بات چیت: طارق ابوالحسن، کراچی
ڈاکٹر خالد قدومی، فلسطینی مزاحمتی تحریک، حماس کے ترجمان اور اہم رُکن ہیں۔ وہ تنظیم کی جانب سے ایران میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے کراچی آئے، تو اُن سے فلسطین اور غزہ میں جاری جنگ سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی، جو جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: اپنے خاندان اور تعلیم وغیرہ سے متعلق کچھ بتائیے؟ آخری بار اپنے وطن کب گئے تھے؟
ج: مَیں مغربی کنارے ،یعنی غربِ اردن سے ہوں۔ہمارے گاؤں کا نام کفرقدوم ہے۔کفر کا مطلب ہے، کھیتی باڑی والی زمین اور قدوم کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی آمد سے ہے کہ وہ اس علاقے میں تشریف لائے تھے۔ مَیں فلسطین سے باہر ،یعنی کویت میں پیدا ہوا۔دراصل، میرے دادا اور والد نے1967 ء میں فلسطین سے ہجرت کی تھی۔ والد صاحب کی شادی بھی فلسطین سے باہر ہوئی۔
وہ اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے واپس نہ جا سکے۔ مَیں آخری مرتبہ فلسطین اُس وقت گیا، جب مَیں دو سال کا تھا۔اگر مَیں اپنے علاقے، غربِ اردن جانے کی کوشش کروں، تو اسرائیل مجھے گرفتار کر لے گا۔اِسی طرح غزہ بھی نہیں جا سکتا کہ وہاں کے ڈاکیومینٹس بھی ہمارے پاس نہیں ہیں۔ والد صاحب اپنے بچّوں کی تعلیم سے متعلق بہت فکر مند تھے، کیوں کہ فلسطینیوں کا سب سے بڑا ہتھیار اُن کی تعلیم ہی ہے۔مَیں ایلو پیتھک ڈاکٹر ہوں، مَیں نے پاکستان سے ایم بی بی ایس کیا، جب کہ میری اہلیہ کا تعلق بھی پاکستان سے ہے اور وہ بھی ڈاکٹر ہیں، اِسی لیے میری اُردو بہت بہتر ہے۔ ہمارے چار بچّے ہیں۔
س: حماس نے7 اکتوبر کو جو جنگ شروع کی، اس کے کیا مقاصد تھے؟
ج: دیکھیں، اصل چیز یہ ہے کہ ہم75 سال کے جنگی جرائم کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی برادری منافق اور ساکت ہے،اقوامِ متحدہ نے1947 ء میں کہا کہ فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست ہونی چاہیے، لیکن ہم اب تک صرف اور صرف اسرائیل ہی کی ریاست دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیل جبر اور زور سے فلسطین کے80فی صد سے زاید رقبے پر قابض ہے اور باقی جو جگہ بچی ہے، وہ ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہم نے اِتنے جرائم کے باوجود تحمّل سے کام لیا۔
دنیا کو پیغام دیا کہ ہم اس زمین کے قانونی وارث ہیں، ہم اِس وطن کے مالک ہیں، اسرائیلی تو ایلینز ہیں، اُن کا اس سرزمین سے کوئی تعلق نہیں۔15مئی 1948ء سے پہلے اسرائیل کا وجود ہی نہیں تھا کہ جو ہم کہیں کہ فلسطین کا فلاں علاقہ اسرائیل کا ہے۔اسرائیل کا فلسطینی سرزمین سے کوئی مذہبی، تاریخی اور جغرافیائی تعلق نہیں ہے۔تو جب ہمیں کہیں سے انصاف نہیں ملا، تو پھر یہ’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن شروع کیا گیا۔
اِس حملے کی وجہ غزہ کا مسلسل محاصرہ اور مسلمانوں کے قبلۂ اوّل، مسجدِ اقصیٰ کی بے حرمتی ہے۔7 ہزار سے زاید فلسطینی اسرائیل کی قید میں ہیں، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، ارکانِ پارلیمان اور دیگر شعبوں سے وابستہ افراد شامل ہیں، برسوں سے جیلوں میں بند یہ قیدی ہمارے ہیروز ہیں۔ان میں بچّے اور عورتیں بھی ہیں، مگر کسی نے اس مسئلے پر کوئی توجّہ نہیں دی۔
اُنھیں قید میں ناقابلِ بیان اذیّتیں دی جاتی ہیں۔بعض فلسطینیوں کو تین، تین سو سال قید کی سزائیں دی گئیں۔ جب قید میں کسی فلسطینی کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اُس کی لاش تک خاندان کو نہیں دی جاتی کہ سزا کی بقیہ مدّت تک لاش بھی قید رہے گی۔ دنیا ہم پر ہونے والے ظلم پر کوئی توجّہ نہیں دے رہی تھی، اِس لیے ہم نے طوفان الااقصیٰ کا آغاز کیا تاکہ یہ طوفان دنیا کو سمجھا سکے کہ فلسطینی انصاف کے منتظر ہیں اور اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
س: کیا فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے لیے ضروری ہے کہ حماس اسرائیلی شہریوں کو اغوا کرے؟
ج: ہم نے کسی شہری کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جن اسرائیلیوں نے ہماری زمینوں پر زبردستی قبضہ کر کے گھر بنا رکھے ہیں، اُن کا یہ قدم عالمی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے۔دوسری بات یہ کہ ان میں سے اکثر فوجی ہیں، ان کے پاس ہتھیار ہیں، انہوں نے دو سال کی ملٹری ٹریننگ بھی کی ہے۔اسرائیل کی ریزروڈ آرمی چار لاکھ فوجیوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے دو لاکھ یہی یہودی آباد گار ہیں، جو فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے آباد کیے گئے۔
ہمارے پاس جو قیدی ہیں، ان میں100اسرائیلی فوجی ہیں، جنھیں اسرائیلی چھاؤنیوں اور ٹینکوں کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔ ایسا بھی ہوا کہ ناراض فلسطینی عوام نے کچھ اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا، کیوں کہ اُن کے پیارے برسوں سے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں،جہاں اُن کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے اُن یرغمالیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ہم نے پہلے روز ہی کہہ دیا تھا کہ ہم غیر اسرائیلیوں کو کسی تبادلے کے بغیر رہا کرنے پر تیار ہیں، خاص طور پر سویلینز کی رہائی کی بھی بات کی، لیکن اسرائیلی حکومت نے انکار کر دیا۔
بعد میں حالات تبادلے کی طرف چلے گئے۔ جو اسرائیلی شہری اور فوجی اب تک ہمارے قبضے میں ہیں، تو اس کی وجہ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کا ظالمانہ رویّہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی ہم پر مسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا رہے اور ہم چُپ چاپ سہتے رہیں۔ ہم مظلوم ہیں،75سال سے اسرائیل کے جرائم کا شکار ہیں، جب تک ہماری بات نہیں مانی جاتی، جب تک ہمارے قیدی اپنے خاندانوں سے نہیں مل جاتے، اسرائیلی قیدی بھی اپنے خاندانوں میں واپس نہیں جائیں گے۔
س: اسرائیلی قید خانوں میں فلسطینیوں سے کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟
ج: چند روز قبل جو فلسطینی لڑکیاں رہا ہوئی ہیں، اُنھوں نے بہت ہی دل دوز کہانیاں سنائی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب 27اکتوبر سے اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کا آغاز کیا اور جیسے ہی اُنھیں پتا چلا کہ حماس کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ کرنا ہے، تو اُنھوں نے فلسطینی قیدیوں پر بہیمانہ تشدّد شروع کر دیا، جس سیل میں تین افراد کی گنجائش تھی، اُس میں بارہ، بارہ لوگوں کو ٹھونس دیا گیا،جب کہ کھانا صرف تین افراد ہی کے لیے دیا جاتا۔اُنھیں دن میں صرف ایک بار واش روم جانے کی اجازت ملتی۔لڑکیوں کو دو، دو گھنٹے کُھلے مقامات پر برہنہ رکھا گیا۔
وہاں لوگوں کو طویل عرصے کے لیے قیدِ تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق قیدیوں کو جو کم سے کم حقوق حاصل ہیں، اسرائیلی جیلوں میں وہ بھی نہیں دیئے جاتے۔ یہاں تک کہ قیدیوں کو وکیل تک کرنے کی اجازت نہیں ۔ دو ہزار سے زاید فلسطینی قیدیوں کو کسی سبب کے بغیر ہی Administrative detention میں رکھا گیا ہے۔ ان قیدیوں کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے اور نہ ہی گرفتاری کی وجہ بتائی جاتی ہے۔
فلسطینی قیدیوں کی میّتیں بھی اسرائیل ہی کے پاس ہیں۔ جیل کے قبرستان میں1980ء سے ہمارے شہداء کی ڈیڈ باڈیزموجود ہیں، جو اُن کے خاندانوں کے حوالے نہیں کی جاتیں۔ میّتوں کے ڈی این اے تک کی اجازت نہیں کہ قیدیوں کے خاندان ہی کا علم ہوسکے۔سفّاکیت کی انتہا دیکھیں کہ قید میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی میّتیں ڈیپ فریزرز میں رکھی ہوئی ہیں، مگر ورثا کو نہیں دی جا رہیں۔
س: اسرائیل اِس جنگ میں آگے بڑھتا نظر آرہا ہے، شمال سے شروع ہوا تھا، جنوب تک پہنچ چُکا ہے، ایسے میں غزہ کا کیا مستقبل ہے؟
ج: یہ اُن کا وہم ہے۔ اسرائیل اپنا ایک ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا،وہ ہمارے عوام کو جبری طور پر غزہ سے باہر نہیں نکال سکا، کیوں کہ فلسطینی عوام نے طے کرلیا ہے کہ وہ دوسرے نکبہ کے لیے تیار نہیں، جس طرح1948 ء میں ہوا تھا۔ تیسری بات یہ کہ اسرائیل، حماس کو بھی ختم نہیں کرسکا۔آج بھی ہمارے مجاہدین، اسرائیل کا سامنا کر رہے ہیں۔27 اکتوبر سے لے کر آج تک ہر روز اوسطاً تین اسرائیلی فوجی ہلاک اور کم از کم دس اسرائیلی ٹینکس یا فوجی گاڑیاں تباہ ہو رہی ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم اپنے عوام کا ردّعمل دیکھیں، جو ہزاروں کی تعداد میں اُن کے دفتر کے سامنے احتجاج کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو کو پتا ہے کہ اگر آج جنگ روکی، تو اُن کا دوسرا دن جیل میں ہو گا۔ اِسی لیے وہ جنگ کو طول دے رہے ہیں۔مگر اسرائیل کتنا برداشت کر سکتا ہے، جب کہ دو اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز ایک ہفتے کا جنگی خرچہ ہے۔ اسرائیل نے اُدھار لینا بھی شروع کر دیا ہے۔ امریکا بھی اس جنگ کا خرچہ زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکے گا۔ یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی، ہم نے جو کیا، اپنے دفاع میں کیا، طوفان الاقصیٰ دنیا کو یہ بتانے کے لیے کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ فلسطینیوں کو اُن کے جائزحقوق واپس ملیں۔
س: آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ اسرائیل یہ جنگ ہار رہا ہے؟
