• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اور معاشی سہارا

عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کردی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے گزشتہ ہفتے اقتصادی جائزے کی منظوری کے ساتھ اسٹاف سطح کے معاہدے اور اگلی قسط جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔ یہ پاکستان کے لئے ایک خوش آئند بات ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی معیشت کوسہارا ملے گااور ملک میں کچھ استحکام آئے گا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ملکی و معاشی حالات اور خراب ہو جاتے۔ یہ ایک طرح سے ہمارے لئے موقع بھی ہے۔ ایسا موقع کے ہم اپنی حالت کو سنوار لیں، نہ صرف اپنی حالت بہتر بنا لیں بلکہ دوسروں کی حالت بھی بہتر بنانے کا سوچیں۔ یہ موقع صرف ایک فرد یا چند افراد کے لئے نہیں بلکہ یہ ان افسران کے لئے بھی ہے جو پاکستان کے ادارے چلا رہے ہیں۔

کرپشن ہماری عادات کا حصہ بن چکی ہے اور ایسی ہی عادات کی وجہ سے آج ہمارا ملک زخموں میں چُور وینٹی لیٹر پر موجود ہےاور اب تو یہ کرپشن انتہائی زہریلی ہو چکی ہے اور پورے ملک کو سانپ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ راستے سے تکلیف دہ پتھر نہ اٹھانا بلکہ الٹا اس سے جانوروں کو مارنا (جبکہ صرف ڈرا دینا چاہیے) دکان یا کسی بھی جگہ پر اپنی باری کا انتظار نہ کرنا، پتنگ بازی جیسا خونی کھیل خود بھی کھیلنا اور اپنی اولاد کو بھی کھیلانا، زندگی بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کرنا، دودھ اور دہی میں ملاوٹ، جبکہ درباروں پر سبیلوں کی سجاوٹ، یہاں تک کہ ایک سواری والا آپ کا راستہ کاٹ کر اپنا راستہ بنائے گا چاہے اس سے آپ کو کوئی جانی نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے۔ اس سب کے بعد پھر ہم حالات کا گلہ کیوں کرتے ہیں؟

٭٭٭٭

افغانستان کے مسائل

جہاں افغانستان میں ایک بہت خوبصورت انقلاب رونما ہوا ہے، وہاں پریہاں کچھ مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ ان میں سے ایک بڑا مسئلہ، بھوک اورا فلاس کا ہے۔ ایک جگہ تو غربت کا یہ عالم ہے کہ ایک چھ بچوں کی ماں کو اپنے ہمسائیوں سے پہننے کے لئے جوتے مانگنے پڑتے ہیں۔ یہ تھوڑے وقت کے لئے حاصل کردہ جوتے، دراصل اس کو اس جگہ کے لئے چاہیے تھے جہاں سے اس کو امداد کی رقم ملنا تھی۔ شدید سردی میں اس عورت اور اس کےبچوں کو کئی راتوں بھوکا رہنا پڑا۔

ہمیں شکر کرنا چاہیے کہ ہمارے ہاں ایسے حالات نہیں۔ شکر کےساتھ ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا بھی چاہیے۔ دنیا کی گردش کا کس کو اندازہ ہے، آج کیا ہو، کل کیا ہونا ہے، کسی کو معلوم نہیں۔ بس ضروری کاموں میں، انسان محتاط رہے۔ اپنے دن کا مہینے میں ایک یا دو بار جائزہ ضرور لے لینا چاہیے۔ ہمارے عظیم نبیؐ بھی اپنے دن کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ ایسے دنوں کا شکر دل میں بجا لانا چاہیے جو بغیر کسی تکلیف اور نقصان کے گزر جاتے ہیں کیونکہ جب زندگی کے دن بہت زیادہ روحانی و جسمانی تکلیف سے بھر جائیں تو تب ہی خیر والے دنوں کی قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ دن تو وہ لوگ بھی گزار رہے ہیں جو اب تک قبر کے عذاب میں ہیں اور آگے بھی قیامت تک اس میں رہیں گے۔ ہم سب کو بڑے فیصلے والے دن سے بھی گزرنا ہے جب ہمیشہ کی رہائی یا عذاب کا فیصلہ ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھے ۔ آمین۔

٭٭٭٭

تعلیمی نظام کی تبدیلی

ارسطو کے مطابق کسی قوم کی حالت کو جاننا ہو تو اس کے اسکولوں کی حالت کو دیکھ لینا چاہیے۔ ہمارے ہاں اسکولوں میں بہت ساری خرابیاں موجود ہیں۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کی تربیت کا نہ ہونا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ زیادہ تر اساتذہ علمی معیار کے میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سکول اور کالج میں ایک نمایاں فرق دیکھتے ہیں کیونکہ کالج میں علمی معیار میرٹ کے مطابق ہوتا ہے۔ سکولوں کے اساتذہ کسی بھی معاشرے کی علمی بنیاد بناتے ہیں اور جب بنیاد مضبوط ہوگی تو عمارت بھی مضبوط ہوگی۔

حکومت کو ایسے میں چاہیے کہ وہ موجودہ سکولوں کے اساتذہ کے لئے تربیتی ادارے قائم کرے اور تربیت یافتہ اساتذہ کو سرٹیفکیٹ جاری کرے۔ یہ بہت زیادہ مار دھاڑ اور ہراساں کرنے والا کلچر ختم کیا جائے۔ اگر معلم اچھا ہو تو کلاس کے طلبہ کس دبائو کے بغیر اسے توجہ سے سنیں۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب استاد کا علم اچھا ہو اور اسے پڑھانے لکھانے کاسلیقہ آتا ہو۔ اساتذہ کے علمی معیار کوبہتر بنانے کے لئے سکولوں میں لائبریریوں اور کمپیوٹر لیبز کا اہتمام بھی کیا جائے۔ تربیتی سرٹیفکیٹس کو ایسے ہی لازمی قرار دے دیا جائے جیسے پنجاب میں ڈرائیونگ لائسنس۔ سکولوں میں رٹا سسٹم ختم کیا جائے۔ ہوم ورک ایسا ہو جو دن میں بڑی آسانی کےساتھ حل کیا جاسکے نہ کہ ہر نصاب کا ہوم ورک پہاڑ بنا کر طالب علم کو سونپ دیا جائے۔ ایسے میں اساتذہ آپس میں مشاورت کرکے ہوم ورک بنائیں۔ سکول ایسا ہو کہ اس میں دل لگ جائے۔ لائبریری کلچر کو فروغ دیا جائے کیونکہ لائبریری کلچر آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔ کمپیوٹر لیبز کو بہتر بنایا جائے، سکول کی عمارتوں کو مضبوط اور خوبصورت بنایا جائے جیسے پنجاب میں پولس کے خدمت مراکز بنائے گئے ہیں۔ جن سکولوں کے پاس درختوں کے لئے زمین نہیں وہاں خوبصورت پودوں والے گملے رکھے جائیں، پھول لگائے جائیں، سکولوں میں سے ویرانی کو ختم کیا جائے، سردی و گرمی کا بندوبست کیا جائے۔ طلبہ کے لئے معیاری اور محفوظ ٹرپس(TRIPS)کا اہتمام کیا جائے، نیز سکول کو ہر لحاظ سے بہتر بنایا جائے۔

٭٭٭٭

سردی اور ہم

ملک میں سردی کی لہر جاری و ساری ہے۔ کوئی لکڑی جلا رہا ہے تو کوئی کوئلے لیکن ہم سردیوں کو اس طرح انجوائے نہیں کر پا رہے جیسےکبھی ہم کیا کرتے تھے۔ شاید ایسا تو نہیں کہ اس وقت بچپن تھا اور ہم اتنے زیادہ مسائل سے واقف نہ تھے۔ ایسا بھی ہے لیکن کم کم کیونکہ اب اسموگ اور مسائل دونوں ہی بڑھ گئے ہیں۔ لاہور کا ایئر کوالٹی انڈیکس تقریباً 350 کے قریب ہے جو انتہائی مضر صحت ہے۔ اسموگ کی وجہ سے دھند اتنی بھاری ہو چکی ہے کہ اب اس میں سانس بھی نہیں لیا جاسکتا۔ کوئی صحیح کہتا تھا ’’کہ فلاں شخص نے تو میرا سانس لینا بھی مشکل بنا دیا ہے‘‘۔ تفریح تو اب صرف (INDOOR)اِنڈور رہ گئی ہے ۔آج کل تو آپ دنیا کی سیر اپنے ٹی وی پر ہی کرلیتے ہیں۔ ایسا پہلے کب ہوتا تھا! یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ سردی کو کم محسوس کرنے کا ایک اور راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ گرم کپڑے تو پہنے ہی پہنیں لیکن سردی کو اس طرح سے انجوائے کریں جیسے آپ مری میں سردی کو انجوائے کررہے ہوں۔

٭٭٭٭

تازہ ترین