• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا وطن یہ ملک ہے۔ میری دھرتی سندھ ہے۔ سندھ پاکستان کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم اور پاکستان سندھ کےبغیر پھل سے محروم درخت ہے۔ یعنی سندھ اور پاکستان یک روح یک جان ہیں۔ اس وطن کیلئے جتنی قربانی سرحد پر کھڑے ہوئے فوجیوں نے دیں اتنی ہی قربانیاں ہم سندھیوں نے دیں، کیوں کہ سانگھڑ کے آس پاس آج بھی حر مجاہد اس دھرتی کی حفاظت کیلئے سینہ سپر ہیں، یہ ہی نہیں بلکہ اس دھرتی کو بنانے کا سہرا بھی ایک سندھی محمد علی جناح کے سر جاتا ہے،پھرشہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس دھرتی کی پیاس اپنے خون سے بجھائی۔ ایٹمی پروگرام سے لے کر ترقی کی وہ منازل جو اس سے پہلے کسی نے سوچی نہ تھیں، وہ سب شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ممکن ہوئیں۔ہاں پھر شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے بحیثیت وزیر اعظم میزائل ٹیکنالوجی سمیت جو تاریخی کام کیے وہ تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں اور پھر اس ملک میں آمریت کے خلاف لڑنے کا سہرا بھی ان ہی کرداروں نے خوب نبھایا۔آصف علی زرداری تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے۔ جس کے حصے میں جیلیں، تشدد اور کردار کشی آئی کیوں کہ اس نے دھرتی کے خلاف ہونے والی ہر سازش کو نیست و نابود کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ وہ چاہتا تو بھٹو خاندان سے بے وفائی کر کے ساری زندگی دوسروں کی طرح مزے کرتا لیکن اس نےایسا نہیں کیا۔ کون نہیں جانتا مشرف دور میں اسے کیا کیا آفرز نہ کی گئیں لیکن اس نے جیل میں رہ کر مشرف آمریت کو بھی للکارا۔اس نے بیک ڈور ڈپلومیسی کے بجائے عدالتوں میں اپنی بے گناہی کی جنگ لڑی۔آصف علی زرداری وہ واحد سیاست دان ہیں جو کردار کشی اور فوجداری مقدمات سے گزرے لیکن کسی ادارے کی توہین تو دور کی بات انہوں نے ملک کے کسی ادارے کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا کیوں کہ انھیں یہ اندازہ ہے کہ شخصیات آتی جاتی رہتی ہیں اداروں کو ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ فوج ہو یا آئی آیس آئی ،یہ آصف علی زرداری کے نزدیک کسی کی میراث نہیں بلکہ پاکستان کے ادارے ہیں جنہیں ہمیشہ قائم رہنا اور قائم رکھنا ہے تاکہ دشمن کی ہر سازش ناکام بنائی جاسکے۔ ہر حکومت نے آصف علی زرداری کو نشانہ بنایا، ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی حکومت میں جب وہ پاکستان کے صدر تھے، اس وقت وہ ملک دشمنوں کے نشانے پر رہے اور انکے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والی مشین اس دور میں بھی نہیں رکی، لیکن آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے تاریخ کو شکست دی اور جمہوریت اور پاکستان کے خلاف سازش کرنے والوں کو منہ کی کھانا پڑی اور جمہوریت رواں دواں رہی۔ آصف علی زرداری نے ہمیشہ اپنے کردار سے ثابت کیا کہ مشکل وقت گزر جاتا ہے اور وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو مشکل وقت سے نکلنے کا ہنر جانتےہیں۔ پاکستانی سیاست میں اصولوں کے فقدان نے اسے اس قدر دھندلا دیا ہے کہ نوجوان نسل سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں آصف علی زرداری کا طرز سیاست ہوا کا تازہ ہوا کا جھونکامحسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ موقع پرست کے بجائے اصول پسند رہے ہیں۔ انھوں نے بلوچستان کے احساس محرومی کو کم کرکے ثابت کیا کہ وہ مسائل سے نمٹنا جانتے ہیں۔وہ پاکستان کے صدر رہتے ہوئے اختیارات سے دستبردار ہو گئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کو بااختیار بنایا اور مفاہمت کی پالیسی کے ذریعے اپنے بدترین مخالفین کو میز پر لائے، شاید ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو 18ویں ترمیم جیساعظیم کام نہ کرتاجو اب پاکستان کے آئین کا حصہ ہے۔

آصف علی زرداری اس وقت پاکستان میں واحد سیاستدان ہیں جو سب کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ موجودہ حالات ہم سے تقاضہ کررہے ہیں کہ مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھایا جائےاور مفاہمت کا بادشاہ آصف علی زرداری ہے۔ آنیوالے انتخابات میں کوئی ایک جماعت پورے پاکستان سے اکثریت لینے میں کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی ۔ ایسے میں انتخابات کے بعد اگر مخلوط حکومت بنتی ہے تو اس میں آصف علی زرداری اہم کردار ادا کرسکتے ہیںاور تمام دھڑوں، وفاقی اکائیوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ آصف علی زرداری ہی ہماری کشتی کو پار لگا سکتے ہیں اور ملک کی تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا وزیر اعظم بننا اس خطے کیلئے اہم ہو سکتا ہے۔ یقینی طور پر بلاول بھٹو زرداری کو ہم سب وزیر اعظم بنتا دیکھنا چاہتے ہیں اور اگر پی پی پی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو آصف زرداری کی بھی یہ ہی خواہش ہوگی کہ وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری جیسا متحرک نوجوان ہو۔ ملک کے جو معاشی حالات ہیں اور آنیوالے دنوں میں ملک کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہوگا ان میں بلاول بھٹو زرداری جیسی نوجوان قیادت کو منتخب کرنا چاہئے یہ واحد لیڈر ہے جو نوجوانوں کی نمائندگی کر رہاہے،باقی تمام لیڈر عمر رسیدہ ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی کیرئیر پی پی پی کی قیادت سے لیکر ملک کے وزیر خارجہ سے شروع ہوا ہے،وہ اپنے نانا کی طرح وزیر اعظم کے منصب کیلئےزیادہ مناسب ہیں، ہو سکتاہے ملک کی تاریخ پھر سے دہرائی جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین