السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
بیش ترمواد، مطلوبہ مواد
’’سنڈے میگزین‘‘ ایک بہت معیاری اور منفرد رسالہ ہے، جو سب ہی قارئین کو بہت اچھا لگتا ہے۔ اس میں شامل بیش تر مواد ہمارا مطلوبہ مواد ہی ہوتا ہے۔ نیز، ’’آپ کا صفحہ‘‘ بھی اِس کی وجہِ انفرادیت ہے، جس کا کسی اور رسالے میں اب تصوّر بھی ممکن نہیں۔ (شری مُرلی چند، گوپی چند گھوکلیہ، شکارپور)
سردی سے متعلق اشعار؟
اُمید ہے، مزاج بخیرہوں گے۔ ماہِ دسمبر شروع ہونے والا ہے، تو اسی مناسبت سےآپ کو اپنے لکھے دسمبر کے چند اشعار اور تصویر ارسال کررہا ہوں۔ بہت اُمید ہے کہ نظرِثانی کرکے سنڈے میگزین کے صفحہ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں جگہ دیں گی۔ اس سے قبل بھی چند اشعار اورایک نظم ’’ منہگائی کے ہاتھوں‘‘ ارسال کیے تھے، وہ بھی ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔ ( طاہر گرامی، ٹوبہ ٹیک سنگھ)
ج : آپ کے یہ اشعار قابلِ اشاعت ہیں، نہ لائقِ نظرِ ثانی، اور نہ ہی اِس سے قبل بھیجے گئے۔ لہذا آپ سے التماس ہے کہ اگر واقعتاً لکھنے لکھانے پر طبیعت مائل ہے، تو نثرنگاری پر توجّہ فرمائیں۔
’’اور‘‘ سے پہلے کومےکی علامت!!
اتوارکےروز، درس گاہ سے12بجے چُھٹی ہوتے ہی بھاگم بھاگ مطعم (کھانے کی جگہ) کا رُخ کرتےہیں اور جلد ازجلد کھانے سے فارغ ہو کر ہاکر سے روزنامہ جنگ بمع سنڈے میگزین وصولتے ہیں۔ پھردارالاقامہ کےاپنے کمرے میں پہنچ کر سب سے پہلے کچھ صفحات کاچیدہ چیدہ مطالعہ کرتےہیں۔ بعدازاں، ظہر و عصر پڑھنےاوررات کواسباق دہرانے کے بعد جریدے کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ جمعرات کوگھرجاتے ہوئے میگزین بیگ میں ڈال لیتے ہیں اور گھر کے بھی انتہائی اہم امورمیں بقیہ جریدے کا مکمل مطالعہ شامل ہے۔
یعنی اپنی مصروف ترین زندگی میں بھی اِس سےتعلق جوڑے ہوئے ہیں اورہمارا یہ تعلق کوئی دس، بارہ برس قبل، بچپنے میں قائم ہوا تھا۔ ابتدا میں ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے رسیا نہیں تھے، یوں کہہ لیں، لفٹ نہیں کرواتےتھے، مگراب عرصہ ہوا، اِس کا مطالعہ سب سے پہلے ہوتا ہے۔ اس رفاقت کا جوبن وہ زمانہ تھا، جب ہم بلاناغہ اخبار پڑھا کرتے تھے۔ ’’مڈویک‘‘ اور ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بغیر زندگی نامکمل تھی۔ پھر اخبار نے’’سلم سینٹر‘‘ جوائن کرلیا۔ مڈویک تو بالکل چربی بن کے اُتر گیا اورسنڈے میگزین بھی اسمارٹ سے اسمارٹر ہوتا چلا گیا، مگر اِن سب باتوں کے باوجود آپ کا حُسنِ ترتیب سلیوٹ کے لائق ہے۔
اب کیا تعریف کروں، ’’آفتابِ آمد، دلیلِ آفتاب‘‘ (سورج کےوجود کےلیے دلیل کی حاجت نہیں، اُس کی روشنی خُود دلیل ہے) بس اتنا ہی کہوں گا کہ اِس قدر گرانی میں اِس قیمت پراِتنا بہترین علمی و ادبی اورخاندانی قسم کامواد فراہم کرنا بس آپ ہی کا خاصّہ، آپ ہی کوزیبا ہے۔ باقی اخبارات تو شاید وَرے وَرے رہنے ہی میں عافیت جانتے ہیں۔ بات کرتے ہیں، سامنے موجود میگزین کی۔ منور مرزا حسب سابق ایک اہم موضوع کے ساتھ صفحۂ اول پر براجمان ہیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں ’’قصّہ مچھلی والے نبی علیہ السلام کا‘‘ بہت خُوب ہے۔ ڈاکٹر سمیحہ کا مضمون پڑھ کر تو کافی دیر آنکھوں تلے اندھیرا رہا کہ ہمیں کرنا کیاچاہیے اور ہم کیا کررہے ہیں۔
نئی کتابوں کے ضمن میں عرض ہے کہ اگر عام آدمی کی قوّتِ خرید میں آنے والی کتب کو ترجیح دی جائے، تو تعارف پڑھ کر خریدنے والے بڑھیں گے۔ قراۃ العین حیدرسےمتعلق پڑھ کر اچھا لگا۔ رستم علی خان کا غیراسلامی رسومات پرحملہ بھی موقعےکی چوٹ معلوم ہوا کہ مُلکی معیشت بزبانِ حال اِسی کی متمنّی ہے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں کھرے کھرے جوابات تو ہر بار کی طرح لاجواب تھےہی، نیز یہ جان کر کافی خوشی اور اطمینان ہواکہ حافظ محمّد ثانی’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کی تحریرات عمیق نگاہی سے چیک کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ اچھے اردو بولنے، لکھنے والوں میں سے ہیں، تو میرا بھی ایک خلجان دُورکر دیں کہ لفظ ’’اور‘‘ سے پہلے کومےکی علامت (،) استعمال کی جانی چاہیے یا نہیں۔ (محمّد ابراہیم، ایف۔ بی۔ ایریا، کراچی)
ج:اصولی طور پر تو بالکل نہیں کی جانی چاہیے کہ ’’رموزِ اوقاف‘‘ (punctuation) میں کومے کی جو تعریف بیان کی گئی ہے، اُس کےمطابق ’’سکتہ‘‘ (،) ایک چھوٹا سا، مختصر وقفہ ہے، جس کو انگریزی میں ’’کوما‘‘ کہتے ہیں۔ جملے میں جب ہلکا سا توقف کرکے آگے بڑھتے ہیں، تو اکثروضاحت کے لیے اس علامت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے کراچی، لاہور، فیصل آباد، راول پنڈی، پشاور اورکوئٹہ پاکستان کے مشہور شہر ہیں۔ اکرم، انور، اسلم اوراحمد کل کراچی جائیں گے۔ لفظ ’’اور‘‘ کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ بس اب اخیرہوگئی ہے، تو اس کےبعد کومے کا استعمال چہ معنی دارد۔
جان کر حیرت ہوئی
اُمید ہے، بخیریت ہوں گی۔ ہر اتوار ہی ’’سنڈے میگزین‘‘ کا انتظار رہتا ہے۔ ’’حالات واقعات‘‘ میں منور مرزا نے Price hike سے متعلق بات کی۔ ’’قصص القرآن‘‘ میں قومِ فرعون پر عذابوں کا قصّہ بیان کیا گیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں رابعہ فاطمہ عظیم علمی سرمائے’’مکاتیبِ اقبال‘‘ پر روشنی ڈالتی نظرآئیں۔ یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ اقبال نے نہ صرف اردو بلکہ انگریزی، جرمن، فارسی اور عربی زبان میں بھی خطوط لکھے۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں ایڈیٹر صاحبہ کی تحریر کمال تھی، تو’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘میں امرضِ چشم کے حوالے سے بات چیت بہت معلوماتی رہی۔
پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے ایک ماہرِ امراض چشم کا ہونا یقیناً المیہ ہے۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں سید امیر احمد نےمقامی شہریوں کے زائرین سے عقیدت واحترام پر مبنی رویے، حُسنِ سلوک کا ذکر کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں آسان ورزش کا بتایا گیا۔ ایسی مختصر تحریریں شاملِ اشاعت کرتی رہا کریں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات بھی نصیحت آموز تھے اوراب بات اپنے باغ و بہار صفحے کی، جس میں ’’اِس ہفتے کی چٹھی‘‘ کا اعزاز شہزادہ بشیرمحمّد نقش بندی کے حصّے آیا۔ ویسے انہوں نے میری حوصلہ افزائی کرنے پر آپ کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا۔ (ماہ نور شاہد احمد، میرپورخاص)
ج: ابھی تو تم پر حیرتوں کے پتا نہیں کون کون سے جہان کُھلنے ہیں۔ ابھی تو غالباً تم اسکول کی طالبہ ہو۔ (تم نے شاید پچھلے خط میں بتایا تھا۔) وہ جو قابل اجمیری نے کہا ہے ناں کہ ؎ حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آگئے۔ ہم نظر تک چاہتے تھے، تم تو جان تک آگئے… خُود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آجائے گا… تم وہاں تک آ تو جائو، ہم جہاں تک آگئے۔ تو بیٹا! ابھی توتمہارے جاننے، سمجھنے، بُوجھنے کے لیے بڑا کچھ پڑا ہے۔
محنت، لگن، جاں فشانی
’’سنڈے میگزین‘‘ کی بھرپور چمک دمک عکّاسی کرتی ہے، اس بات کی کہ آپ اور آپ کی ٹیم انتہائی محنت، لگن اور جاں فشانی سے اپنےفرائضِ منصب انجام دے رہے ہیں۔ ’’قصص القرآن‘‘ سلسلے میں حضرت یونس علیہ السلام کا قصّہ دل جمعی سے پڑھا۔ ادبی سلطنت کی شہزادی، قراۃ العین حیدر کی زندگی کے حالات و واقعات اور ادبی خدمات پر اچھے انداز میں روشنی ڈالی گئی۔ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی کاوش ’’القدس!‘‘ اور طارق بلوچ صحرائی کی ’’تریاق کا زہر‘‘ پسند آئیں۔ ایک تحریر اور کچھ اقوالِ زرّیں حاضرِ خدمت ہیں۔ گر قبول افتد۔ (بابر سلیم خان، سلامتی پورہ، لاہور)
ج: تحریریں قابلِ اشاعت ہوئیں، تو ضرورشامل کرلی جائیں گی۔
مستقبل کا بازار…!
اُمید ہے، آپ اور آپ کی ٹیم خیریت سے ہوگی۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ تعمیرِبیت المقدس اورحضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کا‘‘ پڑھا۔ بہترین انداز سے رقم کیا گیا تھا۔ ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں رائو محمّد شاہد اقبال کھیلوں کے متعلق مضمون لائے، جو ہمیں کچھ خاص پسند نہیں آیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں ڈاکٹر عزیزہ انجم والدین کی توجّہ، بچّوں کی اچھی تربیت پر مبذول کروا رہی تھیں۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بتا رہے تھے کہ پاکستان دنیا بھر کےترقیاتی منصوبوں میں کہیں نظرنہیں آرہا۔ ’’جہانِ دیگر‘‘ میں ڈاکٹر عبدالستار عباسی ’’سفرِ وسط ایشیا‘‘ کا احوال بیان کرتے دکھائی دیے۔
انہوں نےاستنبول کے بازار کا ذکر کیا، جوکبھی قیدخانہ تھا۔ تو کیا گوانتاناموبے کو بھی ’’مستقبل کا بازار‘‘ کہاجاسکتا ہے، کیا کبھی ایسا ہونا بھی ممکن ہے۔ ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹر ثاقب حسین کا ’’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے‘‘ پر مضمون معلوماتی تھا۔’’متفرق‘‘ میں ونگ کمانڈر (ر) محبوب حیدرسحاب پاکستان میں سبز انقلاب کاذکرکررہے تھے، جس میں کچھ اُمید افزا باتیں بھی کیں۔ ڈاکٹر حفصہ صدیقی سعودی عرب میں مقیم پاکستانی تارکینِ وطن کے مسائل لائیں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ناہید خان کا افسانہ عُمدہ تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں میرا خط شامل نہیں تھا، مگر کوئی بات نہیں، اگلی بار شامل ہوجائے گا۔
اگلے جریدے کے مندرجات میں منور مرزا کا ’’حالات و واقعات‘‘ سب سے پہلے پڑھا کہ لکھتے ہیں ’’دنیا کو فلسطین یاد تو آیا‘‘ ویسے سچ کہیں تو دنیا کو فلسطین یاد نہیں آیا، بلکہ یاد کروایا گیا ہے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے سلسلے ’’قصص القرآن‘‘ میں ’’قصّہ برادرانِ یوسف علیہ السلام کا‘‘ کی دوسری اور آخری قسط پیش کی گئی۔ پتا نہیں کیوں، یوں لگا، جیسے یہ قسط عجلت میں ختم کی گئی ہے۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں منور راجپوت بہت ہی خشک مضمون لائے، بہرحال، اُن کی یادداشت کمال کی ہے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں ڈاکٹر قمر رضوی نے شاعر مصطفٰی زیدی کا ذکر کیا۔ جوش ملیح آبادی کی اہلیہ اور بچّوں کےساتھ تصاویراچھی لگیں۔آغا شورش کاشمیری کا نام صلاح الدین ندیم نے یادکروایا۔ اور’’ناقابلِ فراموش‘‘ میں مصباح طیّب کا واقعہ دل چُھوگیا۔ (سیّدزاہدعلی، شاہ فیصل کالونی نمبر3، کراچی)
ج: ہونےکوکیا نہیں ہوسکتا بھئی۔ ماضی قریب ہی کی تاریخ کےاوراق پھرول دیکھیں، جو جو کچھ ہوچُکا ہے یا ہو رہا ہے، کیا کسی نے کبھی اِس کا گمان بھی کیا تھا۔
ماڈلنگ کا موقع…؟؟
دیکھیے، آپ ہماری عزت کیا کریں۔ ہم کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں، ہم ایک عظیم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک خاندانی نواب زادے ہیں، براہِ مہربانی ہمارے خطوط کی ایڈیٹنگ نہ کیا کریں، ہماری گزارشات پر مِن وعن عمل کیا کریں اور… ہمیں فوراً سے پیش تر ماڈلنگ کا موقع فراہم کیا جائے۔ یقین کریں، چُوڑی دار پاجامے، کھسّے، سرپر رام پوری ٹوپی اور منہ میں پان کی گلوری کے ساتھ جب ہم ماڈلنگ کریں گے، تو لوگ لکھنئو، حیدرآباد دکن کے نوابوں کو بھول جائیں گے۔ ہم آپ کے فوری جواب کے منتظر ہیں۔ (نواب زادہ بے کار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: ہا ہا ہا…یہ جو آپ کو اچانک ہر کچھ ماہ بعد ماڈلنگ کا شوق چراتا ہے، تو چلیں، اِس بار یوں کریں کہ چُوڑی دار پاجامے، کھسّے، ٹوپی اور خاص طور پر گلوری کے ساتھ اپنا ایک پورٹ فولیو بنوا کے بھجوائیں۔ دیکھنے کے بعد اگر ہم فوت نہیں ہوگئے، تو اگلے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ اور کچھ نہیں تو ’’عید شُوٹ‘‘ میں آپ کے ہاتھوں بچّوں کو عیدی ہی دلوا دیں گے۔ اور …آپ کا ہر اوٹ پٹانگ خط چھاپ تو رہے ہیں، اب اِس سے زیادہ کیا عزت دیں آپ کو۔
فی امان اللہ
اس ہفتے کی چٹھی
رسالہ موصول ہوا، سرِورق پر ماڈل کے جمال کی دوشیزگی دیکھتے آگے بڑھے، تو پچھلے شمارے کی ماڈل کی ویران آنکھوں کاغم بھی دُور ہوگیا۔ ’’حالات و واقعات‘‘ میں منور مرزا بیلٹ اینڈ روڈ کے10سالہ ترقیاتی منصوبے پر چین کی معاونت اوراُس کے نئے اتحادی بنانے کےعمل کو سراہ رہے تھے۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا قصّہ لائے، تو ’’رپورٹ‘‘ میں طاہرانور قرآنِ کریم کی کتابت کے جدید سافٹ ویئر سے متعلق بتا رہے تھے۔ بے شک، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے قرآن و حدیث کی کُتب اور دیگر اسلامی کتابیں چھاپنا آسان سے آسان تر بنانے والے اجرِ عظیم کے مستحق ہیں۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نےلکھا کہ غزہ میں حماس کی جدوجہد اور مزاحمت سےاسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا بُت پاش پاش ہوگیا۔
نیز، بیت المقدس کے، سرزمینِ انبیاءؑ ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے لیے پُرتقدس ہونےکی وجہ یہ ہے کہ یہ قبلۂ اول ہے۔ نیز، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے معراج کی رات مسجدِ اقصیٰ میں انبیائے کرامؑ کی امامت فرمائی، لہذا مسلمانوں کے لیے مکّہ اور مدینہ کے بعد بیت المقدس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ البتہ یہ بات حیران کُن ہے کہ اسرائیل کے ان ہول ناک مظالم پر دنیا کے امن و آزادی کے نام نہاد ٹھیکے دار کیوں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ جانوروں کی ہلاکت پراحتجاج کرکےآسمان سرپراُٹھا لینے والے معصوم بچّوں،خواتین کے قتلِ عام پر ٹس سے مس نہیں ہورہے، دیگر اقوام کی بات کیا کریں، مسلمان حُکم رانوں کے ضمیر گھوڑے، گدھےبیچ کےسو رہے ہیں۔
کیا ہم اللہ پر بھروسا کرکے باہم اُٹھ کھڑے نہیں ہوسکتے۔ بقول مولانا ظفرعلی خان ؎ فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو… اُتر سکتے ہیں، گردوں سے قطاراندرقطاراب بھی۔ کیا ہم آج تین سوتیرہ سے بھی کم ہیں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں آپ کا رائٹ اَپ پڑھے بنا آگےبڑھا نہیں گیا۔ ’’کہی ان کہی‘‘ میں وحید زہیر،کوئٹہ کےسینئر فن کارعبداللہ غزنوی سے بات چیت کررہے تھے، فن کار نہ صرف معاشرے کا بہترین حصّہ بلکہ قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ غربت و افلاس میں حکومت کو ان کی پذیرائی کرنی چاہیے، نہ کہ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔
نئی کتابوں پر منور راجپوت نے ماہرانہ تبصرہ کیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مبشرہ خالد اورعالیہ بھٹی نےہیراسٹائلز اور گھر کی افادیت پر مضمون باندھے۔ مریم شہزاد منہگائی کا رونا رونے والی خواتین کو اخراجات گھٹانے کا مشورہ دے رہی تھیں۔ ’’متفرق‘‘ میں پروفیسر لطافت علی، ادبی شہزادی قراۃ العین حیدر کی سوانحِ حیات سے آگاہ کر رہے تھے۔ ہم تواُنہیں ادبی سلطنت کی ملکہ سمجھتے تھے، مگر پروفیسر صاحب شہزادی بتارہے ہیں تو ہم بھی مان لیتے ہیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے دونوں واقعات نصیحت آموز لگےاور ہمارے صفحے پر ضیاء الحق قائم خانی اعزازی چٹھی کے حق دار ٹھہرے تو بجا ہی ٹھہرے، جب کہ ہماری چٹھی بھی شاملِ بزم تھی۔ (شہزادہ بشیر محمّد نقش بندی، میرپورخاص)
ج: آپ کی، خادم ملک، رونق افروز برقی، شری مُرلی چند اور سیّد زاہد علی کی چِٹھیاں بھلا کب شاملِ بزم نہیں ہوتیں۔
گوشہ برقی خطوط
* سنڈے میگزین اپنی نوعیت کا انوکھا میگزین ہے، جوکہ لکھاریوں کو نت نئے موضوعات پر مشتمل تحریریں لکھنے کی دعوت دیتا ہے۔ اِسی لیے لگ بھگ ہر تحریر معلومات سے بھرپور ہوتی ہے۔ (مستقیم نبی، نواب شاہ)
* اس بار سنڈے میگزین پڑھ کے نہ صرف دل خوش ہوا بلکہ رُوح کو بھی قرار آگیا۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں اپنی حلوہ پوری کی ترکیب دیکھ کر تو یقین ہوگیا کہ بھئی ’’دیر ہے، اندھیر نہیں‘‘ ویسےدو ہزار بائیس میں بھیجی تھی، مَیں نے پیارا گھر کے لیے یہ ترکیب۔ اب تو آپ شکریہ نہیں،سلام قبول کیجیے۔ باقی پورا میگزین ہی خُوب تھا، خصوصاً ’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ تومعلومات سے بھرپور لگا۔
خوراک کے عالمی دن کی تحریر پڑھ کے دل اداس ہوگیا۔ نہ جانے کیوں انسان ہی انسان کا دشمن بنا ہواہے۔ ایک طرف بھوک ہے اور دوسری طرف رزق کی اِس قدر بے حُرمتی۔ فیشن کی بات کروں، تو میرا تو اِس موئے فیشن سے دُور دُور کا بھی تعلق نہیں۔ ہاں پوچھنا یہ تھا کہ یہ ’’آپ کاصفحہ‘‘ میں برقی خطوط کی تعداد کم سے کم کیوں ہوتی جا رہی ہے؟ (ثناء توفیق خان، ماڈل کالونی، ملیر، کراچی)
ج: لوگوں نے خطوط کی طرح ای میلز میں لمبی چوڑی رام کہانیاں جو لکھنا شروع کردی ہیں، تو بےچارے ایک منحنی سے کالم میں کیا ہی شایع ہوگا۔ ایڈٹ بھی کریں، تو کس قدر، اب اپنی ای میل ہی دیکھ لو۔
* کیسی ہیں آپ، آپ سے ملنے کو بہت دل کرتا ہے، پلیز پلیز، میرا نام لےکے یعنی ’’پیاری افشاں‘‘ کےنام سے مخاطب کرکے مجھے جواب دیجیے گا۔ ٹھیک ہے ناں، ویسے گورنمنٹ کو چاہیے کہ آپ کو ’’میگزین کوئین‘‘ کا ایوارڈ دے اور آپ کا ایک تفصیلی انٹرویو بھی ہونا چاہیے۔ آپ کی پیاری دوست۔ (افشاں حسن، مصطفٰی ٹائون، وحدت روڈ، لاہور)
ج: پیاری افشاں!یہ تم آج ہی ایسی بہکی بہکی باتیں کررہی ہو یا ِپہلے بھی کرتی رہتی ہو۔ تم پیاری افشاں بھی، تم پیاری دوست بھی…تو بھئی، جب تم اپنےآپ سےخُود ہی اتنا پیار کرتی ہو، تو پھر تمھیں بھلا کسی دوسرے کے پیار کی کیا ضرورت۔
قارئینِ کرام !
ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk