• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے سابق عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف کی پیشی اور عدم پیشی والی خبر میں پہلے والا دم خم نہیں رہا۔ خبرنامے میں تیسرے چوتھے نمبر پر اب اس خبر کو جگہ دی جارہی ہے۔ 18 فروری تک ویسے بھی نتارا(سب واضح) ہوجانا ہے۔ البتہ اس بکھیڑے میں ایک نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ عالی مرتبت کے بیس وکلاء کے جھمیلے میں سے ایڈووکیٹ انور منصور نے انکشاف کیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف عدالت جارہے تھے مگر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک وائرلیس پیغام کے ذریعے انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا اور راولپنڈی اسپتال جانے کا حکم صادر فرمایا تھا، جس پر آج تک عمل درآمد ہورہا ہے۔‘‘ لیکن آخر کب تک عدالت تو جانا پڑے گا چاہے چند منٹ کیلئے ’’تا‘‘ کرکے واپس آجائیں، طالبان مذاکرات کی خبر بھی خبرنامے میں آخری خاص خبر کے طور نشر ہورہی ہے حالانکہ طالبان کے ایک احرارین گروپ نے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی بات بھی کی مگر گرما گرمی پھر بھی پیدا نہ ہوسکی البتہ جتنے منہ اتنی باتیں جتنی مرضی کوئی مخالفت کرے، تنقید کرے آخرکار طالبان حکومت مذاکرات کا کوئی نہ کوئی مثبت حل ضرور نکلے گا وہ چاہے کسی بھی مرحلے پر نکلے کیونکہ سرکاری مذاکراتی پارٹی میں ہمارے ایک ساتھی قلمکار جناب عرفان صدیقی شامل ہیں جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ تہجد گزار صحافی ہیں لہٰذا اللہ پاک اپنے دوستوں کو تنہا نہیں چھوڑتا۔
ہمارے بہت سے دوست پچھلے چند ہفتوں اور بعض چند دنوں میں دنیا کو چھوڑ کر عدم سدھار گئے ہیں جن کا ہمیں بے انتہا قلق ہے ہم جب کبھی بھی کسی روزنامے یا ہفت روزہ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تو ہمیشہ اہل قلم کی غمی خوشی کی خبروں کو پہلے صفحے اور ’’اپرہاف‘‘ پر دیا کرتے تھے لیکن ہمارے ہاں رجحان اس سے مختلف رہا ہے لوگ موسیقار اور گلوکار کو تو یاد رکھتے ہیں لیکن نغمہ نگار انہیں یاد نہیں رہتا۔ گزشتہ دنوں جیو ٹی وی کے ایک مقبول عام پروگرام ’’انعام گھر‘‘ میں میزبان عامر لیاقت حسین نے ایک مہمان سے حضرت عمرؓکی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کن کی صاحبزادی تھیں تو جواب نہ دیا جاسکا، ایک دوسرے مہمان سے حضرت ابو سفیان کی دختر نیک اختر ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے والد گرامی کا کیا نام تھا تو اس کا جواب بھی جب نہ ملا تو عامر لیاقت حسین نے بہت خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانو! کتنے افسوس کا مقام ہے کہ آپ کو شاہ رخ اور سلمان خان کے والدین بلکہ ان کے خاندانی شجرے تک یاد ہیں لیکن اسلام سے اس قدر دوری دکھ کی بات ہے۔‘‘ بہرطور۔
