رؤف ظفر، لاہور
عکّاسی: عرفان نجمی
پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے ایک نواحی گاؤں سے تعلق رکھنے والی رفعت اعجاز کی، جو سسٹر زیف کے نام سے معروف ہیں، زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ اُنھوں نے فروغِ تعلیم کے ضمن میں شان دار خدمات انجام دی ہیں، جن پر اُنھیں عالمی سطح پر کئی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 8نومبر 2023ء کو فرانس کے یونیسکو ہیڈ کوارٹر میں منعقدہ ایک شان دار تقریب میں اُنھیں ’’بیسٹ گلوبل ٹیچر ایوارڈ‘‘ دیا گیا اور اُن کا یہ انتخاب دنیا کے 130ممالک کے 7 ہزار اساتذہ میں سے ہوا۔ ہماری گزشتہ دنوں سسٹر زیف کے ساتھ ایک نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’ سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: درس و تدریس کی طرف جانے کا خیال کیسے آیا؟
ج: یہ1997ء کا ذکر ہے۔ مَیں گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں، لاروپ کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی ساتویں کلاس میں زیرِ تعلیم تھی۔ایک روز ٹیچر کو آنے میں تاخیر ہوگئی، تو مَیں نے اُن کی کرسی پر بیٹھ کر پڑھانا شروع کر دیا۔ اِسی اثنا میں ٹیچر آگئیں۔ اُنہوں نے یہ عجب منظر دیکھا کہ اسی کلاس کی ایک بچّی، دوسروں کو پڑھا رہی ہے، تو آئو دیکھا نہ تائو، غصّے میں سب لڑکیوں کے سامنے مجھے مارنا، پیٹنا شروع کر دیا۔مَیں چیختی چلاتی رہی، لیکن ٹیچر کا غصّہ کم نہ ہوا۔
اس دوران کلاس کی لڑکیوں نے بھی آوازیں کَسنا شروع کردیں۔ جب ٹیچر مار مار کر تھک گئیں، تو کلاس سے چلی گئیں۔ لڑکیاں ہنستے ہوئے مجھ پر طنز کر رہی تھیں’’ اور بنو ٹیچر، مار کھا کے خُوب مزہ آیا ہوگا۔‘‘میری حالت غیر ہو چُکی تھی۔ کلاس فیلوز کے سامنے پٹائی نے میری پوری شخصیت کو چکنا چور کر کے رکھ دیا۔ مَیں شرمندہ ہو کر بوجھل قدموں سے گھر پہنچی۔ پھر زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کر لیا۔ اور وہ یہ کہ اب کسی اسکول میں نہیں جاؤں گی، بلکہ گھر میں نہ صرف خود پڑھوں گی، بلکہ دوسرے بچّوں کو بھی ایسے ماحول میں پڑھاؤں گی، جہاں اُن کی عزّتِ نفس مجروح نہ ہو۔
س: اور اپنے فیصلے پر عمل درآمد کا آغاز کیسے کیا؟
ج: مَیں نے اپنے گھر کے صحن ہی کو اسکول بنا لیا اور مکان کی خستہ حال دیوار پر اسکول کا بورڈ لگا دیا۔ ابتدا میں اپنی والدہ کے ساتھ گھر گھر جا کر والدین کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے بچّوں کو اس اسکول میں داخل کروائیں، جہاں اُن سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی اور کتابیں، کاپیاں وغیرہ بھی مفت ملیں گی، لیکن میری کم عُمری کی وجہ سے وہ بچّوں کو داخل کروانے پر تیار نہ ہوتے۔ مگر مَیں نے حوصلہ نہ ہارا اور جدوجہد جاری رکھی۔ میرے اسکول میں سب سے پہلے داخلہ لینے والی میری چھوٹی بہن تھی۔ پھر ایک اور بچّے کا داخلہ ہوا۔
