• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹھ فروری کو ہونیوالے عام انتخابات کیلئے سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت ہر سیاسی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لئے ووٹرز کو لبھانے کیلئے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کر رہی ہے۔ تاہم ووٹرز کیلئے ضروری ہے کہ وہ ان وعدوں اور دعوئوں کو ان سیاسی جماعتوں کی سابقہ کارکردگی اور حالیہ منشور کے تناظر میں پرکھ کر کسی امیدوار یا سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کریں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بدترین معاشی حالات کے باوجود اس وقت بھی پاکستان میں عام انتخابات کا عمومی ماحول ماضی کی طرح ملک کو درپیش حقیقی معاشی مسائل کی بجائے مختلف شخصیات اور ردعمل کی سیاست کے گرد گھوم رہا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سال سے پاکستان کو جن معاشی مسائل کا سامنا ہے انکا تقاضا ہے کہ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے سے پہلے یہ پتہ ہو کہ کس سیاسی جماعت نے کیا معاشی ایجنڈا دیا ہے اور اس پر عملدرآمد کس حد تک ممکن ہے۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں اپنے ووٹرز کو اس حوالے سے کھل کر آگاہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ووٹرز بھی سیاسی ناپختگی کے سبب اپنے حقیقی معاشی مسائل کو حل کرکے اپنی حالت زار بہتر بنانے کی بجائے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت یا شخصیت کو اقتدار میں لانے کیلئے توانائیاں ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔

پاکستانیوں کو درپیش معاشی مسائل کے تناظر میں تین بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں جو وعدے کئے ہیں اس کے مطابق مسلم لیگ ن نے 2025ء تک مہنگائی کی موجودہ شرح کو دس فیصد تک لانے اور اگلے چار سال میں مہنگائی کی شرح چار سے چھ فیصد تک لانے کا وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف نے بھی مہنگائی کم کرنے پانچ سے سات فیصد تک لانے کا ہدف مقرر کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لئے کم آمدنی والے افراد کی آمدنی میں ہر سال آٹھ فیصد اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ موجودہ حالات میں دیکھا جائے تو ان میںسے کوئی بھی ہدف قابل عمل نظر نہیں آتا ہے کیونکہ مہنگائی میں اضافے کے بنیادی عوامل میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ ایک بنیادی محرک ہے۔ علاوہ ازیں مختلف اشیاء پر عائد حکومتی ٹیکسز اور ڈیوٹیز کی شرح میں اضافہ بھی مہنگائی کو بڑھانے کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ ایسے میں کسی بھی حکومت کے لئے کیونکر ممکن ہو گا کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی مہنگائی کی موجودہ شرح جو کہ تیس فیصد سے زائد ہے اس میں فوری طور پر نمایاں کمی لائے یا کم آمدنی والے لوگوں کی آمدنی میں بغیر کسی معاشی سرگرمی یا حکومتی فنڈز کے خرچ سے اضافہ ممکن ہو ۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے معاشی پلان کو مزید واضح کرتیں تاکہ ان کے ووٹرز یہ جان سکتے کہ ان کی زندگیوں میں آسانی کیسے آئے گی۔

اس مسئلے کا ملک کے موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں حقیقت پسندی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ اس وقت عوام کو ٹارگٹڈ سبسڈی فراہم کرنے کے علاوہ کسی بھی حکومت کے پاس کوئی قابل ذکر معاشی آپشن موجود نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ دوسرا آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت پانچ سے دس بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتیں مستحکم یا کم کرنے کے لئے انتظامی اقدامات کرنے کے علاوہ ان پر عائد ٹیکسز کو ختم یا کم کر دے۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی کے لئے ان پر عائد سیلز ٹیکس، ڈویلپمنٹ لیوی یا دیگر سرکاری چارجز میں کمی کرکے بھی مہنگائی کی شرح میں کسی حد تک کمی لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے آئی ایم ایف سے حاصل کئے گئے مالیاتی پیکیج اور اس کےاہداف کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔

علاوہ ازیں بجلی کے بلز میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجہ سے لوگوں کو درپیش مسائل میں کمی کے لئے مسلم لیگ ن نے بجلی کے بلز میں 20 سے 30 فیصد تک کمی کے علاوہ بجلی کی پیداوار میں 15 ہزار میگاواٹ اضافہ کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس میں سے دس ہزار میگاواٹ بجلی شمسی توانائی کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ تحریک انصاف نے بھی سولر اور ونڈ پاور سے بجلی کے حصول کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے جبکہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی پرائیوٹائزیشن اور پاور سیکٹر میں اصلاحات کو اپنے منشور میں نمایاں اہمیت دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے کم آمدنی والے طبقات کو تین سو یونٹ تک مفت بجلی کی فراہمی کے علاوہ ہر انڈسٹریل زون میں سولر پارک کے قیام اور سولر، ونڈ اور ہائیڈل پاور کے استعمال کو فروغ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں اس حوالےسے اتفاق رائے نظر آتا ہے کہ مستقبل میں درآمدی فیول کے ذریعے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں پر انحصار ختم کر کے توانائی کے متبادل اور سستے ذرائع کو فروغ دیا جائے گا۔ اس حوالے سے فوری نتائج حاصل کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ کمرشل اور گھریلو صارفین کی سستی بجلی تک رسائی آسان بنانے کے لئے سولر پینل لگانے کے لئے آسان اقساط پر یا بلاسود قرضوں کا پروگرام شروع کرے۔ علاوہ ازیں ملک میں سولر پینلز کی مینوفیکچرنگ کے لئے بھی سیکٹر ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ملک میں بڑے پیمانے پر سولر انرجی کے استعمال کو جلد سے جلد فروغ دینا ہے تو اس کیلئے مقامی سطح پر اچھی کوالٹی کے سولر پینلز کی تیاری اور معیاری سروسز کی فراہمی یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اس اقدام سے سولر پینلز کی درآمد کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر پر پڑنے والے اضافی بوجھ سے بھی نجات ملے گی۔

تازہ ترین