• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شادی شدہ افراد بعض اوقات ایک دوسرے کیساتھ اتنی تلخ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں کہ انجام،آخر کار طلاق کی صورت میں ہی نکلتاہے ۔ ایک انداز مگر وہ بھی ہے ، جو شعیب ملک نے اپنایا ۔ نئی شادی کے ذریعے پرانی کے خاتمے کا اعلان ۔ گلنار چہرے کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ مخلوقات کو اللّٰہ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ۔

ثانیہ مرزا خاموش ہیں ۔ شاید ترکِ تعلق کا غم منا رہی ہیں ۔وہ کوئی عام خاتون نہیں ۔ شعیب ملک اورثانیہ مرزا کی جو کہانی ہے ،اس میں سابق میاں بیوی کا ذکر ہے ، نئی بیگم کا ذکر ہے۔ اگر کسی کا ذکر نہیں تو ان کے بیٹے اذہان کا۔ وہ کہاں ہے ، کیا کر رہا ہے،کیا اسے سمجھ آچکی ہے کہ ماں باپ میں علیحدگی ہو چکی۔ کیا اسے سمجھ آچکی کہ اب ماں اور باپ میں سے اسےکسی ایک کے ساتھ رہنا ہے۔ کس کے ساتھ ، اس کا انتخاب بھی اس نے خود نہیں کرنا ۔

فیملی کورٹ جائیں تو ایسے ایسے دردناک مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ کلیجہ شق ہو جاتاہے ۔ عدالت بچوں کو ماں باپ میں سے کسی ایک کی تحویل دیتی ہے۔ وہ دوسرے کے ساتھ جانے کیلئے آنسوئوں کے ساتھ رو رہے ہوتے ہیں ۔ایسی کہانیاں معاشرے میں عام ہیں کہ پہلی بیوی مری تو قبر کی مٹی خشک ہونے سے پہلے پہلے مرد نے دوسری شادی کر لی ۔ شریعت میں بہرحال اس کی اجازت ہے ۔سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولاد سے اس کی ماں کی علیحدگی کیا مرد کیلئے کوئی واقعہ ہی نہیں؟

اس کے نزدیک غمِ ترک وفا کچھ بھی نہیں

مطمئن ایسا ہے وہ جیسے کہ ہوا کچھ بھی نہیں

سوتیلی ماں کی شکل میں بچوں پر پھر قیامت ٹوٹتی ہے ۔ انسان کی زندگی میں جو تکالیف آنا ہوتی ہیں، وہ آپ کی مالی حیثیت نہیں دیکھتیں۔ بڑھاپا، بیماری اور اولاد کی نافرمانی غریب اور امیر پہ ایک طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ بڑی نامور عورتوں کو بھی بعض اوقات شوہر کی بے وفائی سہنا پڑتی ہے۔

مغرب میں اب گنے چنے لوگ ہی ساری زندگی ایک شادی کے بندھن میں رہتے ہیں۔ عموماً لوگ پارٹنر بدلتے رہتے ہیں۔ شادی بھی شاذ ہی ہوتی ہے بغیر شادی کے لوگ ساتھ رہتے ہیں اور ایک دو بچوں کے بعد پارٹنر بدل لیتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق اس قدر بڑھا دیے گئے ہیں کہ طلاق کی صورت میں آدھی جائیداد۔ایک فون کال پر پولیس شوہر کو گرفتار کر کے لے جاتی ہے۔ مرد عموماً آزادی کے نام پر عورت کو گرل فرینڈ کے طور پر ساتھ رکھتے ہیں اسے باور کراتے ہیں کہ بغیر شادی کے ساتھ رہ کر وہ بااختیارثابت ہو رہی ہے۔ گرل فرینڈ نوکری بھی کرتی ہے ۔ برابر ی کی بنیاد پر معاشی مسائل دیکھتی ہے۔ بچے بھی پیدا کرتی ہے ۔بچے آیا کو پکڑا کر خود دفتر میں نوکری کرتی ہے۔ مشرق میں اکثر اوقات بیوی کو پائوں کی جوتی اور بے زبان جانور سمجھا جاتا ہے۔ اب اگرچہ صورتِ حال قدرے بدل رہی ہے۔ بچے کیلئے اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کوئی نہیں کہ ماں یا باپ سے علیحدگی اختیار کرنی پڑے۔ علیحدگی بھی اس لیے کہ آپس میں ان کے مزاج نہیں ملتے۔ ماں باپ بھی خودغرض ہو جاتے ہیں۔ اپنی خوشی پہ اولاد کی خوشی قربان کر دیتے ہیں۔