یوں آہستہ آہستہ تعداد بڑھنے لگی اور چند مہینوں میں تعداد 50ہو گئی۔ اب سوال یہ تھا کہ کاپیوں، کتابوں کے اخراجات کیسے پورے کیے جائیں۔ والد درزی تھے،مگر مالی امداد کرنے سے قاصر تھے، تو مَیں نے شرٹس پر کڑھائی کا کام شروع کر دیا اور 10روپے فی شرٹ معاوضہ ملنے لگا۔ اس کے ساتھ پرائیویٹ طور پر میٹرک کے امتحان کی تیاری بھی شروع کر دی اور 2000ء میں یہ امتحان پاس بھی کرلیا۔ اگلے برسوں میں پنجاب یونی ورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور ہسٹری میں ماسٹرز کی اسناد حاصل کیں۔
بہرحال، میٹرک کے بعد پی ٹی سی ایل کی ایک مقامی فرینچائز میں بطور ریسپشنسٹ ملازمت کرلی۔ یہ جاب 2017ء تک جاری رہی۔میری تن خواہ کا بیش تر حصّہ طلبہ ہی پر خرچ ہوجاتا۔گھر کے صحن میں قائم یہ اسکول 14 سال تک چلتا رہا۔ اس دوران بے شمار مشکلات پیش آئیں۔ ایک بار چند مسلّح افراد ہمارے اسکول میں گھس آئے اور دھمکی دی کہ’’ تم بچیوں کو پڑھانا بند کر دو، ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔‘‘ انہوں نے اِتنا تنگ کیا کہ ہمیں اپنا گاؤں چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا، لیکن پھر مَیں چند ماہ بعد والدین کے ساتھ اس عزم کے ساتھ لوٹ آئی کہ اب جو کچھ بھی ہو، اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔
بہرحال، بچّوں کو دوبارہ پڑھانا شروع کر دیا۔مَیں بچّوں کو روایتی تیکنیک سے ہٹ کر پڑھاتی تھی کہ مجھے شروع ہی سے رٹّا سسٹم سے نفرت تھی۔ میرے اپنے اندر تجسّس اور کچھ جاننے کا جذبہ بَھرا ہوا تھا، لیکن جب ٹیچر سے کوئی سوال پوچھتی، تو وہ جواب دینے کی بجائے ڈانٹ دیتیں اور کہتیں’’تم بہت بولتی ہو‘‘۔ مَیں نے اپنے اسکول میں بچّوں کو کہا کہ اُن کے ذہن میں جو بھی سوال آئے، بلا جھجک پوچھیں۔ بچّوں کے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کے لیے مَیں خود کتابیں اور رسائل پڑھتی۔
اِس طرح مطالعے سے میرے علم میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ 8 گھنٹے جاب کرتی، شام کو 4 گھنٹے بچّوں کو پڑھاتی اور رات کو خود پڑھتی۔ مَیں نے اپنے اسکول میں چَھڑی کا داخلہ ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔ مَیں نے بچّوں کو اِتنی عزّت و تکریم دی کہ وہ خود اعتمادی کے احساس سے مالا مال ہو گئے۔اسی دوران بچّوں کی بڑھتی تعداد کے پیشِ نظر ہمیں ایک الگ عمارت کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔
س: تو، نئی عمارت کا حصول کیسے ممکن ہوا؟
ج: 2013ء میں ایک عالمی تنظیم کے تحت تحریری مقابلہ ہوا، جو مَیں نے جیت لیا اور مجھے’’ Grass Root Leader ‘‘ کے خطاب کے ساتھ 20ہزار ڈالرز کی خطیر رقم سے بھی نوازا گیا۔ یہ میری زندگی کا ایک انقلابی موڑ ثابت ہوا کہ اِس رقم سے اسکول کے لیے دو منزلہ بلڈنگ خرید لی اور یوں باضابطہ طور پر ایک اسکول وجود میں آگیا۔اس اسکول میں لڑکیوں کے لیے 12ویں کلاس تک اور لڑکوں کے لیے پانچوں جماعت تک تعلیم کی سہولت ہے، جب کہ اب طلباء و طالبات کی تعداد 200سے بڑھ چُکی ہے۔ نیز، اسکول کی دو برانچز بھی کام کر رہی ہیں، جہاں بچوں کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہے۔
