مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے والد مرحوم رسول بخش نسیم اوچ شریف کے مشہور و معروف صحافی تھے۔ وہ یکم اکتوبر 1932ء کو پانچ دریائوں کے حسین سنگم میں واقع تحصیل علی پور کے ایک دُورافتادہ گائوں ٹبہ برڑہ سرکی میں پیدا ہوئے۔ بچپن یتیمی میں گزرا۔ غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ تاہم، اپنے ذوقِ مطالعہ کے سبب علم کے دریا سے خوب سیراب ہوئے۔ اُن جیسا وسیع المطالعہ اور متنوّع ذوق رکھنے والا میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا۔ مذہب، سیاست، سماج، ادب، فلسفہ، فنونِ لطیفہ غرض زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جہاں انھوں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔
وہ صرف ہمارے والد ہی نہیں ایک بہترین دوست، استاد، مربّی اور محسن بھی تھے۔ جوانی میں قدم رکھتے ہی پاک فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوگئے، وہاں اُن کی صلاحیتوں کومزید جِلا ملا۔ شعرو ادب سے چوں کہ بچپن ہی سے لگائو تھا، چناں چہ افواجِ پاکستان کے ماہ نامہ جریدے ’’ہلال‘‘ میں باقاعدگی سے اُن کے نگارشات شایع ہونے لگیں۔ ستمبر 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ سیال کوٹ کے محاذ پر دشمن کی گولہ باری سے زخمی بھی ہوئے۔ فوجی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں میڈل سے نوازا۔1970ء کی دہائی میں بطور صوبے دار پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اوچ شریف کو اپنا مستقل مسکن بنالیا۔
قبل ازیں، سیت پور، خان پور نہڑکا اور بنڈہ اسحاق کے سرکاری اسکولوں سے بھی منسلک رہے۔ درس و تدریس کے ساتھ حکمت کا کام بھی کرتے رہے۔ اس دوران اخبارات ورسائل میں مختلف موضوعات پر مضامین لکھتے رہے۔ اوچ شریف منتقل ہونے کے بعد کُل وقتی طور پر صحافت اور ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور اپنی تحریروں سے اوچ شریف کی سیاسی، سماجی و ادبی سطح پر گہرے نقوش مرتّب کیے۔ انھوں نے سہ ماہی رسالہ ’’جہاں گشت‘‘ اور پندرہ روزہ اخبار ’’نوائے اوچ‘‘ کا بھی اجراء کیا۔ اوچ شریف میں پریس کلب کی بنیاد رکھی گئی، تو اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ وہ اپنے اخبار اور رسالے کے ذریعے نہ صرف مسائل کی نشان دہی کرتے، بلکہ اُن کے حل کے لیے عملی طور پر بھی کوشاں رہتے۔
ہمیشہ عام آدمی کا ترجمان رہے۔ حق اورسچ لکھنے کی پاداش میں اُن پر کئی قاتلانہ حملے بھی ہوئے، علاقے کی بااثر شخصیات کے عتاب کا نشانہ بھی بنے، لیکن ڈر، خوف یا دھمکی اُن کے پائے استقامت میں لرزش نہ لاسکی۔ اُن کی تحریروں میں ایک خاص قسم کی سنجیدگی، متانت اور روانی تھی۔ اوچ شریف کی تاریخ کے حوالے سے اُن کی تحقیقی کتاب ’’روحانیتِ اوچ‘‘ کو سابق صدر، جنرل محمد ضیاء الحق کی طرف سے خصوصی انعام سے نوازا گیا، جب کہ دیگر کتابوں میں خودنوشت داستانِ حیات، ’’پردے میں رہنے دو‘‘ اور ناول ’’سندرسی لڑکی‘‘ سمیت دیگر کئی کتابیں اور افسانے اُن کے قلم کی جولانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ساری عُمر صحافت اور علم و ادب کی آب یاری کرنے والے ہمارے پیارے والد، رسول بخش نسیم بالآخر 9دسمبر 2000ء کو خالق ِ حقیقی سے جاملے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (نعیم احمد ناز،بوسن روڈ، ملتان)