اکتوبر 2015ء میں طلاق سے تین چار روز قبل ریحام خان اور عمران خان میری شادی میں آئے۔ کسی کو انہوں نے شک تک نہ ہونے دیا کہ اختلافات اس قدر گہرے ہو چکے۔ ریحام خان نے بعد میں جو انتقام کا راستہ اختیار کیا ،وہ ایک اور نوعیت کی تباہی تھی ۔ کوئی انسان کسی دوسرے کو تباہ نہیں کر سکتا ۔ بعض لوگ فوراً دوسری شادی اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اپنے پچھلے شریکِ حیات اور معاشرے کو دکھا سکیں کہ وہ بدستور بہت خوش ہیں۔ عدنان سمیع اور زیبا بختیار کیس بھی سب نے دیکھا۔ اولاد سے علیحدگی کے بعد انسان جس تکلیف سے گزرتا ہے، اسے وہی جانتا ہے ۔ بچہ ماں اور باپ میں سے جس کے ساتھ رہتاہے، وہ فریقِ ثانی کے خلاف اس کے دل و دماغ میں زہر بھر دیتاہے۔

شوبز میں میاں بیوی ایک دوسرے پہ منحصر نہیں ہوتے ۔شادی برقرار رکھنے کیلئے ان پر خاندان اور معاشرے کا دبائو بھی نہیں ہوتا۔ نئی شادی کیلئے متبادل موجود ہوتے ہیں ۔ اس لیے طلاقوں اور دوسری تیسری شادیوں کی شرح بہت زیادہ ہے ۔ عام لوگوں میں بھی صرف یہ مجبوریاں ہی ہوتی ہیں ، جن کی وجہ سے لوگ ساری زندگی اکٹھے رہتے ہیں ۔ عموماً اولاد کو تکلیف سے بچانے کیلئے ہی۔

شریکِ حیات کا مختلف اور اذیت ناک مزاج برداشت کرنا بے حد تکلیف دہ ہوتاہے ۔ میاں بیوی ساری زندگی ساتھ رہتے ہیں مگراندر سے ایک دوسرے کے دشمن ۔ ان کی بقا اگرچہ ایک دوسرے کے ساتھ اخلاص پہ منحصر ہوتی ہے ۔طلاق دے کر کوئی تماشہ نہیں بننا چاہتا مگر ایک دوسرے سے اتنا تنگ ہوتے ہیں کہ جگ ہنسائی بھی برداشت کر لیتے ہیں۔

انسانی عقل کا حال یہی ہے ۔ شادی شدہ عورت کو شوہر کی آدھی جائیداد مگر بغیر شادی اولاد پیدا کرنےکی اجازت، مردوں کی مردوں اور عورتوں کی عورتوں سے شادی کو جائز قرار دینا حالانکہ وہ اولاد پیدا نہیں کر سکتے۔ اپنی ذاتی خوشی کی خاطرانسان اپنا شریکِ حیات بدل لیتا ہے۔ اولاد ساری زندگی اندر ہی اندر تکلیف سے گزرتی رہتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت آدھی شادی شدہ عورتیں ایسی ہیں کہ اگر انہیں مالی خود مختاری نصیب ہو جائے تو ایک لمحہ اپنے شوہر کا منہ دیکھنا گوارا نہ کریں۔ مجبوریاں مگر آڑے آجاتی ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین