پر تعلیم دلوارہے ہیں کہ وہ آنے والے وقت میں معاشی طور پر مستحکم ہوں۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں تاکہ ہر طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہوسکیں۔

پاکستان کے موجودہ دگرگوں سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات میں اگرچہ والدین اور خواتین کو اپنے خوابوں کی تکمیل ممکن نظر نہیں آرہی، لیکن پھر بھی نئے سال 2024ء کا استقبال بھی وہ اسی آس اور امید سے کریں گے، جیسے برسوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