• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف (ICJ) نے اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کا حکم دیتے ہوئے نسل کشی مقدمے کی سماعت روکنے کی اسرائیلی درخواست کثرت رائے سے مسترد کردی۔ اپنے فیصلے میں عالمی عدالت انصاف نے حکم دیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے اقدامات کو روکے، انسانی امداد پہنچنے دے، صورتحال بہتر بنائے اور عدالتی حکم کے مطابق اقدامات کی رپورٹ ایک ماہ میں جمع کرائے تاہم عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں غزہ اسرائیل جنگ بندی کے حوالے سے خاموشی اختیار کی۔

عالمی عدالت انصاف کے مذکورہ فیصلے کی 15 ججوں نے حمایت جبکہ 2نے مخالفت کی اور اس طرح عالمی عدالت نے کثرت رائے سے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں اور جنوبی افریقہ کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے اختلاف کرنے والے ججوں میں ایک جج کا تعلق یوگینڈا اور دوسرے کا تعلق اسرائیل سے تھا جبکہ ایشیا، مغربی اور یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے تمام ججوں نے فیصلے کی حمایت کی جن میں جرمنی، آسٹریلیا، روس، جاپان، سلواکیہ، فرانس، برازیل، چین، بھارت، مراکو، لبنان، جمیکا اور صومالیہ کی شہریت کے حامل ججز شامل تھے جن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نسل کشی کے خلاف عالمی کنونشن کی پابندی اسرائیل پر لازم ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 7اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور اب تک تقریباً 26 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں 14ہزار معصوم بچے بھی شامل ہیں اور اقوام متحدہ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔

عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اسرائیل پر نسل کشتی کے الزامات جھوٹے اور اشتعال انگیز ہیں جبکہ امریکہ نے حسب توقع اس مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی افریقہ نے گزشتہ سال 25 دسمبر کو عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ اسرائیل، غزہ میں نسل کشی کرکے عالمی کنونشن کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے جس وقت یہ تاریخی فیصلہ سنایا جارہا تھا، اُس روز بھی اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری تھی جس کے نتیجے میں 320 فلسطینی شہید ہوئے۔ فیصلے کے وقت ICJ کے باہر فلسطینیوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور فیصلے کے بعد فضا نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی۔

سلام ہے نیلسن منڈیلا کے ملک جنوبی افریقہ کو جو ایک غیر مسلم ملک ہوتے ہوئے غزہ میں مسلمانوں پر ہونیوالی اسرائیلی بربریت کے خلاف اپنے معاشی مفادات قربان کرکے اسرائیل کو عالمی عدالت لے گیا۔ جنوبی افریقہ کا یہ اقدام او آئی سی کے ممبر 57اسلامی ممالک کے منہ پر ایک طمانچہ ہے جن میں سے کسی ایک ملک کو بھی اتنی جرات نہ ہوئی کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھانے کیلئے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹاسکے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ او آئی سی کے بیشتر ممبر ممالک اسرائیل کے ساتھ معاشی اور تجارتی تعلقات کو ترجیح دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کی نظر میں غزہ میں فلسطینیوں کا خون ارزاں ہے جبکہ او آئی سی، امریکہ اور مغربی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔ تاریخی فیصلے کے بعد پاکستان سمیت سعودی عرب، قطر، یو اے ای اور دیگر اسلامی ممالک نے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر خود کو خیر مقدمی کلمات تک ہی محدود رکھا مگر امت مسلمہ کی جانب سے او آئی سی اور اسلامی ممالک شدید تنقید کا نشانہ بنے جن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کی درخواست کسی اسلامی ملک کی جانب سے کیوں نہیں دائر کی گئی جو مسلم حکمرانوں کیلئے شرم کا مقام ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد الجزائر کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس رواں ہفتے طلب کیا گیا ہے جس میں اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر پابند کئے جانے پر غور کیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ اسرائیل جنگ بندی کی قرارداد دو مرتبہ ویٹو کرچکا ہے۔

عالمی عدالت کا اسرائیل کے خلاف فیصلہ، فلسطینیوں کیلئے اُمید کی ایک کرن اور اچھی پیشرفت ہے جو اسرائیل کو دنیا میں تنہا کرنے اور غزہ میں اس کے جرائم بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ گوکہ عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں اسرائیل کو احکامات کی تعمیل کے بارے میں رپورٹ ایک ماہ میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کا امکان کم ہی نظر آتا ہے کیونکہ عالمی عدالت انصاف کے پاس اپنے فیصلوں کی تعمیل کرانے کیلئے کوئی اختیارات اور فورس نہیں مگر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد اسرائیل کا مکروہ چہرہ دنیا بھر میں بے نقاب ہوگیا ہے۔ ایسے میں او آئی سی اور اسلامی ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل پر اپنا دبائو بڑھائیں اور اُسے جنگ بندی پر مجبور کریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین