پاکستان اور بھارت دو جوہری طاقتوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بد اعتمادی کی فضا اور ہر متعلقہ ایشو پر ایک دوسرے پرسبقت لے جانے، ہزیمت سے دو چار کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے عمل کی داستان بہت طویل ہے اور وقتاً فوقتاً اس میں فریقین کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے نشیب و فراز بھی آتے رہتے ہیں گو کہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان جنگ و جدل بھی ہوئی لیکن جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع اور تباہی و بربادی کے بعد بھی آخری حل کیلئے مذاکرات میں باقی بچتے ہیں جس پر فریقین کو غیر مسلح ہو کر ایک ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے لیکن اگر ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو جب سے نریندر مودی نے بھارتی وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے دونوں ملکوں کے تعلقات میں روایتی سرد مہری کی جگہ بھارت کی جانب سے کئے جانیوالے متعدد اقدامات کے باعث خوفناک حد تک مختلف شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے امکانات کبھی اتنے ابہام کا شکار نہیں ہوئے جتنے بھارتی وزیراعظم کے ببنے کے بعد ہوئے اور اس صورتحال کا آغاز 2014 کو ہوا تھا اب ایک دہائی ہونے کو آئی ہے لیکن اس میں مثبت سمت پیش رفت نہیں ہوئی۔ چونکہ نریندر مودی بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی جماعت دائیں بازو کی سخت گیر سیاست اور ہندو انتہا پسند گروپس کی نمائندہ جماعت کی شناخت رکھتی ہے جس نے تجارت اور تمام دو طرفہ متنازع امور جن میں مقبوضہ کشمیر، سیاچن سرکریک اور سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں دریائی پانی کی تقسیم شامل پر بات چیت کی گنجائش بھی نہیں چھوڑی اور بھارتی وزیراعظم کے بالخصوص پاکستان مخالف طرز عمل اور اقدامات سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرد مہری کے روئیے جو انتہا تک پہنچے ہوئے ہیں ان کی برف خاصی دیر تک جمی رہے گی۔ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات گزشتہ کئی سال سے مایوس کن دکھائی دیتے ہیں البتہ2019 میں بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود اور پاکستان میں ان کے ہم منصب اجے بساریہ ناخوشگوار ماحول میں اپنے ملکوں میں چلے گئے اور کم و بیش پانچ سال ہونے کو آئے ہیں اور دونوں ملکوں کے ہائی کمشنرز کی واپسی نہیں ہوئی۔
سارک ممالک کا اجلاس جس میں پاکستان، بھارت، افغانستان، بھوٹان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال شامل ہیں علاقائی تعاون کی تنظیموں کے اس اجلاس کے بارے میں یہ طے تھا کہ اس کے اجلاس باقاعدگی سے ہوا کرینگے لیکن 2014 میں سارک سربراہی اجلاس میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہوا جس میں اس وقت کے و زیراعظم میاں نواز اور نریندر مودی نے شرکت کی جس کے بعد اگلا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں ہونا تھا لیکن بھارت رکن ممالک پر اس حوالے سے اثر انداز ہوا اور بعض رکن ممالک نے بھارت کی ایما پر اسلام آباد میں ہونیوالے اجلاس میں عدم شرکت کے جواز تراشنے شروع کردیا ہے اور بھارت اس اجلاس کو موخر کرانے میں کامیاب رہا۔
دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات میں ایک خوش آئند پیش رفت یہ ہوئی کہ پاکستا ن اور بھارت فروری 2021ء میں اس امر پر متفق ہو گئے کہ لائن آف کنٹرول پر امن اور استحکام لانے کے لیے نومبر2003ء کی مفاہمتی یادداشت کی روشنی میں پھر سے کام کا آغاز کیا جائے گا‘تاہم اس امر کی موہوم سی امید بھی نظر نہیں آتی کہ دونوں ممالک میں اگست 2019ء سے پہلے والے تجارتی اور عملی تعلقات بحال ہو جائیں گے۔
مودی حکومت اپنی کشمیر پالیسی پر بضد ہے اور اس ایشو پر کوئی نرمی دکھانے سے انکاری ہے۔وہ پاکستان کے اس مطالبے کو بھی در خورِ اعتنا نہیں سمجھتی کہ بھارت کی سکیورٹی اور انٹیلی جنس فورسز کشمیری عوام کے انسانی حقوق کی مسلسل خلا ف ورزیوں کا سلسلہ بند کریں۔کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا متنازع ایشو ہے۔ بھارت اسے جنوری 1948ء میں یہ کہتے ہوئے اقوام متحدہ کے فورم پر لے گیا کہ پاکستان کشمیر میں جارحیت کامرتکب ہو رہا ہے۔
یواین سلامتی کونسل اور یواین کمیشن برائے پاکستان و بھارت نے اگست 1948ء اور جنوری 1949ء میں دوقراردادیں منظور کیں جن کے تحت کشمیر میں جنگ بندی کردی گئی‘کشمیر میں سیز فائر لائن بنا دی گئی اور یہ قرار پایا کہ کشمیری عوام کو استصواب رائے کے ذریعے یہ فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں۔
مودی حکومت کے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کو مکارانہ اقدام کے تحت ختم کئے جانے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہر قسم کے رابطوں میں پیش رفت ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا گوکہ سابقہ حکومت کے اس فیصلے پر موجودہ حکومت بھی سختی سے عمل کر رہی ہے لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود نتائج اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے مقاصد میں بھی پیشرفت اگر رکی نہیں تو دھیمی ضرور پڑ گئی ہے لیکن ان پر ظلم وستم پہلے کی طرح جاری ہیں اور اگر حالات اسی طرح رہتے ہیں تو اس کا نقصان بہرحال مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں اور پاکستان دونوں کا ہوگا۔ اس لئے کشمیر کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے بعض تجزیہ نگار اور مبصرین آئین کے آرٹیکل 370 کی بحالی کیلئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس صورتحال کا کوئی حل نکالنے یا متبادل طریقہ کار وضع کرنے کے بارے میں یقین رکھتے ہیں۔
پانچ اگست 2019 کو نئی دہلی حکومت نے ایک صدارتی حکمنامہ بھارتی ایوان بالا میں پیش کیا جس میں ہندوستانی آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا چونکہ یہ پیشگی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اس لئے اس کی منظوری میں کوئی تاخیر نہیں کی گئی۔ اس شق کے تحت کشمیر کو بھارتی وفاق میں ایک مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر میں اس کا ردعمل تو انا ہی تھا اور بہت زیادہ آیا لیکن پاکستان کا بھی اس پر احتجاج عالمی سطح پر دیکھنے میں آیا ،جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی فضاء بدستور موجود ہے پاکستان نے بھارت کے مذکورہ اقدام کے بعد اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے نئی دہلی سے اپنے ہائی کمشنر کو اور بھارت نے اسلام آباد سے اپنے ہائی کمشنر کو واپس بلا لیا اور بعد میں مختلف الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے سفارتی عملے کی تعداد میں بھی نمایاں کمی کر دی گئی۔
گوکہ کچھ عرصہ پہلے محدود تعداد میں سفارتکاروں کی واپسی کا عمل شروع ہوا ہے لیکن ابھی تک سفارتکاری کی اعلیٰ سطح بحال نہیں ہے گوکہ اس دوران مختلف رسمی معاملات کے حوالے سے دونوں ملکوں میں بے ضرر رابطے بحال ہیں جس میں ’’مذہبی سیاحت‘‘ سرفہرست ہے اور پاکستان کی جانب سے حسن ابدال میں سکھوں کے مقدس مقامات اور کرتارپور راہداری کیلئے آسانیاں اس حوالے سے قابل ذکر ہیں جہاں زائرین کی آمدورفت ایک خوشگوار فضا میں ہوتی ہے لیکن خطے کے دونوں اہم ممالک کے درمیان بعض ایسے رابطے، تعلقات اور اس ہم آہنگی کا فقدان ہے جو خطے کے دوسرے ممالک کی بھی ضرورت ہیں اس حوالے سے سارک تنظیم کا حوالہ بھی اہم ہے گوکہ اس تنظیم کی وساطت سے ابھی تک کوی غیر معمولی اہمیت کی حامل یا قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوئی لیکن بہرحال سارک کے سربراہی اجلاس میں براہ راست رابطے بالخصوص پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ہوتے تھے۔
ایک اہم واقعہ ہوتا۔ سارک تنظیم کا آخری سربراہی اجلاس 2014 میں نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں ہوا تھا جس میں پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اور بھارت کی نریندر مودی نے کی تھی لیکن اس کے بعد پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود تنظیم کا کوئی اجلاس نہیں ہوسکا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان دکھائی دیتا ہے اب ایک طرف تو مودی حکومت جس نے خود آئین کی شق 370 کے خاتمے کا اعلان کیا ہے ان کے نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے کو خود ہی واپس لے لیں پھر وہاں ایک مضبوط، فعال اور بااثر اپوزیشن موجود ہے جس کی موجودگی میں اس نوعیت کا کوئی بھی فیصلہ مودی کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان کے وزیراعظم نے جس قطعیت کے ساتھ یہ فیصلہ سنایا ہے کہ جب تک بھارتی حکومت اپنا یہ فیصلہ واپس نہیں لیتی اس سے کسی قسم کا رابطہ، مذاکرات یا تعلقات رکھنا کشمیریوں کے خون سے غداری کے مترادف ہوگا تو یا دونوں طرف سے بطاہر فیصلوں میں کوئی لچک کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
لیکن یہاں یہ بات لمحہ فکر سے کم نہیں کہ اگر حالات ’’جوں کے توں‘‘ کی شکل دیر تک قائم رہتی ہے تو اس کا نقصان سراسر پاکستان کو ہی ہے کیونکہ بھارت اپنی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت اب مقبوضہ کشمیر میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہا ہے کہ وہ بالخصوص سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں لیکن یہ آغاز ہوگا جس کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاری کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا جائے گا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مطلوبہ ماحول فراہم کرنے کے نام پر ایسے ’’ حفاظتی اقدامات‘‘ کئے جائیں گے جن سے وہان مقامی باشندوں پر زمین تنگ کر دی جائے گی۔
پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کے عمل میں مصروف ہے تاہم بعض حوالوں سے صرف پاکستان نہیں بلکہ ہر ملک کی خارجہ مستقل ہوتی ہے اور اس ضمن میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا سب سے اہم حوالہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر ہے جس پر پاکستان کی ہر حکومت نے ایک ہی موقف اختیار کیا ہے گو کہ اس حوالے سے کئی بار اس مسئلے کے حل کیلئے مختلف تجاویز، سفارشات، بیک ڈور رابطوں اور مذاکرات کی کوششیں کی گئیں اور امکانات پر بات ہوئی لیکن پاکستان کبھی اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے گزشتہ کچھ عرصے اور بالخصوص موجودہ حکومت مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے غیر روایتی اور غیر معمولی انداز میں پیش رفت ہوئی۔
یہ بھی اعتراف کرنا ہوگا ایک طرف جہاں بھارت کو اس حوالے روایتی ہٹ دھرمی پر اہم پلیٹ فارمز پر ہمزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں دنیا کی مختلف پارلیمانز، انسانی حقوق کے اداروں، عالمی سول سوسائٹی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت اور پاکستان کے موقف میں اضافہ ہوا ہے تاہم اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اہم حکومتوں اور اس مقصد کیلئے قائم بعض اداروں کی جانب سے وہ حمایت اور بیانیہ سا منے نہیں آیا جن کی توقعات تھی بالخصوص ان اسلامی ممالک کی جانب سے جنہیں پاکستان برادر اسلامی ملک قرار دیتا ہے۔
اس ضمن میں قدرے افسوس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم(OIC) کی خاموشی اور مصلحت آمیز طرز عمل کا بھی تذکرہ ہوگا جب پاکستان کی جانب سے کشمیر کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس بلانے کی درخواست کی گئی تو اسے درخود اتنا نہ سمجھا گیا اور پھر جب پاکستان کے وزیر خارجہ نے یہ عندیہ دیا کہ اگر کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور وہاں کئے جانے والے اقدامات کے پیش نظر اسلامی تعاون کا اجلاس فوری طور پر نہیں بلایا گیا تو پاکستان اپنے طور پر اس حوالے سے پیش رفت کرے گا جس پر ناخوشگوار طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا جو ناراضی کا اظہار بھی تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ظلم اور استبداد ور خیر کا سلسلہ جاری رہا وہیں پاکستان میں موجودہ حکومت کے دوران ہی مودی حکومت نے وہاں ایسے اقدامات بھی کئے جس سے پاکستان کے موقف اور کشمیریوں کی بقا اور آزادی کو شدید نقصان پہنچا۔
5 فروری دنیا بھر میں موجود پاکستانی ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں اور ظلم و نا انصافی کا شکار کئی دہائیوں سے اپنے عزم اور منصف پر ڈٹے رہنے والے مقبوضہ کشمیر سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہیں لیکن اس مرتبہ صورتحال ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مختلف ہے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے اور خود پر ہونے والے مظالم ناانصافیوں اور بھارتی جبر و استبداد کا مقابلہ بے سروسامانی کے عالم میں تو کشمیری کئی دہائیوں سے کرتے آرہے تھے لیکن مودی حکومت نے اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ظلم و ستم کے ہتھکنڈوں سے انہیں جھکانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور ایک انتہائی مکارانہ اقدام یہ کیا کہ بھارتی آئین میں موجود آرٹیکل370 ختم کر دیا جس کے ختم ہونے سے بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی جو خصوصی اہمیت اور حیثیت تھی وہ ختم ہوگئی۔ اس آرٹیکل کے تحت اب غیر کشمیر ا فراد وہاں جائیدادیں بھی خرید سکیں گے اور سرکاری نوکریاں بھی حاصل کر سکیں گے اور بااثر اور معتمول ہندو تو کشمیری خواتین سے شادی کرنے کے عزائم کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
آرٹیکل 370 ختم کیے جانے سے، کشمیریوں کو ان کے تمام اسحقاق اور مراعات سے محروم کردیا گیا
جموں وکشمیر کی اسمبلی کی مدت کار6 سال ہوتی ہے جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلی کی مدت کار پانچ سال ہوتی ہے۔ ہندوستان کی پارلیمنٹ جموں وکشمیر کے سلسلے میں بہت ہی محدود دائرے میں قانون بناسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ میں آرٹیکل 370 ایک فیلٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ جسے ختم کرنے سے اب تمام صورتحال تبدیل ہو گئی اور مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیری ان تمام مراعات اور استحقاق سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔
5 اگست 2019 سے نافذ کئے اقدامات کے اثرات بھی جاری ہیں، پوری وادی محاصرے میں ہے، مواصلاتی نظام منجمد کر دیا گیا ہے،5 اگست کو کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پوری ریاست پر سخت مواصلاتی پابندیاں نافذ کر دی تھیں جن کی زد میں سوشل میڈیا بھی بری طرح آیا لیکن خبر کے ذریعے خاموش کی جانیوالی آوازیں آج بھی چیخوں کی طرح شور مچارہی ہیں احتجاج کررہی ہیں۔