شمیم غوری، کراچی
مچھلی کا شوقیہ شکار پوری دُنیا میں ایک کھیل کا درجہ رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے ایک ’’لَت‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نہ صرف دُنیا کا سب سے سستا بلکہ مہنگا ترین کھیل بھی ہے۔ یعنی مضبوط دھاگے میں پیپر پِن باندھ کر اور تھوڑا سا آٹا لگا کر بھی مچھلی کا شوقیہ شکار کیا جا سکتا ہے،تو چند روپے کی ڈور، کانٹا اور چارہ لے کر نہر ، دریا کنارے یا ساحلِ سمندر پر بھی یہ شوق پورا کیا جا سکتا ہے، جب کہ صاحبِ ثروت افراد جدید سہولتوں سے آراستہ کشتیوں پر منہگے منہگے آلات کی مدد سے بھی شکار کرتے ہیں۔
پاکستان میں عموماً اگست کے آخر میں مچھلی کے شکار کا سیزن شروع ہوتا ہے، کیوں کہ مئی، جون اور جولائی میں کشتیاں سمندر کی منہ زور موجوں کا مقابلہ نہیں کرپاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی کے شوقیہ شکاری کئی ماہ تک سمندر کے پُرسکون ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اس دوران شکار کی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں، جن میں ڈور، کانٹے اور راڈ ریل کا بندوبست کرنا، چرخیوں کی صفائی سُتھرائی ، اُن پر نئی ڈور چڑھانا، مختلف اقسام کی مصنوعی مچھلیاں اور مصنوعی چارہ خریدنا اور اسٹین لیس اسٹیل کے تار تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ شکار کے دوران بہت سی مچھلیاں ڈور کو کاٹ دیتی ہیں، تو اس سے بچائو کے لیے کانٹے کو فولادی تار سے باندھا جاتا ہے اور پھر چند مچھلیاں پکڑنے کے بعد جب تار کم زور ہو جاتا ہے، تو اسے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا، ان تاروں کو ذخیرہ بھی کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں، مچھلی کو سمندر سے کشتی میں منتقل کرنے کے لیے ایک خاص قسم کا ہُک اور جال بھی تیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مچھلیوں کو کشتی کی جانب متوجّہ کرنے کے لیے ان کے اطراف مخصوص لائٹس بھی نصب کی جاتی ہیں۔
ماضی میں شکاری سمندر میں شکار کے دوران چاند، ستاروں، پہاڑوں اور تیمر کے جنگلات سمیت دیگردرختوں کی مدد سے مطلو بہ مقامات کا اندازہ لگاتے تھے یا پھر ناخدا، جسے عام طور پر ’’ناکوا‘‘ کہا جاتا ہے، اپنے تجربے سے کسی خاص مقام کا تعیّن کرتا تھا، لیکن آج کل اس مقصد کے لیے کشتیوں میں جی پی ایس موجود ہوتے ہیں۔
کراچی کے شکاری مختلف ساحلی علاقوں سے کُھلے سمندر میں جاتے ہیں، جن میں ہرجینا، گھارو، کیٹی بندر، کھارو چھان، شاہ بندر، بہارو، کاجل بندر، گڈانی، ہاکس بے، رحمٰن گوٹھ اور مبارک ویلیج وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، شکاریوں کا پسندیدہ ساحل، ’’سُنہرا بِیچ‘‘ہے، جس کا پرانا نام ’’سُنہری بِیچ‘‘ تھا۔ یہ دریائے حب کے دہانے پر واقع ہے۔ یہاں یہ اَمر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب حب ڈیم تعمیر نہیں ہوا تھا، تو اس ساحلی علاقے میں دریا کے پانی سے گندم کاشت کی جاتی تھی۔ تاہم، حب ڈیم بننے کے بعد اب یہ علاقہ بنجر ہو گیا ہے اور مقامی باشندوں کو پینے کے لیے بھی پانی خریدنا پڑتا ہے، جب کہ ان کی آمدن کا واحد ذریعہ ماہی گیری ہے۔
مچھلی کے شکار کا سیزن شروع ہوتے ہی ان ساحلی علاقوں پر میلے کا سماں ہوتا ہے۔ کوئی کشتی میں شکار کا سامان رکھتا نظر آتا ہے، تو کسی کی ذمّے داری کشتی میں میٹھے پانی سے بَھرے گیلن رکھنا ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح کوئی اپنے آئس باکس میں برف توڑ توڑ کر رکھتادکھائی دیتا ہے، تو کوئی عین وقت پر اہم چیز یاد آ جانے پر فوراً اپنی موٹر سائیکل کی طرف دوڑ لگاتا ہے۔
زیادہ تر کشتیاں ایک سے دو روز کے لیے کُھلے سمندر میں جاتی ہیں اور اُن میں شکار کے سازو سامان کے علاوہ آٹا، چاول، گھی، خوردنی تیل، سبزیاں، پان، گٹکا اور سگریٹ وغیرہ بھی وافر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، کُھلے سمندر میں کھانا تیار کرنے کے لیے کشتی میں چولہا، گیس سیلنڈر اور برتن سمیت کیمپنگ کا سامان بھی رکھا جاتا ہے۔
عموماً ایک کے بعد دوسری کشتی سمندر میں روانہ ہوتی ہے۔ کُھلے سمندر میں شکار کے بے شمار مقامات ہیں اور شکاری اپنے اپنے پسندیدہ مقام ہی پر شکار کھیلتے ہیں۔ ان مقامات میں چرنا کی پہاڑی، چھوٹا تلہار، بڑا تلہار، گڈانی کھوڑہ کچیانی، حشمت والی، حیات کا پتّھر اور ندیم والی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اسی طرح مختلف اقسام کی مچھلیوں کے شکاری بھی الگ الگ ہوتے ہیں اور وہ اسی مناسبت سے تیاری کرتے ہیں۔ سمندر میں یوں تو بے شمار اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں، لیکن ان میں کالا کُنڈ، سفید کُنڈ، گھسڑ، سُوا، سُرمئی، ہیرا، دندیا، مُشکا اور مارلن ٹونا خاصی مقبول ہیں۔ ان میں سب سے قیمتی مچھلی سُوا ہے اور اس کا 4سے 5کلو کا دانہ 4سے5لاکھ میں فروخت ہوتا ہے۔ تاہم یہ شاذونادر ہی شکاریوں کے ہاتھ لگتی ہے۔
کراچی میں بعض افراد اور کلبز مچھلی کے شوقیہ شکار کو ایک اسپورٹس کے طور پر رائج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس ضمن میں وقتاً فوقتاً شکار کے مقابلے بھی منعقد کروائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ افراد اور کلبز شکاریوں کو ایک دوسرے کی مدد اور تعاون پر بھی آمادہ کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ زمانۂ قدیم سے یہ دستور رائج ہے کہ کُھلے سمندر میں اگر کسی شکاری کو مدد کی ضرورت ہوتی ہے، تو دیگر شکاری مل کر اس کی مدد کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر سمندر میں سفر کے دوران کوئی شکاری یا ناخدا کسی سے کھانے کے لیے مچھلی سمیت ضرورت کی کوئی دوسری چیز مانگے، تو انکار کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ کُھلے سمندر میں شکار کے لیے بُزدلوں اور بخیلوں کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ایک دوسرے سے تعاون ہی سمندر میں شکاریوں اور ماہی گیروں کی بقا کا ضامن ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تمام شکاری اور ماہی گیر خود کو ایک برادری تصوّر کرتے ہیں اور شکار کے دوران بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ کُھلے سمندر سے واپسی پر شکاری حسبِ ضرورت مچھلی اپنے پاس رکھتے ہیں اور باقی ساحل پر موجود مچھلی فروشوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ یہ مچھلی فروش فشریز کے مقابلے میں تازہ تازہ شکار کی گئی مچھلی کے زیادہ دام دیتے ہیں۔ پورے موسمِ سرما میں مچھلی کے شوقیہ شکار کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور آپ ہاکس بے سے کچھ فاصلے پر سنہرا بِیچ پر شکاریوں کا پورا میلہ دیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں آپ کو بحیرۂ عرب میں پائی جانے والی تازہ ترین اور اصل مچھلی بھی مناسب قیمت پر مل جاتی ہے۔