18 فروری 2008 کو ملک میں طویل آمریت کے بعد انتخابات ہوئے تو عوام نے آمر دوست سیاسی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے آمر مخالفت جماعتوں کو بھاری اکثریت سے منتخب کیا اور وہ مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ٹھیک ایک سال بعد 17 فروری 2009 کو اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے درمیان معاہدے کے بعد صوفی محمد امن قافلہ لے کر مینگورہ پہنچے تو میں اور موسی خان خیل اس قافلے میں شامل تھے۔
موسی خان نے میرے لئے دوسرے ہوٹل میں کمرا بک کرارکھا تھا ہلکی پھلکی بحث کے بعد میں نے منع کردیا وہ ناراض لگا۔ اگلے روز صبح سویرے سے ہی مینگورہ شہر میں امن مارچ کا آغاز ہوگیا، موسی خان بھی وہاں تھا لیکن وہ میرے پاس نہ آیا۔ سامنے کھڑے ہو کر بھی فون پر ہی بات ہورہی تھی،امن قافلہ مینگورہ سیمٹہ کے لئے روانہ ہوا موسی خان سے بات ہوئی تو اس نے کہا آپ اپنی گاڑی میں آئیں میں دوسری گاڑی میں آرہا ہوں،،میں نے سوچا شاید خان ابھی تک ناراض ہے،،سوچا چلو مل بیٹھیں گے تو راضی ہوجائے گا،،مٹہ پہنچے تو موسی پھر دکھائی دیا مسلسل فون پر بات کئے جارہا تھا،،بحر حال سب اپنے کام میں لگے رہے،،قافلہ مٹہ سے خوازہ خیلہ کے لئے روانہ ہوا تو میں نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت مولانا صوفی محمد کا پیچھا کرنا شروع کردیا،،خوازہ خیلہ کے ایک مدرسے میں مولانا صاحب سے ملاقات ہوئی، انہیں راضی کر کے انٹرویو کیا ابھی اس کامیاب ایڈونچر کے سحر میں مبتلا تھا کہ ایک سینئر ساتھی کا فون آیا اور انہوں نے موسی خان کا پوچھا میں نے لاعملی ظاہر کی تو انہوں نے بتایا کہ موسی کے قتل کی اطلاع ہے،،میرے لئے یہ خبر ناقابل یقین تھی،،جو کچھ دیر قبل میری آنکھوں کے سامنےتھااچانک کیسے قتل ہوگیا،،فوری مینگورہ پہنچے اور وہاں اپنے سوات کے ساتھی کو بتایا،جن کا پہلا ری ایکشن تھا،،موسی کو کون قتل کرے گا، اس کے اس جملے میں موسی خان کی دلیری کی تعریف پوشیدہ تھی،،یعنی وہ اتنا دلیر سمجھا جاتا تھا کہ اس کے قتل کی خبر ناقابل یقین تھی،،یہ قومی اور عالمی میڈیا کے لئے کتنی بڑی خبر بن گئی اس کا اندازہ مجھے اس واقعہ کے بعد غیر ملکی ٹی وی چینلز سے آنے والی ٹیلی فون کالز سے ہوا،،اس رات میں نے تنہائی میں جب دن بھر کو اپنے ذہن میں ری کیپ کیا تو موسی خان کی جانب سے مجھے مسلسل نظر انداز کئے جانے کی حقیقت بھی سامنے آگئی،،موسی خان اور سوات کے بعض دیگر صحافیوں کے پاس ایک روز قبل سے ہی ایسی اطلاعات تھیں کہ کوئی اس قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے،میں یہی سمجھتا رہا کہ خان مجھ سے اس لئے ناراض ہے کہ جس ہوٹل میں ٹھہرنے کا وہ مجھ سے کہہ رہا تھا میں وہاں نہیں ٹھہرا ،لیکن حقیقت کچھ اور تھی،،موسی کوبھی خدشہ تھا کہ کچھ ہوسکتا ہے،اس لئے وہ مجھ سے دور رہا کہ اس کے ساتھ یا اس کی وجہ سے مجھے کوئی نقصان نہ ہو،،آج پھر 18 فروری ہے،5 سال پرانے واقعات پھر ذہن پر کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں،،پاکستان میں کسی کے قتل کی خبر شاید اب زیادہ بڑی خبر ہی نہیں رہی،قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ بھی اہتمام حجت بن چکا ہے،،موسی خان خیل ہوں ولی خان بابر یا دوسرے شہید ساتھی،،ہم ان کے لئے یہی کہیں گے،،مت سمجھو ہم نے بھلادیا۔