• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

1964ء کی بات ہے، اُس وقت مَیں میٹرک کا طالب علم تھا، اور تعلیم کے سلسلے میں اپنے ایک دوست کے گھر مقیم تھا۔ اُس کے والد ایک بڑے زمین دار اور اُس علاقے کی ایک مقبول سیاسی جماعت کے رہنما تھے۔ وہ اپنے علاقے سے ہمیشہ ایم پی اے اور ایم این اے منتخب ہوتے رہے۔ وہاں سے تقریباً سات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گائوں میں میرے ایک چچا، رہائش پذیر تھے۔ ان دونوں قصبوں کے درمیان ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ مَیں جب کبھی چچا کے گائوں جاتا، تو اُس بستی سے گزر ہوتا، جہاں سڑک کنارے ایک میاں، بیوی اور اُن کے اکلوتے بیٹے پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھرانہ آباد تھا۔ 

گھرانے کا سربراہ، ہرکسی سے انتہائی محبت و اخلاق سے پیش آتا، وہ انتہائی شریف النفس اور بہت مہمان نوازتھا، وہاں سے گزرنے والے اکثر مسافر اُس کے گھر کے سامنے بنے چھپرے پر کچھ دیر سستانے اور آرام کرنے کی غرض سے بیٹھتے، تو وہ اپنی بساط کے مطابق لسّی پانی سے خاطر مدارات کرتا۔ ہرآنے جانے والا وہاں کچھ دیر ضرور رُکتا۔ اکثر مَیں بھی وہاں کچھ دیر سستانے کے لیے رُک جاتا۔ یوں متواتر آنے جانے سے اُن کے بیٹے سے میری دوستی ہوگئی۔

اُن کا بیٹا، سبحان اللہ بھی بڑا ہنس مُکھ، پُرکشش شخصیت کا حامل نوجوان تھا۔ میرے ساتھ تو اُس کی خُوب گپ شپ رہتی۔ وہ اپنے پڑوس کی ایک لڑکی سے محبّت کرتا تھا، اکثر اُس کی باتیں کرتے ہوئے مجھے بتایا کرتا کہ ’’انتہائی خُوب صُورت ہے، مَیں اس سے والہانہ محبت کرتا ہوں اور شادی کا خواہش مند ہوں، لیکن اُس کے ماں باپ راضی نہیں ہوتے۔

میرے والدین ان سے رشتہ مانگنے گئے، لیکن وہ ہمیں خود سے کم تر سمجھتے ہیں، اِس لیے انکار کردیا۔‘‘ مَیں کہتا، ’’بڑی عجیب بات ہے، لوگ تو اپنی بیٹی کے لیے ایسا رشتہ ڈھونڈتے ہیں کہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہو، اور پھر وہ زمین دار ہیں، تو تم لوگ بھی زمین دار ہو، انکار کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ مَیں اُسے کافی سمجھاتا کہ ’’تمہارے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں، اگر وہ رشتہ نہیں کرتے تو بھول جائو اور کہیں اور شادی کرلو۔‘‘ مگر شاید وہ اس لڑکی کی محبّت میں بُری طرح گرفتار تھا اوراُسے کسی بھی طرح اپنانا چاہتا تھا۔

رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوا، تو میرا کافی روز تک وہاں جانا نہ ہوسکا۔ عیدالفطر کے دوسرے دن مَیں چچا کے گھر سے واپس آتے ہوئے سبحان کے گھر پہنچا، تو دیکھا کہ وہ گھر میں اکیلا اداس بیٹھا ہے۔ اُس کے والدین کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ کچھ پریشان لگ رہا ہے۔ مَیں نے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو بڑی شائستگی سے ٹال گیا۔ مَیں تھوڑی دیر اس کے پاس بیٹھا، لیکن وہ گُم صُم ہی رہا، مجھ سے کوئی خاص بات چیت نہیں کی، تو کچھ دیر بعد مَیں بھی اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنی راہ لی۔ 

مَیں اُس کی سردمہری پر تھوڑا حیران تو ہوا، لیکن اُس کی پریشانی کا سوچ کر درگزر کرکے گھر چلا آیا۔ گھر پہنچے ابھی مجھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ محلّے کا ایک لڑکا بھاگتا ہواآیا اور بتایا کہ بستی کے فلاں لڑکے نے خُودکشی کرلی۔ یہ سُن کر میرا دل تو جیسے بیٹھ سا گیا، کیوں کہ وہ میرے اُسی دوست کی بات کررہا تھا، جس سے مَیں کچھ دیر قبل مل کر آیا تھا۔ باہر نکلا اور لوگوں کو اُدھر جاتے دیکھا، تو سمجھ گیا، مَیں بھی اُدھر ہی چل پڑا۔ 

وہاں پہنچا، تو گھر میں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ میرے وہاں سے آنے کے بعد ہم سائے کی لڑکی اُن کے گھر گئی۔ اُسے دیکھ کرسبحان کے چہرے کی رونق لوٹ آئی، اُس نے لڑکی سے کہا کہ ’’تمہارے ماں باپ تو نہیں مانتے، آئو ہم دونوں کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔‘‘ لیکن لڑکی نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ ’’مَیں اپنے والدین کے لیے بدنامی کا باعث نہیں بننا چاہتی۔‘‘ جب اُس نے دیکھا کہ لڑکی کسی بھی صُورت اُس کی بات ماننے کو تیار نہیں، تو اُس نے اچانک اپنے سرہانے رکھا ریوالور اٹھا کر پہلے لڑکی کو پے درپے دو گولیاں ماریں، پھر اپنی کن پٹی پر رکھ کر ٹریگر دبا دیا۔ وہ تو موقعے پر جاں بحق ہوگیا، لیکن لڑکی کی قسمت اچھی تھی۔ بروقت اسپتال لے جانے کی وجہ سے موت کے منہ سے بچ گئی۔ اس واقعے کے بعد لڑکے کے والدین تو جیسے نیم پاگل ہوگئے۔

وہ ہَرے بَھرے کھیت، جو کبھی آنکھوں کو طراوٹ اور رُوح کو تازگی بخشتے تھے، یوں اجڑے کہ پھر ہر طرف دُھول ہی دُھول اُڑتی نظر آنے لگی۔ ایک اَنا اور نوجوانی کے جوش نے دو گھر اُجاڑ دیئے۔ لڑکے کے گھر والے تو اجڑہی گئے، مگر لڑکی کے گھر والے بھی سخت مصیبت میں آگئے۔ طویل عرصے تک تھانہ کچہری کے چکّروں میں سب کچھ لُٹ گیا، زمینیں فروخت ہوگئیں۔ 

میری تو وہاں عارضی رہائش گاہ تھی، تعلیم مکمل کرکے اپنے گھر چلا آیا، بعد میں پتا چلا کہ لڑکی کے گھر والے کوڑی کوڑی کے محتاج ہوگئے۔ اکثر سوچتا ہوں اب کہاں گئی اُن کی اَنا، عظمت، شہرت، عزّت، سب کچھ ہی تو مٹّی میں مل گیا۔ اے کاش! ہم لوگ اپنی اولاد کی جائز خواہشات کو کبھی جھوٹی اَنا کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔ (ایم آر شائق، کمال آباد، راول پنڈی، کینٹ)