• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

مضامین کب تک شائع ہوجائیں گے؟؟

آپ کے خیال میں کیا الیکشن واقعی 8فروری کو ہوں گے۔ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے دو درمیانی صفحات پرماڈلنگ کےلیےکتنا معاوضہ دینا پڑتا ہے یا یہ شوٹ مفت ہی ہوجاتے ہیں۔ فلسطین کی حمایت کے ضمن میں جنگ گروپ کا کردار تو نمایاں ہے، لیکن جیو کچھ پیچھے نظر آتا ہے۔ اور کیا جنگ گروپ، نگراں حکومت کی خبریں چھاپنےکاپابندہے یا آزاد ہے اور…میرے مضامین کب تک شائع ہو جائیں گے۔ (شہناز سلطانہ، رمشا طاہر، گلزار ہجری، کراچی)

ج: خادمہ ملک صاحبہ!! چشمِ بد دُور، بہت مبارک ہو،آپ نےتوخادم ملک کو بھی مات دے دی ہے۔ بخدا کبھی کبھی تو ہمیں بالکل سمجھ ہی نہیں آتا کہ آپ لوگوں سے آخرکیسے ڈیل کیا جائے۔ کتنی بارآپ کو بتا اورسمجھا چُکےکہ آپ کی کسی تحریر کا کوئی سر، پیر ہی نہیں ہوتا، تو اُن کا کیا چھاپا جائے۔ اور ’’جیو‘‘ نے تو باقاعدہ ’’وار روم‘‘ بنا رکھا ہے، کوریج کے لیے اپنےنمائندے بھیجے ہوئےہیں۔ بھلا جیو، فلسطین کی حمایت میں کیسے پیچھے رہ گیا۔ اور یہ آپ کو بھی خادم ملک کی دیکھا دیکھی ماڈلنگ کا کیا بخارچڑھا ہے۔ یوں کریں، آپ بھی اپنا ایک پورٹ فولیو تیارکرکےبھجوا دیں۔

جوڑ رکھا ہے

اُمید ہے، ’’سنڈے میگزین‘‘ کے تمام لکھاری، قاری خیر خیریت سے ہوں گے۔ یہ رسالہ ایک منفرد اور ہر دل عزیز شمارہ ہے، خصوصاً ’’قارئین کے خطوط‘‘ والا صفحہ پسندیدہ ترین ہے۔ کیوں کہ آپ کےاِس سلسلے ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہی نے بےشمار لوگوں کو اس جریدے سے جوڑ رکھا ہے۔ (شری مرلی چند جی گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)

ج: الحمدُللہ، جوڑ تو رکھا ہے۔ بس دُعا ہےکہ یہ ساتھ قائم و دائم رہے۔

صفحات کم تو اشتہارات بھی کم

تازہ سنڈے میگزین کےسارے ہی سلسلے پڑھ ڈالے، سب ہی پسند آئے، خصوصاً منور مرزا کا ’’حالات و واقعات‘‘ بہت عُمدہ لگا۔ اِس بارآپ نے ماڈل پر خاص مہربانی کی کہ اُس کی دس تصاویر شائع کردیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں منور راجپوت نے ’’درد کا سفر‘‘ نامی کتاب پر بہت خُوب صُورت تبصرہ کیا۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر لطافت علی جوہر نےآدھےصفحےمیں قراۃ العین حیدر کی گویا پوری زندگی سمو دی، بہت عُمدہ۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں ڈاکٹر تبسّم سلیم کا واقعہ تحریر کرنے کا اندازبہت پسند آیا۔ اس مرتبہ تو ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں شہزادہ اور پروفیسر صاحب دونوں ہی نظرآگئے۔ ’’گوشئہ برقی خطوط‘‘ میں آپ نے کامران سلیم کو بہترین جواب عنایت کیا۔

اگلے جریدے میں منور مرزا کا’’حالات و واقعات‘‘ محمود میاں کا ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ اور رئوف ظفرکی ’’رپورٹ‘‘ کا جواب نہ تھا۔ سرورق کی ماڈل کا نام الیانا خان تھا، اِس کے کیا معنی ہیں؟ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں تین کہانیاں پڑھنے کوملیں۔ خاص طور پر’’رسولن بوا‘‘ کا تو جواب نہ تھا۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فارسی زبان کے افسانے کا ترجمہ پسند آیا۔ اور، ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں آپ نے پروفیسر سید منصورعلی کو تختِ شاہی پر بٹھایا، دیکھ کے خُوشی ہوئی، اور ہاں، میگزین کےصفحات کم ہونے کی وجہ سے آپ کے اشتہارات بھی کم ہوگئے ہیں۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: آپ الٹا بول گئے ہیں، بھائی! صفحات کم ہونے کے سبب اشتہارات کم نہیں ہوئے بلکہ اشتہارات کم ہونے کی وجہ سے صفحات کم کر دیئے گئے ہیں۔ اور ماڈل پر10 تصاویر کی مہربانی کا سبب بھی ’’سینٹر اسٹرپ‘‘(اشتہار) کا غائب ہونا ہی ہے۔ یوں توماڈل کے نام کے معنی بتانا قطعاً ہماری ذمّے داریوں میں شامل نہیں، لیکن یوں ہی انٹرنیٹ پر سرچ کیا، تو معنی ’’عظیم، اعلیٰ درجے کی شہزادی‘‘ سامنے آئے۔ مزید ریسرچ آپ خُود فرما لیں۔

دونوں ہی بڑے نام

اپنے ہی ایک شعر سے جریدے پر تبصرے کا آغاز کرنا چاہوں گا۔ اس بار کا شمارہ ہر لحاظ سے مکمل تھا۔ شورش کاشیری سے متعلق صلاح الدین ندیم کا مضمون اور مصطفٰی زیدی کے حوالے سے ڈاکٹر قمر رضوی کی تحریر کمال تھی کہ دونوں ہی بڑے نام ہیں۔ (نام نہیں لکھا)

ج: آپ کے چھے صفحات کے خط سے یہ جو دو سطریں ہم نے شائع کی ہیں، یہ بھی بخدا ہم نے خُود ہی اخذ کی ہیں۔ بہت دیر آپ کی تحریر اور ہینڈ رائٹنگ سے مغز ماری کے بعد ہم نے یہی فیصلہ کیا، خُود سے دو سطریں لکھ کے چھاپ دیں، کیوں کہ بہرحال یہی گمان غالب ہے کہ آپ تحریروں کی تعریف کرنا چاہ رہے تھے اور شعر تو کسی ببّر شیر کی طرح بہت ہی خون خوار لگا، اُس پر تو ہم نے نگاہ ڈالنی بھی گوارہ نہ کی۔ اور…حد تو یہ ہے کہ آپ نے نام کے بجائے بھی صرف ’’80منزلہ عمارت‘‘ ہی لکھا۔ غالباً عُمرِ عزیز80 برس ہوگی، اب اِس کے بجائے ہم کیا نتیجہ اخذ کریں۔

ہر عروج کو آخر زوال ہے!!

منور مرزا فلسطین کی اِس طرح تباہی و بربادی پراشک بارتھے کہ پوری اسلامی دنیا کاروباری مفاد میں اسرائیل، امریکا، برطانیہ اور بھارت کی غلام بنی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شکیل شوگر کے مرض پر مفادِ عامہ کے لیے بہترین مضمون لائے۔ محمود میاں نجمی نے قومِ عاد و ثمود کی تباہی پر سیرحاصل مضمون رقم کیا۔ انسان جتنی بھی دنیاوی ترقی کرلے، ہر عروج کو آخر زوال ہے اور یہی ہمارا ایمان ہے۔ احمد فراز کے اشعار سے مزیّن مضمون دل کو بھا گیا۔

رؤف ظفر نے ’’جب دوا ہی زہر بن جائے‘‘ کے عنوان سے شان دار ’’رپورٹ‘‘ تیار کی۔ ماڈل الیانا خان کی خُوب صُورتی میں تو آپ نے زمین آسمان کے قلابے ہی ملا دیے کہ ؎ ’’سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے، گلاب لیں گے…‘‘ خطوط نگاروں کے سب خطوط بھی بہت بھلے لگے، خاص طور پر بزم کے ہیرو، پروفیسر سیّد منصورعلی خان کا خط۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، تحصیل و ضلع کوٹ ادّو)

ج: بے شک، ’’ہر عروج کو زوال ہے۔‘‘ اگر انسان صرف اِسی ایک بات کو گرہ سے باندھ لے، تو دنیا کی شکل کتنی مختلف ہو۔

سمجھنے، سیکھنے کا موقع

پُرامید ہوں کہ آپ اور آپ کی پوری ٹیم خیریت سے ہوگی۔ سنڈے میگزین پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ آپ سب کی محنت کو سلام پیش کرتا ہوں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ قومِ لوطؑ پر عذابِ الٰہی کا‘‘ پڑھ کر بہت کچھ سمجھنے، سیکھنے کا موقع ملا۔ محمود میاں نجمی کی محنت واضح نظر آتی ہے۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں ’’روبوٹ ہمارا دوست ہے، دشمن نہیں۔‘‘ پڑھ کر کافی جدید معلومات حاصل ہوئیں۔ ’’رپورٹ‘‘ میں بلوچستان میں کانگو وائرس کے پھیلائو کا پڑھ کر دُکھ ہوا۔

ہیئر اسٹائلز کے شُوٹ میں بالوں کا جُوڑا بہت خُوب لگ رہا تھا۔ ’’انٹرویو‘‘ بھی اچھا لگا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں ’’بہن جیسی سہیلی‘‘ بہترین تحریر تھی۔ ’’پیارا گھر‘‘ سے بھی کافی کام کی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ یہ میرا پہلا خط ہے اور اُمید کرتا ہوں کہ مجھے آپ کی طرف سے اچھا جواب ملے گا۔ مَیں ایک تحریر، بعنوان ’’آثار قیامت‘‘بھیج رہا ہوں، اس اُمید پر کہ جریدے میں کہیں نہ کہیں ضرور شائع کریں گی۔ خط میں اگر کہیں کوئی غلطی نظر آئے، تو درست کرلیجیے گا۔ (غلام نبی لغاری، سانگھڑ)

ج: کوئی غلطی…؟ آپ کا لال و لال خط (کہ ایڈیٹنگ سُرخ بال پین سے کی جاتی ہے) دیکھا اور آپ کے خط کی آخری سطر بلکہ آپ کی ہدایت پڑھی، تو بخدا ہنسی آگئی کہ ’’اگر کہیں کوئی غلطی نظر آئے‘‘ کہ ہم نے تو آپ کا تقریباً پورا نامہ ہی ری رائٹ کیا اور ماشاء اللہ ’’آثارِ قیامت‘‘ جو خیر سے آپ نے خط کی پشت ہی پر رقم کر ڈالے، اُنہیں تو پڑھنا بھی ایک کار محال ہے، شائع کہاں سے ہوں گے۔ بھیا! جس قسم کے خطوط آج کل آرہے ہیں، ہمارے خیال میں تو یہ بھی آثارِ قیامت ہی ہیں۔

شاید ناگوار گزرے

’’سنڈے میگزین‘‘ کی محبّت میں گو ڈھیر سارے میگزین جمع کررکھے ہیں، مگر میگزین ہذا میں پہلے جیسی وہ خصوصیات نہیں رہیں۔ ممکن ہے، آپ کو میری بات ناگوار گزرے، لیکن یہ سچ ہے کہ اب جریدہ ویسا نہیں رہا، جیسا ہوا کرتا تھا۔ میرے مالی حالات کچھ اچھے نہیں، وگرنہ مَیں کراچی آجاتا۔ (غلام رسول، کھلا بٹ ٹائون، ہری پور)

ج: جی نہیں محترم! جریدے سے متعلق آپ کے ارشادات ہرگز ناگوار نہیں گزرے، مگر یہ آپ کا کراچی آنے والا آئیڈیا شدید ناگوار گزرا ہے کہ آپ بھلا یہاں آکر کیا تیر مار لیں گے۔ ہم اِن دنوں جن حالات میں یہ ’’سنڈے میگزین‘‘ تیار کررہے ہیں، ہمارا چیلنج ہے کہ کوئی اِس سے بہتر کام کرکے دکھا دے تو ہم استعفٰی دے دیں گے۔

اسٹار قلم کاروں کی محفل

سبحان اللہ، الحمدللہ اوراللہ اکبر۔ میرے خیال میں اس سے بڑا خراجِ تحسین نہیں ہوسکتا۔ آپ کو مبارک ہو۔ اگر سچ پوچھیں، تو جہاں روزانہ جنگ اور ڈان آیا کرتے تھے، اب صرف اتوار کو جنگ اخبارآتا ہے، وہ بھی سنڈے میگزین کے صدقے، جو ہمارے گھر کے سارے افراد موبائل چھوڑ کر ضرور پڑھتے ہیں۔ اس ہفتے کے میگزین میں حضرت ایوب علیہ السلام کے صبرو شُکر کے بارے میں سبق آموز تحریر پر میں محمود میاں نجمی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اللہ اُن کے قلم کی تاثیر میں مزید برکت فرمائے۔ بیٹی! میرٹ کی چھلنی سے چھان کر آپ نے اسٹار قلم کاروں کی جو محفل سجائی ہے، وہ آپ کی عرق ریزی کی خُود ایک مثال ہے۔ منور مرزا کو اپنے قلم پر مکمل دسترس حاصل ہے۔ 

اُمتِ مسلمہ، جس کےصاحبانِ اقتدار باتوں کے بادشاہ ہیں اور زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کرتے، اُن کے لیے اِس سے شان دار مضمون نہیں لکھا جاسکتا تھا۔ اگر ان کی تجاویز پرعمل ہوجائے، تو کیا بات ہو۔ حافظ محمّد ثانی نے فیض احمد فیض پر شان دار تحریر رقم کی۔ فہیم زیدی نے سعودی عرب کی صحرائی تفریح گاہوں کی سیر کروائی، مزہ آگیا۔ فاروق اقدس کی تو کیا ہی بات ہے۔ بے روزگاری کا رونا رونے والے نوجوانوں کے لیے طارق شریف بھٹی کی محنت اور سخت جدوجہد سبق آموز ہے۔ ڈاکٹر عارف کی تحریر پڑھ کر کہ دنیا کی نصف آبادی معدے کے امراض میں مبتلا ہے، معلومات میں بیش بہا اضافہ ہوا۔ ’’سینٹراسپریڈ‘‘ میں کبھی نہیں دیکھتا۔ 

اِس کے لیے میری تجویز ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تواِسےایک صفحےکا کردیں، اِس طرح آپ کو ایک اضافی صفحہ مل جائے گا، جس پر مزید کوئی اچھی تحریر سما سکے گی۔ ’’پیارا گھر‘‘ کے مضامین اچھے اور معلوماتی تھے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں بزرگ ہستی سے بہترین تعارف کروایا گیا۔ کتابیں، جوکہ اب متروک ہی ہوتی جا رہی ہیں، اُن کے لیے میگزین کی کاوش ’’نئی کتابیں‘‘ قابلِ تحسین ہے۔ ثاقب صغیر نے ’’ڈائجسٹ‘‘ میں فلسطین کے مسلمانوں کی جدوجہد کی صحیح عکّاسی کی۔ 

