مصنّف: ڈاکٹر عقیل عباس جعفری
صفحات: 648، قیمت: 5000روپے
ناشر: وَرثہ پبلی کیشنز، 94/1، 26ویں اسٹریٹ، فیز 6، ڈی ایچ اے، کراچی۔
فون نمبر: 9242098 - 0300
زیرِ نظر کتاب کے مصنّف ہمہ جہات ہی نہیں، ہمہ صفات بھی ہیں۔ شاعر، ادیب، محقّق، مترجّم اور لغت نویس۔ ان کی زندگی کا ہر حوالہ معتبر ہے۔ عقیل عباس جعفری نے ’’پاکستان میں اردو فلمی صنعت کی تاریخ‘‘ پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔’’اردو لغت بورڈ‘‘ میں بطور مدیرِ اعلیٰ خدمات انجام دیں اور ’’ادب اور پاکستانیات‘‘ کے شعبے میں شان دار خدمات کے اعتراف ہی میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغۂ امتیاز عطا کیا گیا۔ اُن کی تصنیفات اور ادبی و تحقیقی خدمات کے جائزے کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔بہرحال، زیرِ نظر کتاب اُن140کتابوں کی رُوداد پر مشتمل ہے، جو مختلف زمانوں اور علاقوں میں پابندیوں کا نشانہ بنیں۔
یہ کتاب موضوع اور مواد کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔ اسے عالمی تناظر میں ایک تاریخی دستاویز بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔’’ سیاسی بنیادوں پر معتوب ادب، مذہبی بنیادوں پر معتوب ادب، جنسی بنیادوں پر معتوب ادب، سماجی بنیادوں پر معتوب ادب اور برصغیر سے تعلق رکھنے والی چند اور کتابیں‘‘، ان موضوعات سے بھی کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ تاریخِ انسانی کے ہر دَور اور ہر خطّے میں ایسی کتابوں پر پابندی لگانے کا سلسلہ جاری رہا ہے، جو سیاسی، سماجی، مذہبی یا جنسی بنیادوں پر معاشرتی اقدار کے لیے نقصان دہ تصوّر کی جاتی رہی ہیں۔
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے اپنی کتاب میں ایسی ہی140کتابوں کا جائزہ پیش کیا ہے۔ ان میں16کتابیں ایسی ہیں، جو اردو یا انگزیری زبانوں میں برّصغیر میں شائع ہوئیں اور اُن پر پابندی لگادی گئی یا پھر عوام نے ازخُود ان کتابوں کو سوختنی قرار دے دیا۔ ہندوستان میں زیادہ تر مذہبی اور سیاسی تصانیف پابندی کی زَد میں آئیں۔ پہلی مذہبی تصنیف، جسے عوام النّاس کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، وہ ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب ’’امّہات الامّہ‘‘ تھی۔ جب ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب برسرِ عام نذرِ آتش کی گئی، تو اُنہیں ایسا صدمہ ہوا کہ پھر زندگی بَھر کچھ نہیں لکھا۔
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے اپنی کتاب میں شامل کتابوں کی فہرست بڑی محنت اور جستجو سے تیار کی ہے۔ تاہم، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ بہت سی معتوب کتابیں ایسی بھی ہیں، جو کسی ایک مُلک میں پابندی کی زَد میں آئیں، جب کہ دنیا کے باقی خطّوں میں وہ باآسانی دست یاب رہیں۔ بھارت ہی نہیں، پاکستان میں بھی ایسی کتابوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جو کسی ایک صوبے میں زیرِ عتاب آئیں، دوسرے صوبوں میں باآسانی فروخت ہوتی رہیں۔
پابندی کی زَد میں صرف کتابیں ہی نہیں آئیں، بلکہ کہیں کہیں ان کے مصنّفین کو بھی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔ کہیں ناشر قتل ہوا، تو کہیں مصنّفین کے قتل کے فتوے جاری ہوئے۔ اس کے برعکس، بیسویں صدی میں ایسی کئی کتب کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے، جنھیں فلم کے قالب میں ڈھال کر ان کے مصنّفین کو ادب کے نوبیل انعام سے سرفراز کیا گیا اور اردو سمیت دنیا کی متعدّد زبانوں میں ان کے تراجم کروائے گئے۔ کتاب کا انتساب پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار، ضمیر نیازی کے نام ہے، جو خود بھی ضبط شدہ کتابوں اور نذرِ آتش کیے گئے کتب خانوں پر کام کے خواہاں تھے، مگر زندگی نے اُنہیں مہلت نہیں دی۔