• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ بابری مسجد کا حل

دنیا کی تاریخ قتل و غارت اور جنگوں سے بھری پڑی ہے۔ فرشتوں نے یہاں پر فسادات کی پیشگوئی بہت پہلے ہی کر دی تھی۔ لیکن جو ان فسادات اور جنگوں میں ثابت قدم رہا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہا ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا اور ان جگہوں کا مالک بن گیا جو کسی نے کبھی تصور بھی نہیں کیں۔ جہاں اتنے زیادہ انسانوں کا خون بہایا گیا وہاں کسی ظالم کیلئے مسجد کو ختم کرنا کون سی مشکل بات تھی لیکن ظالم کا مقابلہ احتیاط کے ساتھ کرتے رہنا چاہیے۔ دنیا میں مساجد ایران کے طرز تعمیر پر بنائی جاتی ہیں اگر آپ تحقیق کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ گنبد و محراب سب سے پہلے ایران میں بننا شروع ہوئے۔ آخری ایرانی بادشاہ نے اسی طرز پر اپنے لئے ایک عظیم الشان محراب بنوائی تھی جس میں وہ بیٹھا کرتا تھا۔ یہ محراب اتنی بڑی ہے کہ انسان اس کے سامنے چاول کا دانہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ محراب آج بھی گوگل پر ٹیسی فون (CTESIPHANE) کے نام سے ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ اسلام میں مسجد کیلئے کسی مخصوص طرز تعمیر کو اپنانے کا نہیں کہا گیا یہاں تک کہ اسلام نے تمام دنیا کی عبادت گاہوں کو سانجھا قرار دیا ہے۔ لیکن اکثر لوگ تمام انسانوں کو سانجھا نہیں سمجھتے جبکہ ہم سب انسان ایک ہی فیملی کا حصہ ہیں اور حضرت آدمؑ اور اماں حوا ہمارے والدین ہیں۔ پھر جو اس حقیقت کو صاف دل سے تسلیم نہ کرے تو اس سے دور اور محفوظ ہی رہنا چاہیے۔ میرے نزدیک سانحہ بابری مسجد کا حل یہ ہے کہ اس جیسی ایک مسجد پاکستان میں بنائی جائے اور اس پر بھرپور انداز میں جشن منایا جائے اس کی افتتاحی تقریب کو پوری دنیا میں دکھایا جائے۔ ایسے ہی دو تین مساجد اور بنائی جائیں جو بابری مسجد جیسی ہوں۔ جب مسلمان خوشبو لگا کر اچھا لباس زیب تن کئے ان مساجد میں داخل ہوں گے تو ان لوگوں کوبڑی تکلیف ہوگی جن کے دل میں کینہ ہے۔ ان کی یہ ہی سزا ہے کہ دنیا و آخرت میں جلتے رہیں۔

٭٭٭٭

الیکشن جنگ

الیکشن میں چند دن باقی رہ گئے ہیں۔ ہر جماعت اپنی اپنی الیکشن کمپین چلا رہی ہے۔ جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ جہاں اکثر جماعتیں الیکشن کے فیصلے پر خوش ہیں وہاں چند جماعتوں کے الیکشن پر تحفظات بھی ہیں۔ میدان جنگ میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب جیتنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی، ایسے میں ایک ہی امید رہ جاتی ہے اور وہ ہے رب ذوالجلال سے امید۔حال ہی میں کرکٹ ورلڈ کپ منعقد ہوا۔ سیاسی جماعتوں کی طرح بڑی بڑی ٹیمیں بھی میدان میں اتریں۔ بھارتی بورڈ نے اس دوران ایک مشکوک کام شروع کردیا اور وہ یہ تھا کہ اس نے میچ کی پچ بدلنا شروع کردی۔ میچ میں پچ کی حالت بہت اہمیت رکھتی ہے اس لئے تو ٹاس جیتنا بڑا معنی رکھتا ہے۔ پتہ نہیں بھارتی بورڈ پچ تیار کرنے کی آڑ میں پچ کے کون کون سے حصے بدلتا رہا ہوگا اگر کوئی پچ کے مخصوص حصوں کو بدل کر انہیں اوپر سے نمدار یا خشک مٹی سے چھپا دے اور پچ کے ایسے حصوں کے بارے میں اپنی ٹیم کو بتا دے تو پھر بال کہاں زیادہ ٹرن لے گا اور کہاں کم یا زیادہ اچھلے گا، آپ بہتر جانتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ایک ٹیم نے ہمت اور امید نہ ہاری۔ اس ٹیم کی ہمت و امید کو سلام ہے کیونکہ اس ٹیم جیسی ہمت و امید کسی میں نہ تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے سب رکاوٹوں اور مشکلات کے ہوتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا۔ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ یہاں کس ٹیم کا ذکر ہو رہا ہے جی ہاںیہ آسٹریلیا کی ٹیم ہے۔ روہت شرما نے ہر میچ کی طرح ورلڈ کپ کے میچ میں بھی یہی کہا کہ ٹاس اور پچ سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ ہم پرفارمنس پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر ایسا تھا تو فائنل میچ کے دوسرے حصے میں جب پچ نے آپ کے بالروں کو سپورٹ نہیں کیا تو تب آپ کی پرفارمنس کو فرق کیوں پڑا؟۔ ورلڈکپ کے آغاز میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ آسٹریلوی ٹیم کے جیتنے کے امکانات دور دور تک نہیں لیکن جس طرح سے گلین میکس ویل نے اپنی ٹیم کو افغانستان کے خلاف جتوایا، ٹی ہیڈ نے فائنل میچ میں سمجھداری کے ساتھ بیٹنگ کی ، پیٹ کمنز نے اچھی کپتانی اور بائولنگ کی اس نے کھیل کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا۔ آسٹریلوی ٹیم آخر تک ہمت نہیں ہاری، یہاں تک کہ پیٹ کمنز نے کھیل سے باہر نکل کر بھی بھارتی ٹیم اور اس کے بورڈ کا مقابلہ کیا۔ ایسا تب ہوا جب آسٹریلوی کپتان نے پچ کی تصویر کھینچ لی اور اس میں رد و بدل پر سنگین نتائج سے بھارتی بورڈ کو خبردار کیا۔ ایسی ہمت و امید کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے آسٹریلوی ٹیم کو جیت سے نوازا۔