ناقابل فراموش کے دونوں واقعات سبق آموز تھے۔ ’’متفرق‘‘ میں صلاح الدین ایوبی سے اچھا تعارف ہوا اور اب ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی بات۔ اور اُس کے لیے ’’ماشاءاللہ‘‘ کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے۔ ہاں، ایک تجویز ہے، اگر محمود میاں نجمی مکمل قرآنِ پاک کے اسان، عام فہم ترجمے اور تفسیر کا سلسلہ وار آغاز کریں، تو یہ اُمّہ کے لیے اُن کی طرف سے ایک بہترین تحفہ ہوگا اور ان حفّاظِ کرام کے لیے بھی، جو پُورا قرآن شریف توسینے میں اُتار لیتے ہیں، مگر اُسے سمجھتے نہیں۔ (سلیم اسماعیل چھاپرا، ایف بی ایریا، کراچی)

ج: آپ کی تجویز سر آنکھوں پر، لیکن یہ بہت بڑا کام اور بڑی اہم ذمّے داری کا معاملہ ہے۔ ہمارا نہیں خیال کہ ایک ہفت روزہ قرآن کے ترجمے و تفسیر جیسے اتنےبڑے فریضے سے عہدہ برآ ہونے کی اہلیت رکھتا ہے۔

                               فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

نرجس بٹیا! سدا خوش رہو۔ آج میں تبصرے کی ابتدا فلسطین پر ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کے مضمون سے کرتا ہوں۔ عظیم باپ کی عظیم بیٹی نے میگزین کے دو صفحات میں پورے فلسطین کو سمو کے رکھ دیا۔ سمیحہ بیٹی نے آپریشن ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کی جو چار وجوہ پیش کیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کو سوشل میڈیا پر اِس قدرعام کیا جائے کہ تنقید کرنے والوں کے منہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائیں۔ پھر ’’قصص القرآن‘‘ کے مضامین عوام الناس میں قرآن فہمی عام کرنےمیں جو کردار ادا کر رہے ہیں، اِس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ قرآنِ حکیم کے واقعات کو جس خُوش اسلوبی، محنت ولگن کےساتھ جدید اندازِ بیاں میں مصدّقہ حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے، اُس کے لیے مضمون نگار اور جنگ کی انتظامیہ بڑے انعام کے مستحق ہیں، جو یقیناً اللہ تعالیٰ ضرورعطا فرمائیں گے کہ اللہ کے پیغام کو اِس عُمدگی سے دنیا بھر میں عام کرنا اللہ والوں ہی کا کام ہے۔ 

منور مرزا نے جنگ بندی میں ناکامی کی وجوہ گوش گزار کیں۔ بے شک، وہ حالات کی بہت ہی صحیح تصویر پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل نے جاپان میں اُردو کی جو خدمت کی، اُسے روشناس کروایا، پھر اپنی عظیم لائبریری ٹوکیویونی ورسٹی کوگفٹ کردینا بھی کوئی مذاق نہیں۔ اے کاش! ہمارے حُکم ران کبھی ایسے خاموش خدمت گزاروں کی قومی خدمات کو بھی سراہنے کا کوئی اہتمام کریں۔ رئوف ظفر اپنے مضامین میں جو عرق ریزی کرتے ہیں، اُس کا بھی ثانی نہیں کہ آج کا صحافی تو صحافت کی دنیا میں اوپر اوپر تیرنے ہی میں خوش ہے۔ 

وہ رؤف ظفر، منور مرزا اور منور راجپوت کی طرح صحافت کی گہرائیوں میں ڈبکی کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ یوں بھی محنت سے جی چرانا تو گویا ہمارا قومی شعار بن گیا ہے۔ رئوف ظفر کی غیر معیاری ادویہ سے متعلق رپورٹ کا اگر حکّامِ بالا کوئی نوٹس لے لیں، تو کتنوں کا بھلا ہوجائے۔ ذیابطیس کے عالمی دن پر ڈاکٹر شکیل کا مضمون ہم جیسے بیماریوں کے دل دادہ افراد کے لیے گویا یاد دہانی کا الارم تھا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کی کہانیاں بھی ضرور پڑھتا ہوں۔ فی زمانہ، رشتوں میں خلوص و وفا کہاں رہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر سیف اللہ نے بہت مناسب بات کی کہ ’’کتب خانے دماغی صحت کے اسپتال ہوتے ہیں۔‘‘ اور یہ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ نوجوان نسل کتابوں سے کوسوں دور ہوچُکی ہے۔ اس مرتبہ مسندِ خاص پرایک پرانےزمانے کااستاد منصور براجمان تھا۔ شکریہ بیٹا! قارئینِ کرام کی خدمت میں میراسلام اور آخر میں نرجس ملک کو ایک بہترین شمارے کے لیے سبق آموز، معلوماتی مضامین کی تیاری پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد، اِس دُعا کے ساتھ کہ سدا خوش رہو۔ (پروفیسر سیّد منصور علی خان، کراچی)

ج: چلیں، آج ایک بار پھر مسند پر استاد ہی براجمان ہیں۔ وہ کیا ہے کہ ’’جائے استاد خالی است‘‘۔ استاد کی جگہ تو ہمیشہ خالی، باقی ہی رہتی ہے۔

گوشہ برقی خطوط

* جب ہم اپنی بھیجی ہوئی ای میلز پر فاتحہ پڑھ لیتے ہیں۔ اشاعت کی ہر اُمید دَم توڑ جاتی ہے، تب اچانک ہی آپ اُنہیں کہیں سے نکال نکول کے شائع کردیتی ہیں، اب بھلا یہ کیا بات ہوئی۔ ویسے مَیں اب جریدے میں صرف یہی صفحہ پڑھتی ہوں، کیوں کہ اللہ آپ کو خوش رکھے، آپ کسی کا دل نہیں توڑتیں۔ (صاعقہ سبحان)

ج: ہائیں!! ہمارے بارے میں تو عمومی رائے ہے کہ ہمیں لوگوں کے دِل توڑنے میں ملکہ حاصل ہے۔ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ یہ شکایت اکثرحضرات کی طرف سے آتی ہے۔ لیکن خیر، تمہاری ایک بات ہمیں بالکل پسند نہیں آئی کہ جریدے میں صرف ’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھتی ہو، کیوں بھئی، باقی صفحات کیوں نہیں پڑھتی، یہ تو بہت ہی غلط بات ہے، اگر تو ہماری محبّت میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھتی ہو، تو یہ بات گرہ سے باندھ لو کہ دیگر تمام صفحات بھی دراصل ہمارے ہی ہیں۔

* عبداللہ غزنوی کے ’’انٹرویو‘‘ میں لکھا ہوا تھا کہ ’’ٹی وی پر پہلا گانا نشر ہوا، تو والد کے خوف سے گھر کی بجلی منقطع کردی۔‘‘ جب کہ اس انٹرویو میں اوپر لکھا تھا کہ والد اُن کی پیدائش کے دو سال بعد ہی انتقال کرگئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے، جس پر آپ کو قارئین سے معذرت کرنی چاہیے۔ (بلال احمد)

ج: جی، جی بالکل، یہ بہت بڑی غلطی تھی، جس پر ہمیں معذرت ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے نمائندے کو کان پکڑوا دینے چاہئیں۔ جب کہ آپ نے جو عبداللہ غزنوی کے انٹرویو کو ’’دلیپ کمار کا انٹرویو‘‘ اور ’’Blunder‘‘ کو ’’Blinder‘‘ لکھ رکھا ہے۔ 2 سطر کی ای میل میں کوئی 20 غلطیاں ہیں، اُن کا محاسبہ کون کرے گا۔ رہی بات ہماری غلطی کی، تو بھائی، انٹرویو کی سُرخی میں اُن کے سگے نہیں، ’’سوتیلے والد‘‘ کاذکرہے، جس کی انٹرویو میں باقاعدہ وضاحت بھی موجود ہے۔

* اس ہفتے کے میگزین کو دل چسپ مضامین سے بھرپور پایا۔ تمام ٹیم کا شکریہ کہ اتنی عُمدہ ترتیب و تدوین سے ہمیں اس قدر محظوظ کیا۔ (حیات الحسینی)

ج: ذرّہ نوازی کا بے حد شکریہ۔

قارئینِ کرام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk