• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی خواہش ایک بار پھر اپنی انتہا کو پہنچ چکی لیکن دوسری طرف سے نو لفٹ کے سگنل ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کو منفی قوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 

ایک طرف فوج کی اعلیٰ قیادت پر بانی تحریک انصاف کی طرف سے بار بار تنقید کی جاتی ہے اور اُن پر مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں تو دوسری طرف پی ٹی آئی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرنے کیلئے بے چین نظر آ رہی ہے۔ 

تحریک انصاف کا ایک رہنما کوئی اور بات کرتا ہے تو دوسرا کوئی اور۔ شہریار آفریدی نے دو دن قبل کہا کہ تحریک انصاف موجودہ حکومت اور ن لیگ سے مذاکرات نہیں کرے گی کیوں کہ یہ تو خود کٹھ پتلی ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ تحریک انصاف صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کرے گی۔ 

اُنہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی شروع دن سے ہی فوج سے مذاکرات کی خواہش رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف سے کوئی رسپانس نہیں آیا۔ اُنہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ فوج سے جلد مذاکرات ہوں گے۔ تحریک انصاف کے اس بیان پر اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب سے جب سوال ہوا تو اُنہوں نے کہا اس سوال کا جواب شہریار آفریدی سے ہی لیا جائے۔ 

وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور سے جب پوچھا گیا تو اُنہوں نے بھی کہا کہ اس بارے میں معلومات شہریار آفریدی کو ہی ہو ںگی۔ لیکن تحریک انصاف کے ترجمان رئوف حسن کا کہنا تھا کہ وہ کل بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کیلئے تیار تھے، آج بھی تیار ہیں اور کل بھی تیار ہوں گے مگر اُن (اسٹیبلشمنٹ)کی طرف سے اب تک رابطہ نہیں ہوا۔ 

تحریک انصاف کی یہ پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن سے مذاکرات کرنے کیلئے بانی پی ٹی آئی اور اُن کی پارٹی بے چین ہے، اُن کو ہی نشانے پر بھی رکھا ہوا ہے۔ کبھی بانی چیئرمین تو کبھی پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا، ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی بیان کوئی نہ کوئی سوشل میڈیا مہم اسٹیبلشمنٹ اور فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف شروع کر دیتاہے۔ 

جن پر اتنے الزامات لگائے جا رہے ہیں، جن کو اپنا مخالف بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جن کے خلاف اپنے ووٹروں سپوٹروں کے دل و دماغ میں زہربھر دیا گیا ہے، اُن سے ہی مذاکرات کا پھر کیا سوال۔؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت پر الزامات اور اُن کے خلاف بیانات اور سوشل میڈیا پروپیگنڈہ کا مقصد دراصل اُن کو بانی پی ٹی آئی سے بات چیت کرنے کیلئے مجبور کرنا ہے۔ 

اگر یہ سچ ہے تو ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اب جس دن شہریار آفریدی نے یہ بیان دیا کہ تحریک انصاف صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہی بات کرے گی تو اُسی روز آئی ایس پی آر کی طرف سے آرمی چیف کا ایک بیان جاری کیا گیا جس میں اُن کا کہنا تھا ہم سب مل کر پاکستان ہیں اور امید ظاہر کی عوام کی سپورٹ سے پاکستان کی ترقی کے سفر میں رخنہ ڈالنے والوں کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی۔ 

آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ منفی پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا ٹرولنگ ہماری توجہ پاکستان اور اُسکے عوام کی ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کرنے سے نہیں ہٹا سکتی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے سفر میں کسی قسم کا عدم استحکام برداشت نہیں کریں گے اور مل کرمنفی قوتوں کو رد کریں گے۔ 

ایسے بیانات آرمی چیف اور کور کمانڈرز کانفرنس کی طرف سے پہلے بھی دیے گئے اور عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ان کا ہدف تحریک انصاف کا طرز سیاست ہی ہے۔ میری نظر میں آرمی چیف کے اس بیان کو اُن کی طرف سے تحریک انصاف کی آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات کی خواہش کے حوالے سے ناں ہی سمجھا جائے۔ 

ان حالات میں دیکھتے ہیں کہ پاکستان کے ’’خیر خواہوں کا گروپـ‘‘ (جن کے حوالے سے میں نے حال ہی میں لکھا تھا) کیاعمران خان اور فوج کے درمیان فاصلے ختم کروانے کیلئے قدم اُٹھاتا ہے؟ ویسے اب بھی کسی کو شک ہے تو دوبارہ اس سوال پر غور کر لے کہ کیاعمران خان اور تحریک انصاف سویلین بالادستی کی لڑائی لڑ رہے ہیں یا اقتدار کے حصول کی؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین