• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنی بات ہوتی تو ممکن ہے آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہوتا، بات چونکہ سیانوں کی ہے چنانچہ یہ ففٹی ففٹی نہیں ہو سکتی ، پورا سچ ہی ہوگی کہ :

جب کسی دیگ کے چاول پرکھنے ہوں کہ کیسے پکے ہیں ، تو دو چار دانے ہتھیلی پر رکھ کر چیک کیا جاتا ہے، پوری دیگ نہیں پلٹی جاتی !

کچھ ہی دن قبل ہمارے ایک بہت پیارے دوست کو اس کے سیاسی دوستوں نے وہ دھوبی پٹکا دیا کہ رہے نام اللہ کا۔ مگر قربان جائیں اس دوست کے جسے پٹکھے جانے پر بھی سرُور آیا کہ یار بَرچھی مارے یا پھول اس میں لذت ہے۔ اللہ جانے مگر یہ وہی بات لگتی ہے جیسے غالب کی ایک فارسی غزل کا صوفی تبسم نے ترجمہ کیا ، اور کہا ؛ ’’بھانویں ہجر تے بھانویں وصال ہووے ، وکھو وکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں‘‘

پَون صدی کے درپے پہنچنے والی پاکستان کی تاریخ میں تاحال سبھی سیاسی جماعتیں مقتدر کو دن رات "خراجِ تحسین" پیش کرتے نہیں تھکتیں۔ لیکن کسی ایک جماعت سے بھی اگر پوچھا جائے کہ کیا آپ نے اپنی سیاسی پارٹی کو انسٹیٹیوشن بنا لیا ہے؟ اس کا جواب جلیبی کی طرح سیدھا ہوگا ، اور منشور دیکھیں تو جہنم کے وسط میں بہشت تعمیر کرنے کا منصوبہ۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو اگر سیاست دھوکہ دہی اور وعدہ خلافی کی شاہراہ پر رہے گا تو مقتدر کے اسپیڈ بریکرز لازمی ہوں گے۔ پھر بتائیے، ہم نے کسے ’’خراجِ تحسین ‘‘ پیش کرنا ہے، پارٹی سربراہ کو جس نے ووٹ کو عزت دو کا کبھی نعرہ لگایا تھا یا ٹکٹ کمیٹی کو جس نے مخلصین کے اخلاص و دیانتداری کو سرِ بازار رسوا کیا اور پارٹی ٹکٹ چوہدری جعفراقبال کے بجائے شہ کے مصاحب کو تھما دیا ’’جس کی گجرات میں سیاسی آبرو ہی کیا ہے؟‘‘ہمیں معلوم ہے کہ میاں بیوی راضی کیا کرے گا قاضی؟ اور، دیکھئے جعفر اقبال کو فیصلے کے سامنے یوں سرنگوں ہوئے جیسے کسی بڑے قومی حادثہ کے دن قومی پرچم ! ہمارا دوست سے ایک جمہوری رشتہ تھا جس کی لائن اس وقت کٹ گئی، جب آمریت پسندی کو ’’اللہ کی رضا‘‘ سمجھ لیا گیا۔ کلاکاری و سیاستکاری کے اس موسم میں اوکھے سوکھے ہوکر ، تھوڑی نوعیت بدل کر رشتے تو نبا ہی لئے جاتے ہیں۔ مگر، سر جی! ایسی محبت سے ہم بھی باز آئے! بقول غالب؛

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

جہاں ساری جمہوریت ہی سیاست کے بَل گِری ہو وہاں آخر یہی معاملہ ہی لب پر رہ جاتا ہے کہ : ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا / کہ خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا۔ زیادہ پرانی بات نہیں ، یہی چند سال قبل کا قصہ ہے کہ ہمارے دوست کو نون لیگ کی پٹری سے اتارنے کے لئے جس بھائی صاحب کا ماتھا بھی چوما اور چُٹکی بھی کاٹی، لیکن جعفر اقبال کو کارواں سے الگ نہ کر سکے، اسی سرکارِ اعلیٰ نے آج اثر انداز ہو کر گاڑی ہی پر قابو پالیا اور کارواں پر بھی، اس پر خوشی تو کئیوں کو ہوئی ہو گی مگر پیپلزپارٹی کے قمر زمان کائرہ کیلئے یہ سب سے زیادہ پُر مسرت موقع ہے کہ وہ میدان مار لیں۔ امید ہے کچھ اصولی جمہوریت کے دلدادہ بھی اور پھر پیپلزپارٹی کے ووٹرز اور سپورٹرز اپنی لائن اور لینتھ سے انحراف نہیں کریں گے وکٹ جیسی بھی کھیلے! بہرحال ووٹ کو عزت دو کی شاہی دیگ سے جو دیکھنا تھا سو دیکھ چکے!

ایک قصہ کسی اور دیگ کے دیکھے چند دانوں کا بھی ہے جو آج بھی ہتھیلی پر خوشبو کی طرح پھیلے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ پیپلزپارٹی کی ایک سابق صوبائی وزیر کو پنجاب کی قیادت نے سرے سے فراموش کردیا ، چھت پر ترنگا لہرانے کے سوا اس کے ہاں کوئی سیاسی سرگرمی نہ بچی، سچ تو یہ ہے کہ بیوہ ہو جانے کے بعد اس کے اپنے بھی اسے چھوڑ گئے تھے۔ اس کے میاں کے انتقال پر مقامی دوستوں کے سوا بھی کوئی نہ گیا۔ راقم کو جب معلوم ہوا تو پنجاب کی قیادت کو تو ٹیلی فون پر مطلع کیا تاہم اس حوالے سے انہی دنوں ایک کالم میں آصف علی زرداری سے مخاطب ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تھوڑے ہی دنوں بعد آصف علی زرداری نے اس خاتون کے سر پر ایسا دست شفقت رکھا جو سیاسی میرٹ سے بھی بڑھ کر تھا۔ الیکشن 2018 میں اسے پنجاب میں اسپیشل سیٹ پر حنا ربانی کھر کے بعد دوسرے نمبر پر رکھا گیا۔ وجہ کچھ بھی ہو ہم متاثر ہوئے اس حوصلہ افزائی اور بندہ نوازی پر کہ ہم 25 جون 2018 میں ’’شکرانہ کالم‘‘ لکھنے پر مجبور ہو گئے ، آج بھی اس خاتون لیڈر کا پنجاب پیپلزپارٹی سیاست میں بول بالا ہے چہ جائیکہ ان جیسوں ہی سے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ہاتھ اور صحت کمزور ہے جو پڑتا قیادت کے کھاتے میں ہے لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے جو پھر سہی کہ ان تِلوں میں سیاسی تیل ہی نہ تھا مگر قیادت کے ہاں شفقت اور جمہوری کلچر کے آثار بے شمار تھے ، اور ہیں! بہرحال ہر صوبہ کی قسمت میں سعید غنی و خورشید شاہ اور نفیسہ شاہ نہیں ہوتے! زَہے عِز و شَرف کہ مسلم لیگ (نواز) کو چوہدری جعفر اقبال سے میسر ہیں جو پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں, یہ الگ حیرت ہے قبلہ پرویز رشید اور محترمی و مکرمی خواجہ سعد رفیق و ایاز صادق چشمِ بینا کو بروئے کار نہ لائیں اور احسن اقبال بن بیٹھیں بھلے ہی کوئی دانیال عزیز ’’بےعزیز‘‘ہی ہو جائے۔ پارٹیوں کے جمہوری کلچر کسی عرفان صدیقی یا اسحاق ڈار سے ٹیکنوکریٹس سے بھی پروان نہیں چڑھتے، ان کیلئے کوچہ و بازار سے جُڑے سید جاوید علی شاہ اور مرتضیٰ جاوید عباسی درکار ہیں۔ بہرکیف خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں احمد حسن ڈہر صاحب سے باسط بخاری اور نواب شیر وسیر سے سمیع اللہ گیلانی تک حصہ داروں کو درست نوازا ۔ گجرات پر آکر پھر سوچ بکھر جاتی ہے کہ جعفراقبال ہی نہیں چوہدری برادران سے بھی زیادہ انصاف نہ ہو سکا۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔مگر بات پھر وہی کہ جب تک سیاسی پارٹیاں اپنے آپ کو انسٹیٹیوشنز نہیں بناتیں وہ تحریک انصاف کی طرح ’’ریزہ ریزہ‘‘ یا نون لیگ کی طرح ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ سے سرکتی رہیں گی، مگر ایسے مواقع پر پیپلز پارٹی کی جمہوریت پسندی اور زرداری مصالحت و مفاہمت پورے پاکستان یا گجراتیوں کو بھول جائے ، یہ ممکن نہیں!

تازہ ترین