• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے سرکاری اداروں کی نجکاری ناگزیر ہوچکی ہےکیونکہ یہ قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔ ان ادروں میں کئی سو ارب ڈالر کے نقصان کی وجہ سے بجٹ کا خسارہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس اعتبار سے نجکاری درست لائحہ عمل ہے لیکن اس میں شفافیت اور مستقبل کے لئے ایسے قوانین بنانا ضروری ہیں کہ نجکاری کے بعد ان اداروں کا غلط استعمال نہ ہو۔نجکاری کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو رعایتی قوانین کے ذریعے چھوٹ کا نظام بھی ختم ہونا چاہئے۔
اس وقت پاکستان میں پی آئی اے، اسٹیل مل، ریلوے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) سمیت درجنوں ایسے ادار ے ہیں جو مسلسل گھاٹے میں چل رہے ہیں۔ پی آئی اے دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں شمار ہوتی تھی اور اب اس کا موازنہ افریقہ کی بدترین ائیر لائنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔پاکستان اسٹیل مل اور ریلوے بھی مناسب کارکردگی کے حامل ہوا کرتے تھے لیکن سیاسی دخل اندازیوں سے نہ صرف ان کا معیار کارکردگی زمین بوس ہو چکا ہے بلکہ عام اندازہ ہے کہ ان کا سالانہ گھاٹا کئی سو بلین روپے ہے،یہ سارا کچھ ریاست کے زوال کا نتیجہ ہے۔ جس طرح ریاست باقی ماندہ نظام کو چلانے میں نااہلیت کاشکار ہے اسی طرح وہ ان معاشی اداروں کو بھی چلا نہیں سکتی۔
نجکاری کے مخالفین کا موقف ہے کہ ان اداروں کی نجکاری سے بہت سے ملازمین بیروزگار ہو جائیں گے اور ملک میں معاشی بدحالی بڑھ جائے گی۔ ان ناقدین میں پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی شامل ہیں جو اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ان اکائیوں کو منافع بخش نہیں بنا سکیں۔ اب یہ پارٹیاں محض سیاسی نعرے بازی سے بنیادی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ریاست گھاٹے میں چلنے والے اداروں کو منافع بخش بنانے کی اہلیت سے عاری ہے۔
نجکاری کے نتیجے میں مزدور اور نچلے طبقے کی معاشی بدحالی کی دلیل بھی درست نہیں ہے کیونکہ یہ درست ہے کہ کچھ لوگوں کو روزگار سے وقتی طور پر ہاتھ دھونا پڑیں گے لیکن اگر نجکاری نہیں ہوتی اور ان اداروں کا گھاٹا بدستور قائم رہتا ہے تو یہ خسارہ بھی عوام اور غریب لوگوں نے ہی ٹیکسوں کے ذریعے ادا کرنا ہے۔ مزید برآں ہوتا یہ ہے کہ جب ریاستی اداروں کو اتنا بڑا گھاٹا پڑتا ہے تو اسٹیٹ بینک اس گھاٹے کو پورا کرنے کے لئے نوٹ چھاپتا ہے جس سے افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور یہ طے ہے کہ افراط زر کا سب سے بدترین اثر نچلے طبقات پر پڑتا ہے۔ دوسری طرف اگر نجکاری سے ریاست کو اتنے بڑے گھاٹے سے نجات مل جائے تو اسے مزید بالواسطہ ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے اور اسٹیٹ بینک کو نوٹ نہیں چھاپناپڑیں گے۔یہ تو طے ہے کہ ریاست کو بچانے کے لئے موجودہ حالات میں بہت بڑے گھاٹے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے لیکن ماضی کی طرح یہ نجکاری لوٹ سیل نہیں ہونا چاہئے۔ نجکاری کا پورا عمل شفاف ہونا چاہئے جس کے لئے مندرجہ ذیل پہلوئوں کو زیر نظر رکھنا پڑے گا۔
اول: یہ طے ہوناچاہئے کہ کن اداروں کی نجکاری ناگزیر ہے۔ اس وقت جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت بہت سے منافع بخش اداروں کو بھی نجی سیکٹر کو بیچنے جا رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا معقول جواز فراہم کیا جانا چاہئے۔ نجکاری کو ایک نظریاتی نہیں بلکہ عملی طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حکومت کی نجکاری کا پورا عمل مشکوک ہو جائے گا اور حکومت کے بہی خواہ بھی اس کا دفاع نہیں کر سکیں گے۔دوم: جن اداروں کی نجکاری مقصود ہے ان کے اثاثوں کا غیرجانبدارانہ آڈٹ کیا جانا چاہئے۔ اس کے لئے دنیا کی معروف فرموں کی خدمات حاصل کی جانی چاہئیں۔ نجکاری کے معترضین کا کہنا ہے کہ ماضی میں کچھ اداروں کو ان کے فرنیچر سے بھی کم قیمت پر فروخت کیا گیا۔ اب جن اداروں کی نجکاری ہو رہی ہے ان کے کاروباری اثاثوں کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور دوسرے اثاثے بھی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ اسٹیل مل کے ساتھ بہت سی مہنگی ریئل اسٹیٹ بھی ہے۔ اسی طرح پی آئی اے کے پاس بھی جہازوں کے علاوہ کئی اثاثے ہوں گے۔ بین الاقوامی شہرت کی کسی فرم کو ان تمام اثاثوں کا آڈٹ کرنا چاہئے اور ان کی اصل مالیت واضح اور شفاف انداز میں سامنے آنا چاہئے۔ سوم: نجکاری کے عمل میں صرف کاروبار بیچے جانا چاہئیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ریاستی اداروں کے پاس انتہائی قیمتی ریئل اسٹیٹ اور دوسرے غیر متعلقہ اثاثے ہیں تو ان کی نجکاری نہیں ہونا چاہئے یا ان کی فروخت کاروبار سے علیحدہ ہونا چاہئے۔ پی آئی اے یا اسٹیل مل کے گھاٹے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے باقیماندہ اربوں ڈالر کے اثاثے بھی بے وقعت ہیں۔ مطلب پی آئی اے کے جہازوں اور سفری کاروبار کو اس کے باقیماندہ اثاثوں سے علیحدہ کرکے دیکھا جانا چاہئے۔ چہارم: جن اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے ان میں بہت سے ایسے ادارے ہیں جن کی منڈی میں اجارہ داری ہو گی۔ ان میں پٹرول گیس اور بجلی کی پیداکار اور تقسیم کنندہ کمپنیاں شامل ہیں۔ ان میں ہر اکائی کی اپنی مخصوص منڈی میں اجارہ داری ہوگی۔ مثلاً اگر لاہور سپلائی کمپنی کو نجی سیکٹر میں دے دیا جائے تو اس کی اپنے علاقے میں اجارہ داری ہو گی کیونکہ کوئی اور کمپنی اس علاقے میں بجلی فراہم کر ہی نہیں سکتی۔ اس لئے یہ اجارہ دار کمپنیاں اپنی من مانی قیمت مقرر کر سکتی ہیں۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط قسم کا ریگولیٹری نظام ہونا چاہئے جو ان کمپنیوں کی لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے منافع کی شرح کا تعین کرے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان سیکٹروں میں اجارہ داری ہے لیکن مضبوط ریگولیٹری ادارے ان کے منافع کا تعین کرتے ہوئے قیمت مقرر کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔پنجم: جن اداروں کی نجکاری کی جارہی ہے اس کے حصص میں اس کے کارکنوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ نہ صرف منصفانہ حل ہے بلکہ یہ عمل ان اداروں کی استعدادی قوت کو بھی بڑھانے کے لئے مددگار ہوگا۔ جب کارکنوں کو یہ احساس ہو کہ وہ بھی مستقبل کے منافعوں میں برابر کے شریک ہوں گے تو وہ زیادہ تندہی سے اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔
نجکاری کابنیادی مقصد ریاست کے خسارے کے مستقل خسارے کو کم کرنا ہے اور اس کے لئے اب زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا۔ حالات پہلے ہی بہت زیادہ دگرگوں ہوچکے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ایس آر اوز (اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈیننس) کے تحت نجی سیکٹر کو بیجا رعایتیں فراہم کرنے کا سلسلہ بالکل بند کرنا چاہئے۔ ان ایس آر اوز کے اجراء کی وجہ سے کئی سو بلین کا گھاٹا پڑتا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں ہے۔ نجی سیکٹر کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہئے وگرنہ نجکاری بے معنی ہے۔
تازہ ترین