• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب 2017 ء جولائی میں نواز شریف کو تاحیات میدان سیاست سے باہر کرنے کا ’’ اقدام ‘‘ کیا گیا تو اس وقت یہ سوال سنجیدہ طبقات کے سامنے آکھڑا ہوا تھا کہ تا حیات پابندی کا قانون جب سرے سے موجود ہی نہیں ہے تو پھر اس کا اطلاق کیسے کر دیا گیا اور سیاسی معاملات کا فہم رکھنے والے یہ بھی اندازہ قائم کرنا چاہ رہے تھے کہ یہ فیصلہ کتنی مدت تک اپنا اثر رکھ سکے گا ۔ انہی دنوں میں راقم الحروف نے اس انتہائی متنازعہ فیصلہ کے حوالے سے عرض کی تھی کہ اس کی مدت بس اس وقت تک جاری رہے گی جب تک موجودہ طاقت ور افراد اپنے عہدوں پر برا جمان ہیں اور ان کی رخصتی یا کمزوری کے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ماضی کی ایک تلخ یاد بن کے رہ جائے گا ۔ اپنی بات کی تائید کے طور پر میں نے سری لنکا کی سابق وزیر اعظم مسز بندرا نائیکے کے حوالے سے سری لنکا کی عدالت کے استعمال کا ذکر کیا تھا ۔ مسز بندرا نائیکے اپنے شوہر کے قتل کے بعد جدید دور میں قائم مملکتوں میں پہلی خاتون منتخب وزیر اعظم تھیں ۔ یہ انیس سو ساٹھ کی بات ہے ۔ اس حیثیت سے دنیا بھر میں ان کو ایک خاص مقام بھی حاصل ہوا تھا ۔ ان کی مختلف امور پر پالیسیاں جیسے کہ غیر جانب دار ممالک کی تحریک اور معاشی حکمت عملی بھی مختلف تھی ۔ ان کی سیاسی حیثیت بھی مسلمہ تھی ۔ اس لئے ان کو بھی سیاست سے فارغ کرنے کی غرض سے جے وردھنے کی حکومت نے ان کے خلاف صدارتی کمیشن ایکٹ ججز پر مشتمل بنایا ۔ سپریم کورٹ آف سری لنکا کے سابق چیف جسٹس جسٹس راجہ ٹی ڈبلیو رتنم نے بھٹو کیس پر ایک کتاب تحریر کی تھی ’’ عدلیہ کا بحران ‘‘ اس کے دیباچے میں انہوں نے تحریر کیا تھا کہ سری لنکا میں پورے جمہوری سياق و سباق میں عدلیہ سے کہا گیا کہ وہ بندرا نائیکے کے خلاف اقتدار کے غلط استعمال کے الزامات کی تحقیق کرے ۔ یہ ایک ایسا الزام تھا جس سے قانون صدارتی کمیشن ایکٹ سے پہلے لاعلم تھا اور ابھی تک اس کی صحیح تعریف و تشریح نہیں ہو سکی ۔ مسز بندرا نائیکے کے خلاف اقتدار کو غلط استعمال کرنے کا الزام ثابت ہوا اور پارلیمنٹ کے ذریعے انھیں شہری حقوق سے محروم کردیا گیا ۔ صدارتی کمیشن نے جو نتائج نکالے اور جو فیصلہ دیا اس پر بہت زیادہ لے دے ہوئی کیوں کہ اس فیصلے میں بھی ایسے ہی غیر معروف ذرائع سے نتائج اخذ کئے گئے تھے جیسے کہ جولائی دو ہزار سترہ کے وقت بلیک لا ڈکشنری کا استعمال کیا گیا ۔ مگر پھر کیا ہوا ؟ مسز بندرا نائیکے پر لگائی گئی تمام پابندیوں کو ختم کرنا پڑا اور وہ دوبارہ سری لنکا کی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئیں بلکہ ان کی صاحب زادی بھی سری لنکا کی صدر رہی۔ اب پاکستان میں بھی اسی نوعیت کے کئے گئے اقدام کے اثرات زائل ہو رہے ہیں ۔مگر اس جمہوری کامیابی کی خوشی منانے کے ساتھ ساتھ ان عوامل کا بھی تجزیہ کرنے کی اشد ضرورت ہےکہ آخر وطن عزیز میں وہ کون سی وجوہات اقتدار کے ایوان میں بن جاتی ہیں کہ جن کی وجہ سے بار بار جمہوریت شب خون کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کی کیا وجہ ہے کہ آئین وقانون کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے ان کا تحفظ تو کیا کرتے بلکہ الٹا ان کو پامال کرنے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ دشمنی کی حد تک جاتے ہوئے ’’مانیٹرنگ جج ‘‘جیسے اختیارات بھی سنبھالنے سے نہیں ہچکچاتے ہیں اور آخر میں خود نشان عبرت بنتے ہوئے رخصت ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اتنے اعلیٰ مناصب پر برا جمان ہونے کے باوجود مقابلہ کرنے کی سکت اور ہمت کیوں نہیں دکھاتے ۔ یہ سوال انتہائی اہم نوعیت کا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ بحران میں کتنی طاقت و رہ سکتی ہے اور اگر نہیں رہ پاتی تو اس کی کیا وجوہات ہیں اور ان وجوہات کا تدارک کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ دوسرا سوال اس وقت بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگلی منتخب حکومت کے تعلقات مقتدرہ کے ساتھ کیسے رہیں گے کیوں کہ ملک کی معاشی بحالی کیلئے ان تعلقات کا کسی بھی قسم کی کشیدگی سے پاک رہنا از حد ضروری ہے ۔ کوئی ایک ڈیڑھ ہفتہ قبل میرے ایک چینی دوست نے بیجنگ سے مجھ سے سوال کیا کہ آئندہ کی پاکستانی حکومت کے تعلقات کیا اسٹیبلشمنٹ سے خوش گوار رہیں گے، دنیا پاکستان کے حوالے سے اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو ترتیب دینے کیلئے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی بھرپور جستجو کر رہی ہے۔ میں نے ان کو جواب دیا کہ نواز شریف کم و بیش ساڑھے تین عشروں سے اسی سطح پر سیاست کر رہے ہیں اور وہ دنیا کے چند انتہائی تجربہ کار سیاست دانوں میں شامل ہیں جبکہ اسٹیبلشمنٹ کی قیادت ضرور بدلتی رہتی ہے مگر ادارہ ایک مستقل تجربہ رکھتا ہے اسلئے ابھی حالیہ انتہائی تلخ تجربہ کے بعد جس نے ملک کی معاشی بنیادیں ہلا کے رکھ دیںکسی اور نوعیت کے تلخ تعلقات یا کشیدگی کی جانب کوئی بھی نہیں جانا چاہے گا اور اس کا بھی انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیا جا رہا ہوگا کہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی جو تعلقات کی تباہی کا باعث بنتی ہے، سے کیسے مستقبل میں بچا جا سکتا ہے کیوں کہ اس سے بچنے میں ہی پاکستان کی خوشحالی کا راز پنہاں ہے ۔

تازہ ترین