ج: خود اسرائیلی حکومت نے اپنے سیکڑوں افراد کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے، جن میں 25فی صد اسرائیلی فوجی ہیں۔ دوسری طرف سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی وہ مشکلات کا شکار ہے، آج دنیا بھی یہ کہہ رہی ہے کہ اسرائیل، غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے اور اسے روکنا چاہیے۔ سفارتی محاذ پر وہ تنہا ہو رہا ہے۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ عالمی رہنما ،حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ، اسماعیل حانیہ کے ٹیلی فون ریسیو کرتے ہیں۔ اسماعیل حانیہ نے روس، چین، قطر، مصر، اسلام آباد، تہران اور انقرہ سمیت کئی ممالک کا دورہ کیا، ہر جگہ اُنہیں سرکاری سطح پر خوش آمدید کہا گیا۔
ہمارے بیانیے کو آزاد اور انصاف پسند دنیا نے قبول کیا ہے، غیر مسلم اور غیر عرب ممالک میں عوام فلسطین کی حمایت میں سڑکوں پر نکلے ہیں۔ بولیویا سے لے کر لندن تک عظیم مظاہرے ہوئے، اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکا اور برطانیہ میں عوام خُود اپنی حکومتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔اسرائیل کا ہولوکاسٹ اور مظلومیت کا بیانیہ بھی شکست کھا چُکا ہے۔ اب دنیا، اسرائیل سے پوچھ رہی ہے کہ فلسطین میں آپ جو کچھ کر رہے ہیں، تو کیا یہ ہولوکاسٹ نہیں ہے۔
ہمارا بیانیہ کام یاب ہے، فوجی محاذ پر اسرائیل ہمیں شکست نہیں دے سکا، سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی ہم کام یاب ہیں۔ اسرائیل اپنے بنانے والوں، یعنی مغربی طاقتوں پر ایک بوجھ بن چُکا ہے۔ امریکی صدر بھی کہہ رہے ہیں کہ نیتن یاہو کو اپنی کابینہ تبدیل کرنی چاہیے۔یہ ہماری جیت نہیں، تو اور کیا ہے۔
س: جنوبی افریقا عالمی عدالتِ انصاف میں گیا ہے کہ اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جائے؟
ج: جنوبی افریقا کے عوام، خاص طور پر وہاں کی حکومت ایک رول ماڈل ہے۔ غزہ میں مظالم پر جنوبی افریقا نے اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کی سطح کم کر دی، پارلیمنٹ نے اسرائیل سے تعلقات ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور بزنس کا بائیکاٹ کیا۔ جنوبی افریقا نے اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس جا کر اچھا کیا، لیکن بدقسمتی سے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے آئی سی جے کسی کی طرف دار ہے۔
س: حماس نے کبھی بھی ارضِ فلسطین سے باہر کوئی عسکری کارروائی نہیں کی، پھر بھی بعض قوّتیں اسے کیوں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دینا چاہتی ہیں؟
ج: امریکا ہو یا اسرائیل، وہ کسی کو گڈ ایپل یا بیڈ ایپل قرار دینے والے کون ہوتے ہیں۔ امریکا جو خود ویتنامیوں اور افغانوں کا قاتل ہے، جو ناگا ساکی اور ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکنے کا مجرم ہے، وہ حماس کو کیسے دہشت گرد کہہ سکتا ہے۔ دہشت گرد وہ ہیں، جو ہزاروں فلسطینی بچّوں اور خواتین کے قاتل اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے عوام کے خدمت گار ہیں اور اپنے لوگوں کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، اِس لیے ہم دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔
س: حماس نے اِس جنگ میں اب تک کیا حاصل کیا؟
ج: ہم کنوینشنل وار تو نہیں لڑ رہے اور نہ ہی ہم کلاسیکل آرمی ہیں، ہم تو گوریلا وار لڑ رہے ہیں۔ ہمارا ہدف دشمن کا سیکیوریٹی سسٹم اور اس کی معیشت ہے۔ الحمدللہ، اب تک کی جنگ میں اسرائیل نے ایسا کچھ حاصل نہیں کیا، جس سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کر سکے۔ جب کہ ہم نے7 اکتوبر کو اسرائیل کا ایک بلین ڈالر کا الیکٹرانک وار فیئر ناکام بنا دیا۔
دیکھیں، جس نے آزادی حاصل کرنی ہوتی ہے، وہ اپنے نقصانات نہیں گنتے، اپنی کام یابیوں کو اہمیت دیتے ہیں اور ہم نے عسکری طور پر بہت سی کام یابیاں حاصل کی ہیں۔ سیاسی اور سفارتی سطح پر اب کوئی اسرائیل کا بیانیہ قبول نہیں کر رہا۔گو کہ عالمی برادری امریکا کے ویٹو پاور کی وجہ سے کچھ نہیں کر پا رہی، لیکن دنیا بَھر کی سڑکوں پر عوام کا جو جوش وخروش ہے، لوگ اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں بات کر رہے ہیں، تو یہ ہماری بڑی کام یابی ہے۔
س: اِس جنگ میں فلسطینیوں کا جو جانی نقصان ہو رہا ہے، اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، کیا7 اکتوبر کے حملے کے وقت حماس کو اس کا اندازہ تھا؟
ج: یہ باتیں ہی عجیب لگتی ہیں، یعنی لوگ ہم سے کہنا چاہتے ہیں کہ مت لڑو، سمجھوتا کرلو۔ مگر ہماری کتابوں میں ذلّت کی زندگی نہیں ہے۔ہمارے عوام اس ذلّت کے لیے تیار نہیں ہیں۔عالمی برادری کے لیے75سال ایک بہت بڑا عرصہ ہے، وہ چاہتی تو اس دَوران یہ مسئلہ حل کرسکتی تھی۔ہم آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ عالمی برادری اسرائیلی جرائم روکنے کے لیے آگے آئے۔
اسرائیل ایک قابض قوّت اور سام راج ہے، پھر دنیا کیوں اُسے برداشت کر رہی ہے، کیوں ہماری زمینوں پر اُسے حاوی ہونے دیا جا رہا ہے، عالمی برادری جنگ رکوائے۔ ہم کیوں چاہیں گے کہ ہمارے بچّوں کا خون ہو، لیکن مزاحمت ہماری مجبوری ہے، کیوں کہ دنیا نے ہمارے لیے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا۔ ہم عزّت کے اِس راستے میں جان دینے کے لیے تیار ہیں اور یہی ہمارے عوام کو بھی منظور ہے۔ اب ہم 7 اکتوبر سے پہلے والے دَور میں جانے کے لیے تیار نہیں۔
س: اسرائیل کا کہنا ہے کہ اگر حماس کے چند رہنماؤں کو مار دیا جائے، تو غزہ اور حماس دونوں قابو میں آجائیں گے؟
ج: دیکھیں، حماس کوئی تنظیم نہیں، ایک فکر کا نام ہے۔یہ عوام کے دِلوں میں ہے اور آج اگر فلسطینی عوام سے پوچھیں، تو وہ کہیں گے کہ’’تحریکِ مزاحمت یعنی حماس یعنی القدس یعنی غزہ یعنی غربِ اردن یعنی فلسطین۔‘‘ تو اِسی لیے ہم کہتے ہیں کہ حماس کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے۔ ہم خوشی، غمی میں اپنے عوام کے ساتھ ہوتے ہیں۔
ہمارے بچّے، ہمارے قائدین کے بچّوں کے ساتھ شہید ہوتے ہیں، ہمارے گھر مسمار ہوتے ہیں، تو ہمارے رہنماؤں کے گھر بھی مسمار ہوتے ہیں، ہماری اور ہمارے رہنماؤں کی آرزو ہی شہادت ہے، تو پھر ہمیں شہادت سے کیسے ڈرایا جا سکتا ہے۔ حماس کو ختم کرنا ایسا ہی ہے، جیسے فلسطینی عوام کو ختم کرنا، یعنی اس کے نظریے کو ختم کرنا۔ ہم نظریے کے پیچھے ہیں، ہم عدل کے ساتھ ہیں، یہ حق اور باطل کی جنگ ہے اور آخری فتح تک جاری رہے گی۔
