• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نظیر فاطمہ، لاہور

دسمبر کا آخری عشرہ جاری تھا۔ اس مرتبہ سالِ نو کی تقریب بیگم غوری اپنے ہاں منعقد کر رہی تھیں اور اس مقصد کے لیے نئے سِرے سے پورے گھر کا رنگ و روغن کروایا گیا تھا، فرنیچر اور پردوں سمیت گھر کا دیگر سازوسامان تبدیل کر دیا گیا تھا اور لان میں بھی نئے بیل، بُوٹے لہلہا رہے تھے۔ ان کاموں پر مسز غوری کے تو صرف پیسے خرچ ہوئے تھے،لیکن ان کے ملازمین کام کر کر کے بے حال ہو چُکے تھے اور کام تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ 

ڈرائیور سے لے کر مالی تک سبھی ملازمین کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ نیا سال شروع ہونے سے تین، چار روز پہلے ہی مسز غوری اپنی تیاریوں سے مطمئن ہوئیں۔ ان کی کاوشوں اور نوکروں کی اَن تھک محنت کے نتیجے میں پورا گھر لشکارے مار رہا تھا اور اس کی خُوب صُورتی پہلے سے بھی کئی گُنا بڑھ گئی تھی۔

باقی کے دن مسز غوری نے اپنی سج دھج پر صَرف کرنے تھے اور یہ اُن کا حق بھی بنتا تھا، کیوں کہ جب انہوں نے گھر کی ہر شے کو قابلِ دید بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا، تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ پارٹی میں خود کو سب سے نمایاں کرنے کے لیے اپنی ذات پر محنت نہ کرتیں۔ سو، انہوں نے شاپنگ مالز اور بیوٹی پارلر کے چکر لگانا شروع کر دیے۔ 

کل سے نیا سال شروع ہو رہا تھا۔ بیگم غوری کے ہاں سالِ نو کی تقریب پورے عروج پر تھی۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں کچھ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے، تو کچھ مفّرحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مسز غوری کی سج دھج اور حُسنِ انتظام دیکھ کر جہاں کئی لوگ اُن پر رشک کر رہے تھے، تو وہیں کئی ایسے بھی تھے کہ جو حسد دِل میں چُھپائے، چہروں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے پِھر رہے تھے۔

گرچہ نیو ایئر پارٹی کے لیے کیٹرنگ وغیرہ باہر سے کروائی گئی تھی، مگر پھر بھی نوکروں کی دوڑیں لگی ہوئی تھیں۔ تاہم، مہمان سارے ہی خُوش باش تھے، بالخصوص بیگمات بڑی بے نیازی سے ایک دوسرے کو اپنے نئے سال کے منصوبے بتا رہی تھیں۔ ’’ بھئی! ہم تو اگلے سال ورلڈ ٹُور پر جائیں گے۔‘‘مسز لبنیٰ کاشف نے کچھ اِتراتے ہوئے کہا۔ ’’شُکر ہے، اس سال ہمارے سارے مسائل حل ہو گئے۔ 

اب اگلے سال ہم نے نئے گھر میں شفٹ ہونا ہے۔‘‘ مسز خان فخریہ انداز سے بولیں۔ ’’اور ہم لوگ ہمیشہ کے لیے کینیڈا سیٹل ہو رہے ہیں۔‘‘ بیگم شمسی نے چہکتے ہوئے بتایا۔ ’’ بھئی! مَیں نے اس سال اپنی لُک بدلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزن کم کروں گی، امریکا سے پلاسٹک سرجری کروائوں گی اور پھر تم لوگ میرا ایک نیا رنگ و رُوپ دیکھو گے۔‘‘ مُشی بیگم نے بھی بہت اِٹھلا اِٹھلا کے بتایا۔

مہمانوں کے چمکتے دمکتے، بے فکر چہروں اور خیرہ کُن ملبوسات سے گویا پوری محفل رنگ و نور کے سیلاب میں ڈُوبی ہوئی تھی۔’’مسز غوری! آپ نے نئے سال کے حوالے سے کیا پلاننگ کی ہے؟‘‘ کسی خاتون نے سوال کیا، تو انہوں نے ایک ادا سے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’کچھ خاص نہیں۔ اگلے سال غوری صاحب اپنا بزنس کینیڈا تک وسیع کریں گے۔ آپ کو تو پتا ہی ہے کہ ہمارے دونوں بڑے بیٹے امریکا میں سیٹل ہیں۔ وہیں اپنا بزنس کر رہے ہیں، تو چھوٹے بیٹے نے، جو ہمارے ساتھ رہتا ہے اور نئی نئی اسپورٹس کارز خریدنے کا شوقین ہے، نئے سال کے آغاز پر ایک نئی اسپورٹس کارلے کر دینے کی فرمائش کی ہے، سو وہ پوری کریں گے اور بس…۔

پونے بارہ بجے موسیقی کی آواز بڑھا دی گئی۔ مہمان اُس کی دُھنوں پر دیوانہ وار رقص کرنے لگے۔ پھربارہ بجنے سے چند سیکنڈز پہلے موسیقی بند کی گئی اور سب نے اپنی نظریں گھڑیوں پر جمالیں۔ اس کے بعد اُلٹی گنتی شروع ہو گئی اور پھر بارہ بجتے ہی تاریک آسمان آتش بازی سے منوّر ہو گیا۔ پٹاخے، شُرلیاں، آتشیں انار اور ہوائیاں فضا میں چھوڑی جا رہی تھیں ۔ فلک نے گویا ایک رنگین سائبان کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس کے بعد نئے سال کا کیک کاٹا گیا اور اس دوران اس قدر شور مچا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ آخر میں کھانے پینے اور رقص و سرود کی محفل جم گئی۔

اس موقعے پر کچھ لوگ ایک کونے میں کھڑے بوجھل دل اور اُداس نظروں سے دولت کے نشے میں ڈُوبے شرکائے محفل کی خرمستیاں دیکھ رہے تھے۔ انہیں ہمیشہ کی طرح نئے سال میں بھی طرح طرح کے اندیشے لاحق تھے۔ یہ مسز غوری کے ملازمین تھے، جنہیں آج پوری رات مہمانوں کی خدمت میں حاضر رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ ’’رحیم! تُو نے نئے سال کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟‘‘ رشید نے مہمانوں کی باتوں سے متاثر ہو کر ساتھ کھڑے دوسرے ملازم سے پوچھا، تو اُس کی ہنسی چُھوٹ گئی۔’’ منصوبہ بندی…!! ہمارے لیے کیا نیا سال اور کیا پُرانا۔

ہمیں تو ان صاحب لوگوں کی دعوتوں، پارٹیوں سے پتا چلتا ہے کہ پُرانا سال ختم ہو رہا ہے اور نیا سال شروع، ورنہ ہم تو جب سے پیدا ہوئے ہیں، ہمارے لیے ہر نیا سال، بلکہ ہر نیا دن، پرانے سے مشکل ہی ثابت ہوا ہے۔‘‘ رحیم نے محفل میں حال سے بے حال ہوتے مہمانوں پر ایک نظر ڈالی اور اپنی افسردگی کو پھیکی سی مسکراہٹ تلے چُھپاتے ہوئے نظریں جُھکا لیں۔