ان دو اسکولز میں گوجرانوالہ کے 10سے زاید دیہات کے لڑکے اور لڑکیاں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔نئی عمارت کے نچلے حصّے میں اسکول اور بالائی منزل پر ایک ووکیشنل سینٹر قائم ہے۔ ووکیشنل سینٹر میں خواتین کو کشیدہ کاری، سلائی کڑھائی، انگریزی زبان، آئی ٹی، میک اپ اور دیگر شعبوں میں تربیت دی جاتی ہے۔ ان میں اکثر خواتین ایسی ہیں، جن کے بچّے بھی یہیں زیرِ تعلیم ہیں۔ اِس سینٹر سے اب تک 10ہزار خواتین مختلف ہنر سیکھ کر گھر کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہو گئی ہیں۔
ووکیشنل سینٹر میں تیار شد ہ کپڑے بھی فروخت کیے جاتے ہیں، جس کے منافعے سے اسکول کے اخراجات پورے کرنے میں مدد ملتی ہے۔میری جدوجہد کی کہانی جب آن لائن شیئر ہوئی، تو عالمی تنظیمیں اس کی طرف متوجّہ ہوئیں اور میرا کام دیکھ کر میری خدمات کا اعتراف بھی کیا۔ مختلف عالمی این جی اوز نے میرے اسکولز کا مشاہدہ کیا اور بچّوں کو دی جانے والی منفرد تعلیم و تربیت پر مُہرِ تصدیق ثبت کی۔ 2015ء میں چینل نیوز ایشیا نے مجھ پر ایک ڈاکیومینٹری بنائی، جسے نیویارک فلم فیسٹیول میں ایوارڈ دیا گیا۔میری زندگی پر اب تک تین کتابیں لکھی جا چُکی ہیں، دو کی مَیں معاون مصنّفہ بھی ہوں، جب کہ دو کتب کو امریکا میں ایمیزون پر بیسٹ سیلرز کا اعزاز حاصل ہے۔
س: یہ رفعت اعجاز سے’’ سسٹر زیف‘‘ تک کے سفر کا کیا قصّہ ہے؟
ج: بائبل کے مطابق زیف ایک پیغمبر کا نام ہے، جس کا مطلب ہے،ایسا شخص جس کا محافظ خدا ہو اور سسٹر کا لاحقہ اِس لیے لگایا کہ اس لفظ میں ایک اپنائیت پائی جاتی ہے، جس سے باہمی میل ملاپ میں آسانی رہتی ہے۔
س: موجودہ نظامِ تعلیم پر آپ کی کیا رائے ہے؟
ج: مَیں موجودہ نظامِ تعلیم، خاص طور پر پرائمری ایجوکیشن سے قطعی مطمئن نہیں۔ ہم بچّوں کو لیڈر نہیں، بلکہ فالورز بنا رہے ہیں۔چھوٹے شہروں اور دیہات کے اکثر اساتذہ بچّوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب کی حیثیت رکھتے ہیں، جنہیں دیکھ کر بچّے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ بے شمار بچّے مار پیٹ کے خوف سے اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔
بچّوں کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں، لہٰذا ان کے ذہن بند کمرے کی طرح ہوتے ہیں، جہاں تازہ ہوا کے جھونکے ہی نہیں آتے۔ یہ بچّے صرف رٹّا سسٹم کی بنیاد پر امتحان پاس کرتے جاتے ہیں۔ دنیا بَھر میں پرائمری تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بچّے نے اپنی زندگی میں جو کچھ بننا ہوتا ہے، اس عمارت کی بنیادیں، پرائمری تعلیم کے دَوران ہی استوار ہو جاتی ہیں، جب کہ ہمارے ہاں پرائمری تعلیم آخری ترجیحات میں ہے۔
س: مستقبل کے کیا منصوبے ہیں؟
ج: مَیں10 ایکڑ پر محیط ایک’’ ڈریم اسکول‘‘ بنانا چاہتی ہوں۔مجھے’’ ورلڈ بیسٹ گلوبل ٹیچر ایوارڈ‘‘ کے ساتھ 10 لاکھ ڈالرز کا انعام بھی ملا ہے، لیکن یہ رقم یک مُشت نہیں، بلکہ دس سے پندرہ سال کے عرصے میں ملے گی۔اگر حکومت10 ایکڑ زمین دے دے، تو پھر اس رقم سے نئی عمارت تعمیر کروائی جاسکتی ہے۔
س: انعام ملنے پر کیا تاثرات تھے؟
ج: انعام کی خبر جب مجھ تک پہنچی، تو مَیں نے سب سے پہلے اس کا اعلان اسکول کے بچّوں کے سامنے کیا، جس پر بچّوں نے زور دار تالیاں بجائیں، میرے نام کے نعرے بلند کیے اور سچ پوچھیں، تو بچّوں کی یہی خوشیاں اور مسکراہٹیں ہیں، جن کی طاقت مجھے یہاں تک لائی۔