س: ایسا کب ہو گا کہ اسرائیل اور فلسطین امن و سکون سے رہ سکیں؟
ج: یہ اسرائیل ایک Alien entity ہے، جو15مئی1948 ء کو فلسطین پر قابض ہوا۔ لیگ آف نیشنز میں اِس سرزمین کا نام فلسطین رجسٹر ہوا۔ برطانیہ بھی اپنے پرسنل، پبلک ڈاکیومینٹس میں’’ فلسطین اسٹیٹ‘‘ ہی کا نام استعمال کرتا رہا۔ ہمارے بعض پاکستانی دوست یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل ایک مُلک ہے اور فلسطین کوئی دوسرا مُلک ہے، جو آپس میں لڑ رہے ہیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ 15مئی1948ء سے پہلے اسرائیل نام کا کوئی مُلک تھا ہی نہیں۔ فلسطین کی سرزمین پر انگریزوں نے قبضہ کرکے دنیا بَھر سے یہودیوں کو یہاں بسایا اور فلسطینیوں کو اُن کے گھروں اور وطن سے باہر نکال دیا۔
انگریزوں نے فلسطین کو اسرائیل بنایا، لہٰذا حالات اُس وقت تک بہتر نہیں ہوں گے، جب تک ہمیں انسانی حقوق حاصل نہیں ہو جاتے۔ہمیں امن، انصاف اور حقوق دئیے بغیر عالمی برادری یہ کیسے سوچ سکتی ہے کہ اسرائیلی عوام چین سے جیئں اور فلسطینی عوام مشکلات، غلامی اور عدم تحفّظ کی زندگی گزاریں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہماری نسل اور ہماری اولاد بھی اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
ہم اسرائیلیوں کے خلاف نہیں ہیں، اسرائیل کے خلاف ہیں، اُس کے سیاست دانوں کے خلاف ہیں، انسانوں کا یہودی ہونا، کرئسچن ہونا یا مسلمان ہونا، تو یہ کوئی مسئلہ نہیں، یہ جو Right to self determination ہوتا ہے، وہ تب ہوگا، جب آزادی ہو۔یہ پورا علاقہ فلسطینیوں کا ہے اور فلسطین کے علاوہ اس کا کوئی اور نام نہیں ہے۔
س: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر غزہ کو غیر مسلّح کر دیا جائے، تو خطّے میں امن ہو جائے گا؟
ج: مغربی کنارے میں تو ہم مسلّح نہیں ہیں، وہاں ہتھیار بھی نہیں ہیں، وہاں اسرائیل کا قبضہ ہے، اُس کی سیکیوریٹی، پولیس ہے، وہاں دنیا کی دوسری طاقتیں بھی موجود ہیں، تو کیا وہاں امن ہوگیا ہے۔7 اکتوبر کے بعد وہاں300 سے زاید فلسطینیوں کو شہید اور4 ہزار سے زاید کو گرفتار کیا جا چُکا ہے۔ اگر اُس علاقے میں کسی کے پاس پھل کا چاقو بھی نکل آئے، تو اُسے15 سال جیل کی سزا ہو جاتی ہے، مگر غیر مسلّح ہونے کے باوجود جب ویسٹ بینک میں امن نہیں ہو سکا، تو غزہ کے غیر مسلّح ہونے پر کیسے اسرائیلی مظالم ختم ہو جائیں گے اور امن ہو جائے گا۔ اسرائیل اپنا سام راجی رویّہ ختم کرے گا، تب ہی امن ہوگا۔
س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اگراسلامی ممالک تھوڑی سی جرأت سے کام لیں، تو مسئلۂ فلسطین حل ہوجائے گا؟
ج: فسلطینی مجاہدین تو ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں، صرف 365 اسکوائر کلومیٹر کے علاقے میں، جہاں کوئی ملٹری CAPIBILITY نہیں ہے، کوئی پہاڑ اور جنگل نہیں ہیں، اس کے باوجود کہ وہ اسرائیل کو ہرا سکتے ہیں۔اس جنگ نے مسلم اُمّہ کو ایک موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنی سفارت کاری اور سیاسی طاقت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے مضبوط موقف اپنائیں۔ وہ او آئی سی کی قراردادوں پر عمل درآمد کر وائیں۔
