ڈاکٹر نثار احمد، کراچی
ہیں اشک بار فلسطینیوں کے شام و سحر
بکھر گئے ہیں زمیں پر غزہ کے لاکھوں گھر
غزہ پہ سیکڑوں بم بار بم گراتے ہیں
غزہ پہ دشمنِ اسلام ظلم ڈھاتے ہیں
غزہ پہ موت کا خوف و ہراس طاری ہے
بہ طورِ خاص وہاں قتلِ عام جاری ہے
غزہ کے موسمِ گُل کو خزاں بنایا گیا
ہر ایک شاخِ چمن کو وہاں جلایا گیا
یہودی اہلِ جُنوں جب بھی بےلگام ہوئے
لہولہان فلسطین کے عوام ہوئے
مجاہدینِ غزہ رنج و غم کے مارے ہیں
غزہ میں چاروں طرف بے کفن جنازے ہیں
غزہ کی جنگ نہ رُکوا سکا کوئی اب تک
بہے گا اہلِ فلسطین کا لہو کب تک
مِٹا رہے ہیں یہودی غزہ کا نام و نشاں
نہ جانے لشکرِ اسلام کیوں گیا نہ وہاں
جو مُلک جنگِ غزہ میں بنے تماشائی
بساطِ وقت پہ اُن کے لیے ہے رسوائی
ہے ہم پہ فرض فلسطین کی حفاظت بھی
خدا کی راہ میں ہے معتبر شہادت بھی
غزہ کے نام پہ تحریک بھی چلائیں ہم
مجاہدین کے بھی حوصلے بڑھائیں ہم
ہمارے دل میں ہے آباد مسجدِ اقصیٰ
نہ جانے ہوگی کب آزاد مسجدِ اقصیٰ
وفا شِعارِ فلسطین ہم بھی بن جائیں
مجاہدین کو امداد ہم بھی پہنچائیں
ہیں دردناک مناظر ہمارے رستے میں
ہے انقلاب ضروری عرب کے خطّے میں
پڑے ہوئے ہیں مسلمان خوابِ غفلت میں
اِسی سبب سے مسلمان ہیں مصیبت میں
عداوتوں میں محبّت کے دَر بنائیں ہم
لہو بدن بھی اگر ہوں تو مُسکرائیں ہم
ہوا کے مدِمقابل دیے جلائیں ہم
نثارؔ اپنے وطن کو بھی جگمگائیں ہم