س: زندگی کا کوئی ناقابلِ فراموش واقعہ؟
ج: میری زندگی کا ناقابلِ فراموش واقعہ وہی ہے، جب کلاس میں سب کے سامنے مجھے مارا گیا اور میری عزّتِ نفس مجروح کی گئی۔ وہ واقعہ میرے ذہن پر نقش ہو گیا اور مَیں نے زندگی میں جب کبھی ہمّت ہاری، اُسی نے مجھے پھر سے زندہ کیا۔ یہ واقعہ مجھے یاد دِلاتا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی بچّہ کسی سے کم تر نہیں۔ اُسے صرف موقع دینے کی ضرورت ہے۔ مجھے کوئی موقع نہیں دیا گیا، لیکن مَیں نے اپنے لیے خود مواقع پیدا کیے۔
س: زندگی میں سب سے زیادہ کس کی احسان مند ہیں؟
ج: مَیں اپنے پروردگار کی سب سے زیادہ شُکر گزار ہوں۔مَیں نے بے سروسامانی میں اپنے کام کا آغاز کیا، لیکن پھر سارے رستے آہستہ آہستہ کُھلتے چلے گئے۔ آج میری فاؤنڈیشن کے تحت 30لڑکیاں جاب کر رہی ہیں۔ اس کے بعد اپنی فیملی کی شُکر گزار ہوں۔ ہمارے مالی حالات اچھے نہ تھے، لیکن والدین نے کبھی نہ پوچھا کہ’’ تمہاری سیلری کہاں جاتی ہے‘‘ اور کبھی یہ شکوہ نہیں کیا کہ’’ تم سارے پیسے بچّوں پر خرچ کر دیتی ہو، کچھ گھر بھی دیا کرو۔‘‘
س: کیا شادی ہوگئی؟
ج: نہیں، مَیں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اِسی لیے مَیں نے چھوٹی عُمر ہی میں خود کو ’’سسٹر زیف‘‘ کا نام دے دیا تاکہ جس سے بھی ملوں، اُسے پتا ہو کہ مَیں سب کی بہن ہوں اور میرے لیے کوئی رشتہ نہ آئے۔ بے شک، شادی ایک اہم فریضہ ہے، لیکن میرے پاس شادی کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو بھوک، جہالت اور غربت جیسے مسائل سے نکالنا اور اُن کے لیے جینا شادی کرنے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
س: آپ کتنے بہن، بھائی ہیں؟
ج: ہم چار بہنیں ہیں اور میرا دوسرا نمبر ہے۔ دو کی شادی ہو چُکی ہے۔
س: اب تک کتنے ممالک کا سفر کر چُکی ہیں؟
ج: ٹھیک طرح سے تو یاد نہیں، لیکن 20،22ممالک کا دورہ تو کر ہی چُکی ہوں۔
س: دنیا میں کس مُلک کا نظامِ تعلیم اچھا لگا؟
ج: مجھے جاپان کا نظامِ تعلیم سب سے اچھا لگا کہ وہ بچّوں کو عملی زندگی جینا سِکھاتے ہیں۔ وہ بچّوں پر نمبرز کا دباؤ نہیں ڈالتے، اُنھیں بہترین انسان بننا سِکھاتے ہیں۔
س: آپ کی کوئی آئیڈیل شخصیت؟
ج: مدرٹریسا میری آئیڈیل ہیں اور مَیں اُن جیسی زندگی ہی جینا چاہتی ہوں۔میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جب ہم دوسروں کے لیے خوشیاں تلاش کرتے ہیں، تو ہم سے اپنی خوشیاں سنبھالی نہیں جاتیں، لیکن جب ہم صرف اپنے لیے خوشی کے متلاشی ہوتے ہیں، تو پھر ہمارے غم ہی ختم ہونے میں نہیں آتے۔
س: اب تک کتنے بچّوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر چُکی ہیں؟
ج: کبھی گنتی تو نہیں کی، لیکن اندازہ یہی ہے کہ 4ہزار سے زاید بچّوں کو تعلیم دے چُکی ہوں، جب کہ10ہزار سے زاید خواتین ووکیشنل سینٹر سے تربیت مکمل کر کے اپنے پیروں پر کھڑی ہو چُکی ہیں۔
س: کوئی دُعا، جو ہر وقت لبوں پر رہتی ہو؟
ج: مَیں دُعا بھی کرتی ہوں اور کوشش بھی کہ کوئی شخص میرے پاس کوئی اُمید لے کر آئے، تو اُسے مایوس نہ لوٹاؤں۔ اور جب تک زندہ ہوں، مجھ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