کیا آپ یہ مان سکتے ہیں کہ57 مسلم ممالک، جن کی آبادی دو ارب سے زاید ہے، جو بہترین وسائل رکھتے ہیں، وہ غزہ کی سرحد یعنی رفح گیٹ نہیں کھلوا سکتے، یوں وہ اپنے فلسطینی مظلوم بھائیوں تک پانی بھی نہیں پہنچا سکتے۔ یہ وہ سوال ہے، جو او آئی سی سے پوچھنا چاہیے۔ ہم دنیا سے لڑنے کی بات نہیں کر رہے، لیکن او آئی سی اپنی حیثیت تو پہچانے۔ او آئی سی کا اصل ہدف ہی مسجدِ اقصیٰ کو بچانا ہے اور آج اسرائیل اُس مسجدِ اقصیٰ کو تقسیم بھی کرچُکا ہے۔
س: احتجاج، مظاہروں اور بائیکاٹ سے فلسطینیوں کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے؟
ج: یہ دنیا کے انصاف پسند عوام ہی کا دباؤ ہے کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کو سپورٹ کرنے کی وجہ سے آج امریکی صدر جوبائیڈن انتخابی شکست کے خطرے سے دوچار ہیں، رائے عامّہ کے دباؤ ہی کے نتیجے میں امریکا نے اسرائیل کو دو مرتبہ جنگ بندی پر مجبور کیا اور غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کی اجازت دی۔ آپ کے سڑکوں پر آنے اور اسرائیل کی مدد کرنے والی کمپنیز کے کام یاب بائیکاٹ کے اثرات آج عالمی طاقتوں کے پالیسی ساز اداروں میں نظر آ رہے ہیں۔
عوام کی طرف سے بائیکاٹ مہم کسی وقتی جذبے نہیں، بلکہ پورے شعور کے ساتھ ہے۔ لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ میں نے اس کمپنی کو جو روپیا دینا ہے، اُس سے اسرائیل کے لیے ایک گولی بنے گی، جو کسی فلسطینی بچّے کے سینے میں پیوست ہوگی۔ جنوبی افریقا نے عوامی مہم ہی پر اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائر کیا۔ اسرائیل، عالمی برادری میں تنہا ہو رہا ہے، جب کہ مغربی حکومتیں اور عوام بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسرائیل اب اُن پر بوجھ بن چُکا ہے۔ہماری دنیا بَھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ اسرائیل اور اس کے مددگاروں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے سڑکوں پر رہیں اور بائیکاٹ مہم کو مضبوط کریں۔
س: فلسطینی عوام پاکستان اور پاکستانیوں سے کیا توقّعات رکھتے ہیں؟
ج: اگر مَیں کسی مجاہد سے پوچھوں یا سُرنگوں میں موجود لوگوں سے بات کروں یا غزہ کی سڑکوں پر پاکستان سے متعلق سوال کروں، تو اُنہیں سب سے زیادہ اُمید پاکستان ہی سے ہوگی۔ پاکستان کا موقف بہت سے ممالک سے بہت بہتر ہے اور پھر یہاں کے عوام کا تو کیا ہی کہنا۔حکومت، عوام اور پاک فوج کی جانب سے غزہ کے لیے جو امداد بھیجی گئی، وہ بہت بروقت ہے، پاکستان سے آئے بہت سے امدادی کنٹینرز رفح گیٹ پر موجود ہیں،جب کہ پاکستان سے آیا بہت سا سامان غزہ پہنچ چُکا ہے۔
اِس وقت لاکھوں بے گھر افراد کے لیے عارضی گھروں کی شدید ضرورت ہے، عزّت دار خاندان بے گھر ہیں۔ پناہ گزین کیمپس کی صُورتِ حال بہت خراب ہے۔ واش رومز کے لیے دو، دو گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے، خواتین اور مرد ایک ہی جگہ ہیں، جو ہمارے کلچر اور دین کے خلاف ہے۔ آپ لوگ جو کر سکتے ہیں، اُس سے زیادہ کریں۔ ہم نے ایک صدی سے یہی دیکھا ہے کہ جنہوں نے فلسطین کا ساتھ دیا، اللہ تعالی نے اُنھیں عزّت دی اور جنہوں نے فلسطین کے خلاف سازش کی، اللہ تعالی نے اُنھیں ذلیل و رسوا کردیا۔