ہمارے ایک دوست علامہ عبدالغنی چند ہفتے قبل داغ مفارقت دے گئے۔ 1982ء میں انہوں نے ایم اے فارسی کیا تو پہلی پوزیشن لی۔ پنجاب پبلک سروس کے امتحان میں بیٹھے تو نمایاں کامیابی گورنمنٹ کالج مری میں لیکچرار ہوئے تو ایم اے انگریزی کا امتحان دیا فرسٹ ڈویژن نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اسی کالج میں انگریزی کے استاد مقرر ہوگئے۔ اسی عرصے میں ایم اے عربی اور اردو کے امتحانات بھی پہلی دوسری پوزیشن اور فرسٹ ڈویژن میں کرگئے۔ سی ایس ایس میں بیٹھے تو کسٹم گروپ میں انتخاب ہوا مگر انہوں نے استاد رہنا پسند کیا پھر علامہ اقبال پر پی ایچ ڈی کرلی اس کے کچھ عرصے بعد دوسری پی ایچ ڈی بیرون سے کرلی ان کی لائبریری میں اس قدر نایاب کتب کا ذخیرہ تھا کہ ہم ایسوں کی عید ہوجایا کرتی تھی وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔
31 جنوری کو دو دوست ایک ہی دن ہم سے بچھڑ گئے۔ ایک علامہ یعقوب ہاشمی تھے جو آزاد کشمیر میں سیکریٹری تعلیم بھی رہے۔ بہت سی زبانوں پر انہیں عبور تھا ہم نے ان کی محفلوں سے بہت کچھ سیکھا تھا،اسی روز جس دوسرےدوست نے دنیا چھوڑی وہ یونس خلش تھے وہ جب کبھی جہاں بھی کسی ہفت روزے کے ایڈیٹر ہوتے تو میں ہمیشہ ان کا ڈپٹی ایڈیٹر رہا۔ پروفیسر ماجد صدیقی نے ایک کالم میں لکھا بھی تھا کہ جبار مرزا ڈپٹی ایڈیٹر رہنا پسند کرتا ہے یونس خلش بہت خوبصورت نثر نگار کہانی کار اور انٹرویوور تھے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ نومبر 1983ء میں ہم دونوںایک ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب سے ملے تھے ان کا پہلا باقاعدہ انٹرویو بھی ہم دونوں نے ہی کیا تھا۔ کہوٹہ ایٹمی سینٹر پر پہلی غیر متنازع کتاب بھی یونس خلش نے ہی لکھی تھی وہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ان کی موت کا مجھے دکھ ضرور ہے لیکن اتنا نہیں جتنا اس بات کا غم ہے کہ ان کی چار جون بیٹیاں ہیں اور ایک کی بھی ابھی شادی نہ ہوسکی چاروں گریجویٹ اور ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں!
ہمارے ایک اور دوست جو ہمارے بزرگ بھی تھے شاعر ادیب بیوروکریٹ اور جنگ کے کالم نگار فضل حق بھی گزشتہ سے پیوستہ جمعرات کو راہی ملک عدم ہوگئے گاہے گاہے باز خواں‘‘ ان کا کالم 1980ء سے جنگ میں چھپ رہا تھا۔ چوہدری فضل حق کے والد چوہدری فتح خان گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گائوں مرالہ گجراں کے نمبردار تھے۔ فضل حق 11 فروری 1924ء کو پیدا ہوئے ابھی تین ماہ کے تھے کہ والدہ فوت ہوگئیں۔ 12 سال کی عمر میں والد وفات پاگئے پھر میٹرک کھاریاں سے 1939ء میں کیا وہاں ان کے کفیل ان کے ماموں چوہدری غلام علی تھے جبکہ ایف اے اور بی اے زمیندار کالج گجرات سے 1943ء میں کیا ۔چوہدری فضل حق کی پرورش ان کی والدہ کی چھوٹی بہن ان کی خالہ نے کی تھی۔ فضل حق اکلوتے تھے انہوں نے مثنوی مولانا روم، اقبال، غالب اور الطاف حسین حالی کو بغیر سمجھے کم عمری میں ہی پڑھ لیا تھا، فضل حق صاحب نے ایک بار ہمیں بتایا تھا کہ بیوی ہے، دو بیٹے، ایک بیٹی کے علاوہ نوکر چاکر ہیں باوجود اس کے میں گھر میں اکیلا ہوںکوئی دوسرا کبھی میرے پاس نہیں ہوا وہ مجھ سے بہت سی باتیں کیا کرتے تھے، آپ نے نعت، نظم، آزاد نظم اور غزل کہی۔ دوران تعلیم زمیندار کالج کے پرچے ’’شاہین‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے، سید ضمیر جعفری نے آپ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ فضل حق کا فکر رمزمی ہے اور آہنگ چنابی، سید ضمیر جعفری سے ان کی پہلی ملاقات 1948ء میں ہوئی تھی دونوں پاکستان آرمی کے محکمہ تعلیم میں تھے ضمیر جعفری نائب صوبیدار سے کنگ کمیشن پاکر لفٹین ہوچکے تھے اور فضل حق مقابلے کا امتحان پاس کرکے پولیس کیلئے اے ایس پی منتخب ہوچکے تھے۔ ایک شام دونوں واک کرتے کرتے جنگل میں بہت دور نکل گئے حتیٰ کہ راستہ بھول گئے پھر دونوں نے مل کر ایک شعر کہا۔ جس کا پہلا مصرعہ ضمیر جعفری اور دوسرا فضل حق کا ہے کہ:
کچھ راہ گزر کے دھوکے ہیں کچھ اپنی نظر کے دھوکے ہیں
یہ شام و سحر، کب شام و سحر ہے، شام و سحر کے دھوکے ہیں
فضل حق بی اے کرنے کے بعد انڈین آرمی آرڈیننس کور میں بھرتی ہوئے نائب صوبیدار کا عہدہ ملا۔ پھر انڈین پولیس سروس (IPS) میں سلیکشن ہوئی پاکستان بن جانے کے بعد محکمہ پولیس میں گئے ترقی کرتے کرتے 1970ء میں بلوچستان، 1972ء میں این ڈبلیو ایف پی 1973ء میں سندھ کے اور 1975ء میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس رہے۔ 1971ء میں سیکریٹری فرنٹیئر ریجن بھی رہے۔ 1974ء میں وفاقی سیکریٹری داخلہ رہے، دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں ایک بار پھر سیکریٹری داخلہ بنائے گئے۔
دسمبر 1978ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں نوکری سے اس لئے نکال دیا تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں معلومات مانگ رہے تھے مگر فضل حق نے یہ کہہ کر کسی قسم کی کوئی بات بتانے سے انکار کردیا تھا کہ بھٹو ان کا دوست ہے۔ ضیاء صاحب نے کہا بھٹو کا دور ختم ہوچکا وہ اب موت کے قریب ہے کچھ بتائیں وگرنہ گھر جائو، فضل حق نے کمال دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوکری سے علیحدہ ہوتے وقت ضیاء الحق کو باقی صدیقی کا یہ شعر سنا کر ایوان اقتدار سے باہر آگئے کہ:
دوستی خون جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
بعدمیں جب نومبر 1989ء میں بینظیر بھٹو پہلی بار اقتدار میں آئیں تو انہوں نے چوہدری فضل حق کو اپنا افسر بکار خاص مقرر کرکے پنشن جاری کی اور گزرے برسوں کے بقا جات ادا کئے تھے،ضیاء الحق نےجب فضل حق کو نوکری سے برخواست کیا تھا تو ان کا ایک یونانی دوست سیکریٹری کی تنخواہ سے چار گنا زیادہ آفر کرکے انہیں یونان لے گیا تھا،لیکن فضل حق پاکستان واپس آنا چاہتے تھے یوں واپسی پر میر خلیل الرحمٰن صاحب انہیں اپنے پاس جنگ میں بطور کالم نگار لے گئے اس طرح ان کی باعزت گزر بسر ہوتی رہی۔ذوالفقارعلی بھٹو سے ان کی دوستی 1955-56ءمیں ہوئی تھی فضل حق ان دنوں ایس ایس پی کراچی تھے اور بنگلہ نمبر 65 کلفٹن میں مقیم تھے جبکہ اس کے سامنے 70 کلفٹن میں بھٹو کا قیام تھا یوں دونوں میں میل ملاقات شروع ہوئی اورزندگی کے آخری سانس تک دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔
ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے دوستی کی اس سے عمدہ مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
تازہ ترین