• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جس صبح یہ مضمون اخبار میں شائع ہوگا، پاکستان کے عوام اُن انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد نتائج کی آمدکا سلسلہ دیکھ رہے ہوں گے جن کا معرکہ اسٹیبلشمنٹ کے حمایت یافتہ اور عمران خان کے درمیان لڑا گیا ۔ عمران خان لوگوں کے دلوں میں اس طرح بستے ہیں جس کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ کیا جبر کی گرفت مزید کڑی ہوگی یا لوگ اقتدار اُس کے سپرد کرنے میں کامیاب ہو جائیںگے جس پر انھیں اعتماد ہے ؟

درحقیقت تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کا انتخابات میں حصہ لینا کسی کرشمے سے کم نہیں ۔ اس عالم میں تحریک انصاف کا بچائو کرنا بھی کسی اچنبھے سے کم نہیں ، اور پھراس کا انتخابات میں حصہ لینا تو افسانوی داستان لگتا ہے۔ اور اگر انتخابات میں پارٹی اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوگئی تو یہ پیش رفت انتخابی انجینئرنگ کے ذریعے من پسند افراد اور پارٹیوں کو اقتدار پر بٹھانے کی گندی روایت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔

الیکشن کا انعقاد قومی اور بین الاقوامی سطح پر سخت جانچ پڑتال کا موضوع ہو گا کیونکہ ایک سیاسی جماعت کو ریاست اور اسکے اداروں نے منظم طریقے سے نشانہ بنایا تاکہ اسے انتخابی میدان سے باہر کردیا جائے۔ مختلف عالمی اداروں اور میڈیا ہاؤسز نے اس کا نوٹس لیا ہے اور اس معاملے میں اپنی واضح رائے دی ہے۔جہاں عمران خان کو جعلی اور من گھڑت مقدمات میں سزا سنانے میں عدالتوں کے طرز عمل کو معروف قانونی ماہرین کی طرف سے کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، یہ انتخابات سے پہلے کے مرحلے میں ریاستی مداخلت بھی ہے جس پر کچھ سخت تبصرے بھی سامنے آئے ہیں۔ الجزیرہ نے انتخابات کی جائزیت پر سوال اٹھایا ہے کیونکہ خان بیلٹ شیٹ سے غائب ہیں اور بلومبرگ نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان کے نوجوان انتخابی نظام سے مایوس ہیں۔ کونسل آن فارن ریلیشنز نے کہا ہے کہ ’’پاکستان کے اس ہفتے ہونے والے انتخابات پہلے ہی ایک مذاق بن چکے ہیں، یہ نہ منصفانہ ہیں ، نہ آزادانہ ہیں ۔ ‘‘ فنانشل ٹائمز کا کہنا ہے کہ ’’اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے تو عمران خان واضح اکثریت سے جیت جاتے۔ ‘‘ بی بی سی نے متنبہ کیا کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ خان کو موثر طریقے سے بے اثر کر دیا گیا ہے لیکن، اس کے بجائے، ملک بھر میں سیاسی تقسیم مزید گہری ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘ دی گارڈین نے نوٹ کیا ہے کہ ’’فوج نے چوتھی بار سابق وزیر اعظم پر اعتماد کیا ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ انتخابی نتائج کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔‘‘ گیلپ کا خیال ہے کہ ’’دس میں سے سات پاکستانیوں کو ان انتخابات کی شفافیت پر اعتماد نہیں ۔‘‘ روسی(Rusi) نے رائے دی ہے کہ ’’انتخابی عمل پر پہلے ہی سمجھوتا کیا جاچکا ہے ۔‘‘ ایک بیان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ آٹھ فروری کو ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائے:’’ہم سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے خلاف تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ جامع اور بامعنی جمہوری عمل کے لیے بنیادی آزادیوں کو برقرار رکھیں۔ ‘‘

مختلف حلقوں سے انتخابات پر ہونے والی تنقید کو دیکھتے ہوئے اس سے بچنا، یا سب ٹھیک ہونے کی تصویر پیش کرنا کم و بیش ناممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ سب کچھ نہ تو درست تھا اور نہ ہی درست کرنے کا ارادہ تھا۔ قومی منظر نامے میں ایک پارٹی اور اس کے لیڈر کے لیے روا رکھی گئی نفرت نے تمام انتخابی عمل کو زہرآلود کردیا ۔ ملک کے مستقبل کے لیڈروں کو منتخب کرنے کے لیے ایک آزاد، منصفانہ اور جامع عمل کی بجائے شعلوں پر مزید تیل گرایا جا رہاہے ۔ واضح طور پر ناقص انتخابی عمل نئی حکومت کے لیے قانونی جواز کے فقدان کے علاوہ دیگر سنگین مسائل بھی ہیں جن کا ملک کو فوری طور پر سامنا کرنا پڑے گا۔ گزشتہ چند سال میںپی ڈی ایم اور نگراں حکومتوں کے ذریعے معاشی اور تزویراتی تصورات تباہی سے دوچار ہیں۔ انھیں اب بمشکل زندہ رکھا جارہا ہے۔ حالات بہتر بنانےکیلئے درکار سخت فیصلے بھول جائیں، یہ اس حالت میں تو اپنی سانسیں بھی جاری نہیں رکھ سکے گا۔ انتخابات کے بعد کے منظر نامے میں ایک مختلف قسم کے چیلنج کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایک پارٹی اور اس کے لیڈر پر ریاستی سرپرستی کی بے پایاں عنایت کی وجہ سے ملک کی عدالتوں نے چند ہی دنوں میں اس کے ان گنت جرائم کو دھوڈالا ہے۔ اس سے اقتدار کے مالکوں کا انتخاب اب کوئی راز نہیں رہا۔ لیکن یہ بھی اب کوئی راز نہیں کہ منتخب شخص عوام کا اعتماد نہیں رکھتا ، بلکہ وہ ان قوتوں پر بوجھ ہوتا ہے جو اسے اقتدار میں لانے کے لیے ایسے حربے استعمال کرتی ہیں۔

پیش مشکل در حالات میں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابی عمل کے ذریعے عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے ساتھ آئے۔ صرف ایسی حکومت ہی سخت فیصلے کرنے کی طاقت، ہمت اور قانونی جواز رکھے گی اور عوام کی بھرپور حمایت کے ساتھ ان فیصلوں پر عمل درآمد کراسکے گی۔ ایسے کوئی آپشن نہیں ہیں جنھیں کھیل تماشا بنایا جاسکے، کیونکہ جب انتخابات سر پر ہیں تو فیصلہ سازی کے عمل میں وقت کی اہمیت ہوگی۔اگرچہ جھٹلانے والے ہمیشہ موجود رہتے ہیں ، لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ موجودہ موڑ پر صرف عمران خان ہی عوام کے اعتماد کا حکم دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسا شخص بھی ہے جو یقین دہانی اور دور اندیشی کے ساتھ مشکل وقت میں ملک کو چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ نفرتوں کو دفن کرنے کا وقت آگیا ہے۔ یہ سوچنے کا وقت ہے کہ ملک کس قدر غیر یقینی پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ پاکستان کو نفرت کا زہر نہیں ، صرف معقولیت ہی واپس درست راستے پر لاسکتی ہے۔ اسے ایک ایسا مستقبل چاہیے جو ہمیں کہیں ماضی میں نہ دھکیل دے۔

(صاحب تحریر پی ٹی آئی کے سیکریٹری انفارمیشن ہیں)

تازہ ترین