دانیال حسن چغتائی، کہروڑ پکّا، لیّہ
ہم بازار جاتے ہیں اور کسی دِقّت کے بغیر اپنی مَن پسند اشیا خرید لاتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہمیں بیرونِ شہر سے کچھ منگوانا یا وہاں کچھ بھیجنا ہو، تو یہ کام بھی بہ آسانی ہو جاتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہمیں یہ سہولت کون فراہم کرتا ہے؟ ہمیں یہ سہولت و آسائش فراہم کرنے کا سبب ٹرک ڈرائیورز ہوتے ہیں، جو آرام و سکون کی خاطر اپنی راتوں کی نیند تک تج دیتے ہیں۔
ٹرک یا ٹرالر سمیت کوئی بھی بڑی گاڑی چلانے والے ڈرائیورز بہ ظاہر معاشرے کے عام افراد کی طرح ہی دکھائی دیتے ہیں، لیکن ان کا طرزِ زندگی دیگر طبقات سے قطعاً مختلف ہوتا ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ سماج کا حصّہ ہونے کے باوجود بھی یہ ایک الگ دُنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا، رہن سہن، اوڑھنا بچھونا اور خانگی معمولات عام ڈَگر سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایک ٹرک ڈرائیور کی زندگی معاشرے کے دیگر طبقات سے یک سَر مختلف کیوں ہوتی ہے؟
دراصل ،گُڈز ٹرانسپورٹ سے وابستہ ان ٹرک ڈرائیورز کو ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں سامان کی ترسیل کے لیے عموماً 12سے 15 گھنٹے مسلسل ڈرائیونگ کرنا ہوتی ہے اور سفر کے دوران ٹریفک کے رش سے بچنے کے لیے یہ اکثر و بیش تر رات میں ڈرائیونگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ پھر ویسے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ سفر رات میں کرنا چاہیے کہ اس وقت فاصلے سمٹ جاتے ہیں۔
دورانِ سفر وقت گزاری کے لیے اکثر ڈرائیورز تیز آواز میں لوک موسیقی سُننے کے شوقین ہوتے ہیں۔ عام طور پر گاڑی میں دو سے تین افراد سوار ہوتے ہیں اور وقتاً فوقتاً سب کی پسند کے مطابق مختلف گانے لگائے جاتے ہیں۔ البتہ مذہبی رُجحان رکھنے والے ڈرائیور حضرات دورانِ سفر گانوں کی بہ جائے قرآنِ پاک کی تلاوت، وعظ اور نعتیں یا قوالیاں وغیرہ سُننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
دیگر فنون کی طرح ٹرک ڈرائیونگ کا ہُنر بھی نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ عام طور پر ٹرک ڈرائیورز 45سے 50برس کی عُمر میں گاڑی اپنے بچّوں کے حوالے کر کے خود اس پیشے کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ دورانِ سفر عموماً ٹرک ڈرائیورز رات گئے سڑک کنارے کسی ڈھابے یا چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے ٹرک کھڑا کر کے تڑکے والی دال یا سبزی اور تندوری نان سے بُھوک مٹاتے ہیں اور پھر تیز چینی، پتّی والی کڑک چائے کا ایک کپ پینے کے بعد وہیں بان کی چارپائی پر اپنی چادر سَر تلے رکھ کے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ پھر یہ دن چڑھنے پر اُٹھتے ہیں۔ منہ پر پانی کے چند چھینٹے مارنے کے بعد عُجلت میں چائے اور سگریٹ کے ساتھ ناشتا کرتے ہیں اور پھر سے منزل کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ دورانِ سفر زیادہ تر ٹرک ڈرائیوز کا یہی معمول ہوتا ہے۔
ایک سے دوسرے شہر سفر کے دوران ٹرک ڈرائیورز کو ٹریفک پولیس کی جانب سے بے جا تنگ کرنا، جُرمانے عاید کرنا اور ڈرانا دھمکانا عام سی بات ہے۔ تاہم، اَن پڑھ ہونے کے باوجود زمانہ شناس ہونے کی وجہ سے یہ ’’بخشش‘‘ دے کر جان چُھڑوا لیتے ہیں۔ اس ضمن میں ٹریفک چالان، ٹرک ڈرائیورز کے لیے کافی پریشان کُن ہوتا ہے اور اس مسئلے کا حل وہ کچھ یوں نکالتے ہیں کہ منزل کی جانب روانہ ہوتے وقت کسی شناسائی رکھنے والے ٹریفک اہل کار سے چند سو روپے کا چالان کروا کر اگلے 24 گھنٹے کے لیے چالان سے استثنیٰ حاصل کر لیتے ہیں یا احتیاطاً کسی وکیل یا سرکاری افسر کا وزیٹنگ کارڈ بھی اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔
سگریٹ نوشی ٹرک ڈرائیورز کی زندگی کا اہم حصّہ ہے اور بہت کم ٹرک ڈرائیورز ایسے ہیں کہ جو کسی نشے کی لت میں مبتلا نہیں۔ شام چار سے پانچ بجے کے دوران یہ کھانا کھانے کے لیے سڑک کنارے واقع کسی اوسط درجے کے ہوٹل کے سامنے گاڑی روکتے ہیں اور چکن کڑاہی، چکن تکّے یا چپلی کباب وغیرہ سے تگڑا سا لنچ کرتے ہیں۔ پھر سگریٹ پیتے ہوئے کچھ دیر خوش گپّیاں کرتے اور کچھ دیر بعد سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔
بیش تر ٹرک ڈرائیورز ہفتے میں پانچ سے چھے روز تک سفر ہی میں رہتے ہیں۔ گویا ان کا حال مسافروں کا سا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ یہ ڈرائیور حضرات پیسے بچانے کے لیے سڑک کنارے بنے ہوٹلز میں آرام کی بہ جائے ڈرائیونگ سیٹ کے پیچھے نصب چھوٹے سے کیبن ہی میں سو جاتے ہیں۔ سفر کی زیادتی کی وجہ سے یہ اپنے آپ سے بھی لاپروا ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ان کی شیو بڑھی ہوئی اور لباس سلوٹ زدہ ہوتے ہیں۔
اگر یہ ڈرائیورز دیر سے ٹرک اڈّے پر پہنچیں ،تو انہیں اڈّے والے سے جھڑکیاں سُننے کو ملتی ہیں اور اگر ٹرک راستے میں کہیں خراب ہو جائے، تو انہیں خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات کسی ویران جگہ پر گاڑی خراب ہو جائے، تو یہ خود ہی میکینک بن جاتے ہیں۔ اس قدر پُرمشقّت اور کٹھن زندگی کے باعث ٹرک ڈرائیورز کچھ چڑچڑے سے بھی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر مشتعل ہو کر لڑائی جھگڑے یا گالم گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ البتہ بعض ٹرک ڈرائیورز نفیس، با اخلاق اور شائستہ اطوار بھی ہوتے ہیں۔
ٹرک ڈرائیورز خُود سے زیادہ اپنے ٹرک کا خیال رکھتے ہیں۔ اسے ہمیشہ سجا سنوار کر رکھتے ہیں۔ گرچہ بیش تر اَن پڑھ ہوتے ہیں، لیکن اپنے بچّوں کو اُن کے اچّھے مستقبل کی خاطر معیاری اسکولز میں داخل کرواتے ہیں۔ تاہم، ان کی گھر میں عدم موجودگی سے بچّے پڑھائی پر توجّہ نہیں دے پاتے اور نتیجتاً ’’ٹرک ڈرائیوری‘‘ ہی اُن کامقدّر بنتی ہے۔
ادھیڑ عُمری میں عموماً ٹرک ڈرائیورز اپنی فارورڈ یا فریٹ ایجینسی کھول لیتے ہیں اور مُلک بَھر میں لوگوں سے روابط ہونے کے باعث اُنہیں سامان لینے کے سلسلے میں کسی قسم کی دشواری کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بڑھاپا آتا ہے، تو ان کا زیادہ تر وقت مساجد میں گزرنے لگتا ہے اور یوں عموماً عُمر کا آخری حصّہ اللہ اللہ کر کے گزارتے ہیں۔