جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سابق کرکٹر اور مشہور زمانہ کوچ مکی آرتھر جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ اور ڈائریکٹر بننے سے قبل جنوبی افریقہ، آسٹریلیا اور سری لنکا کی ٹیموں کے بھی کوچ رہ چکے ہیں انھیں سابق چیئر مین کرکٹ بورڈ ذکا اشرف نے ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی پر فارغ کردیا اور سابق کپتان محمد حفیظ کو کوچنگ کا مناسب تجربہ نہ ہونے کے باوجود ٹیم ڈائریکٹر مقرر کردیا مگر ٹیم کے حالیہ دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پے در پے شکستوں کے بعد سیاسی بنیادوں پر تعینات کیے جانے والے چیئر مین سے بھی استعفٰی لے لیا گیا۔ مکی آرتھر نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سابق چیئر مین کی اہلیت اور فیصلہ سازی کی صلاحیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں کرکٹ کے مستقبل سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ مکی آرتھر کا کہنا ہے پاکستان میں ٹیلنٹ بہت ہے مگر افسوس کی بات ہے نوجوان کھلاڑی نئے معاہدوں اور اگلے دوروں میں اپنی جگہ بنانے کیلئے ملک اور ٹیم کی جیت کیلئے کھیلنے کی بجائے انفرادی کارکردگی بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ٹیم کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔پاکستان کا قومی کھیل اگرچہ ہاکی ہے مگر گزشتہ چنددہائیوں سے کرکٹ کا کھیل ملک میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ ملک کے ہر میدان اور گلی کوچے میں نوعمر بچے کرکٹ بیٹ اور بال تھامے کھیلتے نظر آتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی بنیادوں یا تعلقات کی بنا پر لگائے گئے چیئر مینوں اور سفارشی کلچر کے باوجود غریب اور متوسط گھرانوں کے بچے اپنی محنت اور صلاحیتوں سے لیگ کرکٹ یا قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بناتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ کرکٹ میں دنیا کے دوسرے بڑے کھیلوں کی طرح پیسہ، عزت اور گلیمر بہت ہے اس لیے مناسب تعلیم و تربیت کے بغیر شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے بعض کھلاڑی محنت اور ترقی کے صحیح راستے سے بھٹک کر ایسے کام کر بیٹھتے ہیں جس سے نہ صرف ملک اور فالو کرنے والے عوام کی سبکی ہوتی ہے بلکہ انکا کیریئر بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔ دنیا کے بڑے اور مقبول کھیلوں فٹ بال، باسکٹ بال اور ٹینس کی طرح کرکٹ میں بھی جوئے اور میچ فکسنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور ماضی میں ہمارے چند اسٹار کرکٹرز بھی ان معاملات میں ملوث رہے جسکی وجہ سے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ان پر جرمانے عائد کیے اور سزائیں دیں۔ آئی سی سی جس کا ہیڈ کوارٹر دبئی میں ہے دنیا بھر کے کرکٹ کھیلنے والے ممالک میں مختلف فارمیٹ کی کرکٹ سرگرمیوں کیلئے اصول و ضوابط طے کرتی ہے اور انتظامات کی نگرانی کرتی ہے، اس کا اینٹی کرپشن یونٹ کھلاڑیوں اور آفیشلز کی حرکات و سکنات اور رابطوں پر نظر رکھتا ہے تاکہ وہ میچ فکسنگ یعنی جوئے وغیرہ میں ملوث نہ ہوجائیں ۔ اسّی کی دہائی میں شارجہ میں منعقد ہونے والے پاک بھارت میچوںپر فکسنگ کے الزامات سامنے آئے۔ برصغیر پاک و ہند میں کرکٹ کے کھیل میں جوئے کا دھندہ ممبئی بھارت سے شروع ہوا جو بعد ازاں دبئی یواے ای اورپاکستان تک پھیل گیا۔ سنہ 2007میں پاکستانی ٹیم کے کوچ باب وولمر کی جمیکا کے ایک ہوٹل میں پراسرار موت کو بھی بعض لوگوں نے جوئے اور میچ فکسنگ سے جوڑنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں بھی کئی برسوں سے کرکٹ میچوں پر پیسے لگانے، انھیں کنٹرول کرنے اور پیسے کو باہر بھیجنے کے منظم نیٹ ورک کام کر رہے ہیںجہاں بڑی ایمانداری سے زیر زمین تمام کام ہو رہا ہے۔ اگرچہ حکومتی ادارے اور کرکٹ بورڈ کا اینٹی کرپشن یونٹ ان کے خلاف کارروائیاں کرتا رہتا ہے مگر یہ دھندہ اسقدر منافع بخش ہے کہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت کی عدم توجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی نااہلی کی وجہ سے ملک میں کرکٹ کا کھیل، ہاکی، فٹ بال اور اسکواش کی طرح تنزلی کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے کوئی بڑا ٹورنامنٹ پاکستان میں منعقد نہیں ہوا، بیرونی ممالک کی ٹیمیں مختلف وجوہات کی بنا پر ملک میں آنے سے کتراتی ہیں اور ہماری ٹیم کی کارکردگی اسقدر شرمناک ہے کہ بیرونی دوروں میں شائقین یکطرفہ مقابلوں کو دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم نہیں آتے۔ قومی کھیل ہاکی جس میں ہم کبھی اولمپک اور ورلڈ چیمپئن تھے آج عالمی رینکنگ میں پندرھویں نمبر پر ہیں اور تیسری بار اولمپک گیمز کیلئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے گزشتہ بیس برس سے متواتر صدر رہنے والے جنرل ریٹائرڈ عارف حسن نے آخر کار بہتر سال کی عمر میں خرابی صحت کی وجہ سے عہدہ چھوڑ دیا جنکے دور میں اولمپکس میں گولڈ یا سلور میڈل حاصل کرنا ایک خواب بن کر رہ گیا تھا۔ ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں ایک نمائشی ہاکی میچ میں جانے کا موقع ملا ،پہلی قطار میں میرے ساتھ ایک سابق اولمپین کھلاڑی بیٹھے ہاکی کی تباہی کا ذمہ دار فیڈریشن اور مسلط کیے گئے افراد کو قرار دے رہے تھے، جب مزید وی آئی پی افراد کی آمد ہوئی تو اس سابقہ عظیم کھلاڑی کو دوسری قطار میں بھیج دیا گیا کیونکہ منتظمین نے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو اس کرسی پر بٹھانا تھا۔ قومی ہیروز کے ساتھ ایسا سلوک یقیناً شرمناک ہے جو مہذب معاشروں میں بالکل قابل قبول نہیں۔ ہم کھیلوں کے میدانوں میں دوبارہ سبقت حاصل کر سکتے ہیں جس کیلئے منظم و مربوط پالیسی بنانا ہوگی، میرٹ پر تعیناتیاں اور سلیکشن کرنا ہوگی اور سب کو آگے بڑھنے کیلئے برابر مواقعے دینا ہوں گے اور سب سے بڑھ کر ملک کے عزت و وقار کو سب سے مقدم رکھنا ہوگا۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)