اس سب کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے ووٹرز بھی ہمت و امید کا دامن نہ چھوڑیں نیز اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے اپنا حق بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ آگے جو بھی ہوگا وہ ہی ملک و قوم کیلئے صحیح ہوگا کیونکہ حکومت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے عطا کرے۔

٭٭٭٭

فطرت

آرٹس کا علم سیکھنا ہو تو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت کا مشاہدہ کریں۔ ایک فطرت وہ ہے جس پر انسان بنایا گیا ہے اور ایک وہ جو قدرتی مناظر میں نظر آتی ہے، انسان اچھی ہی فطرت لے کر اس دنیا میں آتا ہے ۔ یہ اس کی عادات ہوتی ہیں جو اسے جنت یا جہنم میں لے جاتی ہیں کیونکہ اگر کسی کی فطرت میں ظلم ہو تو وہ آخرت والے دن کہے گا کہ میں تو پیدا ہی ظالم کیاگیا تھا تو اب میں کیوں جہنم میں داخل ہوں۔ فطرت نہ بدلتی ہے نہ ہی بدلی جا سکتی ہے۔ عادات بنائی جاتی ہیں اور بدلی بھی جاسکتی ہیں،عادات ہمارے مسلسل عمل کے نتیجے میں بنتی ہیں اور یہ آہستہ آہستہ بڑھتی اور گھٹتی ہیں۔بہتر یہ ہے کہ انہیں جلد از جلد بدلنے کی کوشش کی جائے کیونکہ یہ جتنی گہری ہو جائیں گی ان کو اتنا ہی بدلنا مشکل ہو جائے گا۔ یہاں ان عادات کا ذکر ہو رہا ہے جو دنیا و آخرت میں نقصان کا سبب بنتی ہیں۔ سستی کی عادت بھی بہت خطرناک ہے خصوصاً جب ضروری کاموں کا معاملہ ہو۔ اس عادت سے ہمارے پیارے نبی ﷺنے بھی پناہ مانگی ۔ عادت کا بدلنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی لکڑی سیدھا کرنے کی کوشش کرے اور بار بار اس کو دیکھے کہ یہ سیدھی ہوئی ہے کہ نہیں۔ ایسا کرنے میں دیر تو ضرور لگتی ہے لیکن بالآخر لکڑی سیدھی ہو جاتی ہے۔ خیر عادات دیرپا ہوتی ہیں اور اگر یہ نقصان دہ ہوں تو ان کو بدلنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ سائنس کے مطابق عادات والدین سے بچوں میں بھی منتقل ہوتی ہیں، فطرت نہیں۔ ایسی عادات کو بدلنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ کافی گہری ہو چکی ہوتی ہیں۔ بہرحال ان کو بدلنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور جہاں جبر کی ضرورت ہو وہاں جبر کرنا چاہیے۔

ایک فطرت وہ ہے جو خوبصورت مناظر کی صورت میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ اگر کسی نے فائن آرٹس کا بہترین کام دیکھنا ہو تو وہ فطرت کو دیکھ لے۔ فطرت میں موجود مختلف مخلوقات کے پہناووں سے پتہ چلتا ہے کہ لباس کیسے بنایا جاتا ہے۔ چھوٹی مخلوقات نے شوخ رنگ کے پہناوے جبکہ بڑی مخلوقات نےبڑے رنگوں والے پہناوے زیب تن کئے ہوتے ہیں۔ یہاں بڑے رنگوں سے میری مراد وہ رنگ ہیں جو قدرت میں بڑی تخلیقات کولگائےگئے ہیں۔ مثال کے طور پر میدان، پہاڑ اور برف کے رنگ۔ یہ رنگ شوخ نہیں ہوتے۔ ایک دن میں سوچنے لگا کہ یہ کالا اور سفید بکرا، کس تخلیق کے رنگ پہنے ہوئے ہے۔ کافی دیر ہوگئی پتہ نہ چلا، پھر اچانک سے جیسے ذہن میں ڈالا گیا ’’سفید اور کالے پہاڑ کے رنگ‘‘ یہ پہاڑ کچھ دنوں کے بعد میں نے ٹی وی پر بھی دیکھے۔ قربانی والی مخلوقات پر اکثر میں نے پہاڑوں کے رنگ دیکھے ہیں جیسے خاکی پہاڑ کی مانند بیل، سفید برف اور خاکی و سفید پہاڑ کے رنگوں والا بکرا اور ایسے ہی خاکی پہاڑ کی طرح اونٹ۔ خدا کی عظمت کو سلام کہ اس نے اپنی راہ میں قربان ہونے والوں کو بلند رنگوں کے لباس پہنائے۔

سبحان اللہ و بحمدہ

٭٭٭٭

تازہ ترین