مصنّف: ڈاکٹر فاروق عادل
صفحات: 434، قیمت: 1600 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔
فون نمبر:0515101 - 0300
ڈاکٹر فاروق عادل ممتاز محقّق، ادیب، صحافی اور کالم نگار ہیں۔اُن کی کئی کتب منظرِ عام پر آچُکی ہیں۔ زیرِ نظر کتاب اُن تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے، جو اُنھوں نے بی بی سی کے لیے لکھے تھے۔اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ ’’مَیں جب اِس میدان میں اُترا، تو سچ جانیے کہ حیرت کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے، مَیں حیرت زدہ ہوا ضرور، لیکن جیسے جیسے حیرت بڑھتی گئی، قلم محتاط ہوتا گیا۔ ادارہ چاہتا تھا کہ کوئی بات بے حوالہ نہ لکھی جائے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر یہ اصول متاثر ہوگیا، تو گویا میرا عقیدہ میرے ہاتھ سے نکل گیا۔
یوں یہ مضامین محض پیشہ وارانہ سرگرمی نہ رہے، وارداتِ قلبی میں بدل گئے۔‘‘مجیب الرحمٰن شامی کی صاحبِ کتاب سے متعلق رائے ہے کہ’’ ڈاکٹر فاروق عادل میں صحافت، ادب اور سیاست کو یک جا دیکھا جا سکتا ہے۔ اُن کے مشاہدے، مطالعے اور تجزیے نے اُن کی تحریر میں جو گہرائی اور وسعت پیدا کی ہے، وہ بہت کم کالم نگاروں کو نصیب ہوتی ہے۔وہ اپنے قاری کو تاریخی اور زمینی حقائق سے روشناس کراتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ لفظوں کو موتی کیسے بنایا جاسکتا ہے۔‘‘
جب کہ پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین کا کہنا ہے کہ’’ ڈاکٹر فاروق کے یہ مضامین ہمیں غور و فکر کے نئے زاویے فراہم کرتے ہیں اور غور و فکر کا یہی عمل اپنی منزل کی جانب قوموں کے سفر میں جوش و خروش اور توانائی پیدا کرتا ہے۔‘‘ فاروق عادل نے 34 عنوانات کے تحت لکھے گئے اِن مضامین میں پاکستان کی تاریخ سے جڑے اُن انتہائی حسّاس، مگر اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے مُلکی سیاسی تاریخ کا رُخ بدل دیا ۔اِن معاملات سے متعلق طرح طرح کی کہانیاں اور افسانے گردش میں رہتے ہیں اور فاروق عادل نے اُن قصّے کہانیوں کے درمیان سے حقائق تلاش کیے ہیں۔
اب اگر کوئی اُن کی بیان کردہ تفصیلات اور اخذ کردہ نتائج سے متفق نہیں ہوتا، تو اُسے اُنہی جیسے مضبوط و مستند دلائل لانے ہوں گے۔ کتاب کا آغاز 22 اکتوبر 1947ء کو کشمیر پر قبائلی جنگ جوؤں کے حملے سے ہوتا ہے۔اِس معاملے میں فوج اور بانیٔ پاکستان کے تعلقات کے ضمن میں بہت کچھ کہا جاتا ہے، جن پر مصنّف نے بہت کُھل کر لکھا ہے۔
اگلے مضامین میں روس کی بجائے امریکا سے تعلقات کی کہانی، سندھی مہاجر کش مکش، لیاقت علی خان اور وزیرِ اعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کے درمیان تناؤ، امریکی غذائی امداد سے قبل پاکستان میں حکومت کی تبدیلی، مولوی تمیز الدین کیس، وَن یونٹ، گوادر پر حاجی عبدالغنی کی رپورٹ کی اہمیت، شیخ مجیب کے چھے نکات کس ذہن کی پیداوار تھے، بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کا اعتماد کا ووٹ، تاشقند کی بلّی، پہلا یوم دفاع، عشرۂ ترقّی سے چینی چوری تک، حیدرآباد کے اسیر، ضیاء الحق کا ٹیک اوور اور ایم آر ڈی سمیت بہت سے امور کی کہی، اَن کہی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
یوں یہ کتاب مضامین یا کالمز کے مجموعے سے بڑھ کر ایک تاریخی دستایز میں تبدیل ہوگئی ہے۔باقی یہ سوال کہ ہم نے تاریخِ پاکستان کے اِن اہم اوراق کو کیوں بُھلا دیا ہے؟تو شاید اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اِس طرح کے زیادہ تر واقعات کے پیچھے وہی قوّتیں کارفرما رہی ہیں، جو قوم کے مضبوط حافظے کو خود کے لیے خطرناک سمجھتی ہیں، اِسی لیے قوم کو سب کچھ بُھلانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہم نے اِن اوراق کو اِس لیے بھی بُھلادیا تاکہ کوئی سبق نہ سیکھنا پڑے۔