ایسے وقت میں جب پاکستان گمبھیر معاشی بحران کی زد میں ہے، توانائی کی شدید قلت ہے اور پٹرول ، گیس اور بجلی کی قیمتیں مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں، ایران نے نوٹس دے دیا ہے کہ پاکستان پاک ایران گیس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے فوری اقدامات کرے ورنہ اس کے خلاف بین الاقوامی ثالثی فورم میں 18 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا جائے گا۔ ایران نے پاکستان کو اپنے حصے کی 81 کلو میٹر گیس پائپ لائن بچھانے کیلئے مزید 180دن کی مہلت بھی دی ہے۔ ایران اپنے حصے کی پائپ لائن پہلے ہی بچھا چکا ہے جبکہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان گوادر سے ایرانی سرحد تک پائپ لائن نہیں تعمیر کر سکا۔ پاک ایران گیس منصوبہ 2014ء سے تاخیر کا شکار چلا آ رہا ہے۔ ایران اس حوالے سے پاکستان کو دو نوٹس پہلے بھی دے چکا ہے۔ اب اس نے تیسرا نوٹس بھیجا ہے۔ ایران نے امریکی پابندیوں سے بچنے کی حکمت عملی تیار کرنے کیلئے اپنی تکنیکی اور قانونی ٹیم بھی اسلام آباد بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔ اس ٹیم نے اسی ماہ آنا تھا جو حالیہ سرکاری کشیدگی کی وجہ سے نہیں آ سکی۔ اب جبکہ دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور ایرانی وزیر خارجہ بات چیت کیلئے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں تو توقع ہے کہ ایرانی ٹیم بھی فروری میں پاکستان آئے گی اور پاکستانی حکام سے تبادلہ خیال کے ذریعے گیس منصوبے پر کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ عراق اور ترکی ایران پر امریکی پابندیوں سے استثنا حاصل کر کے ایرانی گیس طویل عرصے سے خرید رہے ہیں۔ بھارت کو بھی اس معاملے میں چھوٹ حاصل ہے مگر پاکستان ایران سے کئی سال قبل کئے جانے والے معاہدے کے باوجود ایرانی گیس حاصل نہیں کر سکا۔ پاکستان نے پابندیوں سے استثنا کیلئے امریکہ سے رابطہ بھی کیا تھا مگر اس نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت اگرچہ ایران پر امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتی مگر امریکی دبائو کی وجہ سے اس کا فیصلہ پاکستان کے خلاف بھی آ سکتا ہے اس لئے یہ معاملہ اتنا آسان نہیں۔ اسلام آباد میں پاکستان کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ گیس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے حکمت عملی تیار کر لی گئی ہے جس پر ایرانی حکام سے مزید مشاورت ہو گی۔ پاکستان اور ایران کی اعلیٰ سطحی قیادت کے درمیان بھی اس سلسلے میں رابطے قائم ہیں۔ ایرانی ماہرین کی ٹیم سے تبادلہ خیال کے بعد مناسب حکمت عملی کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد تک 81کلو میٹر گیس پائپ لائن مکمل کرنے کا اصولی فیصلہ بھی کیا جا چکا ہے۔اور اس کیلئے وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے تین ارب روپے (1.2ارب ڈالر) کا فنڈ بھی موجود ہے۔ امریکہ کی رضا مندی حاصل ہو گئی یا امریکی پابندیوں سے بچنے کا طریقہ تلاش کر لیا گیا تو پائپ لائن پر کام شروع ہو جائیگا جسے بعد میں نواب شاہ تک توسیع دی جائے گی۔ لیکن خدانخواستہ معاملے کے نازک پہلوئوں سے بچنے کا راستہ نہ نکل سکا تو پاکستان کو آئی پی معاہدے کی خلاف ورزی پر جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور دو مسلم ممالک کے درمیان تعلقات بھی متاثر ہوں گے معاشی بحران پر قابو پانے کیلئے پاکستان کو توانائی کی اشد ضرورت ہے۔ ایران سے گیس کا حصول اس سلسلے کی بنیادی کڑی ہے۔ ایرانی گیس ملنے سے صنعتوں کا پہیہ تیزی سے رواں ہو سکتا ہے جس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا اور تجارتی خسارے میں بھی کمی آئے گی۔ عام انتخابات اس وقت قریب ہیں۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ معاملہ اب نئی حکومت کے سپرد ہو گا جسے عوامی مینڈیٹ کے مطابق پاک ایران تعلقات اور امریکی پابندیوں کے پس منظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن کا قابل عمل حل نکالنا ہو گا۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کر لیا جائے گا تاکہ توانائی کی ملکی ضرورت پوری کی جا سکے یہ نئی منتخب حکومت کی آزمائش ہو گی۔