• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اپنی قدرتی عطائوں سے جتنا خوش بخت، اتنا ہی اپنی 75سالہ تاریخ میں مافیہ راج کی چیرہ دستیوں سے بدنصیب اور اپنا رقیب آپ ٹھہرا۔ ہماری اس سیاسی معاشرت کا کیا خوب نوٹس اللہ بخشے امجد اسلام امجد نے اپنی نظم ’’دائروں کا سفر‘‘ میں لیا، کمال نشاندہی یوں کی: ہم لوگ /دائروں میں چلتے ہیں/ دائروں میں چلنے سے/ دائرے تو بڑھتے ہیں/ فاصلے نہیں گھٹتے/ آرزوئیں چلتی ہیں/ جس طرف کو جاتے ہیں/ منزلیں تمنا کی/ ساتھ ساتھ چلتی ہیں/ گرد اڑتی رہتی ہے/ درد بڑھتا جاتا ہے/ راستے نہیں گھٹتے۔ بالکل یہ ہی تو ہوتا رہا، ہمارا آغاز ہی انتشار زدہ سیاسی عشرے سے ہوا، پھر سیاسی جمود و آئینی اختلاف کی ملاوٹ سے ترقی والا مارشل لا در مارشل لا (عیاش قیادت والا) لیڈنگ ٹو فال آف ڈھاکہ، باقیماندہ پاکستان کا نام نہاد نفاذ آئین سول فسطائیت سراپا و مسلسل احتجاجی اپوزیشن کے ملغوبے کا پہلا رجیم، انجام کو پہنچا تو پھر مشاورتی، غیر جماعتی ریفرنڈم والا کڑا مارشل لا۔ حادثاتی انجام کو ہوا تو ورثے میں بدقسمت قوم کو ایک سیاسی قیادت دے گیا جو سچی مچی کی عوامی بن گئی (جیسے ترقی والے مارشل لا کی کوکھ سے بھی ایک قد آور عوامی قیادت برآمد ہوئی تھی) بڑے ہوائی حادثے سے سول ٹچ کے دوسرے مارشل لائی دور کا اختتام تو ہوا لیکن یہ حادثہ ایک کرپشن زدہ سیاسی منتخب عشرے کے آغاز کا سبب بھی بنا۔

(لندن والے میثاق جمہوریت میں فریقین حقیقی جمہوریت کے پابند رہے نہ رہے، مالی کرپشن اور انتظامی کھلواڑ (بیڈ گورننس) اور انتقامی سیاست کے حوالے سے تو ایک پیچ پر ہی رہے۔ چونکہ یہ بھی اسٹیٹس کو کو چلاتا بڑھتا روایت پرستوں کا عشرہ تھا سو یہ بھی جاتے جاتے چیف ایگزیکٹو، باوردی صدر اور ایمرجنسی والا مارشل لا دے گیا، ساتھ دو بڑے حادثے بھی۔ ایک سلگتا بلوچستان، دوجا لال مسجد والا۔ امجد جانے سے پہلے اپنے حصے کا کام کر گیا، قومی حادثات میں آئے دائروں کی نشاندہی کہ پاکستانیو ذرا سوچو! ہم دائروں کے سفر کے اسیر بن گئے ہیں جس کے فاصلے نہیں گھٹتے، آرزوئیں بھی ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور گرد بھی اڑتی رہتی ہے، درد بھی بڑھتا جاتا ہے اور منزل نہیں آتی۔ پاکستانیوں امجد تو گیا تو دائروں سے ہم گڑھوں کی مسافت پر نہیں چل نکلے؟

قارئین کرام! غور فرمائیں، 75برس پر محیط دائروں کے اس کٹھن قومی سفر میں ہر عشرے کا اپنا تشخص رہا لیکن سب ایک پیج پر بھی رہے۔ ایسے کہ سب کی رجیمز کی خود غرضی، اقتدار کی ہوس، طوالت کی تگ و دو قومی خزانے کی لوٹ مار عوام الناس سے مکمل لاپروائی ، کنبہ پروری، سب سے بڑھ کر آئین و قانون سے رو گردانی اور دو قانونیت کے حوالوں سے سب ہی رجیمز ایک پیج پر رہے۔ اب ہم جو گڑھوں کے سفر میں ایک گڑھے سے نکل کر زخمی اور ادھ موئی حالت میں نکل کر پھر چند قدم آگے دوسرے گڑھے میں گرتے ہیں، ملک چلانے والے نہیں جانتے کہ عوام کو جس طرف دھکیلا جا رہا ہے یہ راہ قوم و ملک کو کہاں پہنچائے گی؟گڑھا ہے، جبکہ قوم کے بچے بچے کو پتہ لگ گیا کہ کدھر کیا ہے، بلکہ بچوں کو ہی زیادہ پتہ ہے۔ پری الیکشن۔24 اور پوسٹ الیکشن جو کچھ عوام پر بیت گئی اور جس طرح ہاروں سے تشکیل حکومت ہو رہی اور جیتوں پر اپوزیشن تھوپی جا رہی ہے ایسے تباہ کن تجربات تو پہلے بھی ہوئے ہیں۔

دائروں کے سفر کا ہر حربہ، ہر رکاوٹ عوام مخالف ہر واردات کو سخت گیر نظام بد کی پوری طاقت سے انتہا پر پہنچا دی گئی۔ کیوں؟ کہ مافیہ راج کے وہ دیوتا جو عشروں سے خلق خدا کو دائروں میں ڈراتے بھگاتے رہے خود بیدار پاکستانیوں کے ووٹ کی طاقت کے ہیوی مینڈیٹ میں ڈھلنے اور ان کے پسندیدہ بے قصور اسیر لیڈر کی استقامت کے حیرت انگیز درجے سے خود خوفزدہ ہوگئے۔ مافیہ راج فسطائیت کے بچھائے کانٹوں اور خطرناک گھاٹیوں گڑھوں کی طرف دھکیلی گئی خلق خدا جس طرح اور جس حکمت و عزم و عمل سے پولنگ اسٹیشنز پر پہنچی ہے اور رائے حق دہی کی پرچی سے جو سیاسی انقلاب برپا کیا ہے اس نے پورے نظام بدکو لرزا دیا ہے۔ شدت اختیار کرتی قومی ضروریات، آئین کا مکمل نفاذ، دو قانونیت و لاقانویت کی بیخ کنی، شفاف انتخاب و احتساب کے بیانیوں کی لائی بیداری اور مینڈیٹ میں ڈھلی ووٹ پرچیوں نے طرز کہن میں بندھے مافیہ راج کولرزا دیا ہے۔ اس حد تک کہ خوفزدہ مافیہ راج کا تمام سازو سامان رکاوٹ کے تمام تر حربوں ہتھکنڈوں کے ساتھ برہنہ ہے۔ خصوصاً الیکشن کمیشن تین روز تک ماورائے آئین و حلف و فرض ملک گیر سطح پر پولنگ اسٹیشنز کے نتائج من مانی سے تلپٹ کرنے کے سنگین قومی جرم کامبینہ مرتکب ہوتا رہا۔ الیکشن سے خوفزدہ تو مولانا صاحب بھی برفباری کا مدعا کھڑا کئے ہوئے تھے، لیکن اب ان کی خاموشی اور ہمرکاب مفتی کفایت اللہ نے اپنی انتخابی ناکامی کو کھلے دل سے تسلیم کرکے کفارہ ادا کردیا۔ پی پی کے نامور وکلا بیرسٹر اعتزاز احسن،لطیف کھوسہ، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور سب سے بڑھ کر قوم عوام کو گڑھوں کی طرف ہانکنے سے بروقت ہوئے تائب اور سیاسی فلاح پائی۔پیمرا مافیہ راج کے سازو سامان میں شامل ہوا اور مین اسٹریم میڈیا کو بھی اتنا ڈرا گیا کہ وہ اپنی متاع عزیز ’’عوامی اعتماد‘‘کھوتا جا رہا ہے تاہم عوام کے جذبے اور روشن مستقبل کے ضامن ٹیکنالوجی کے ارفع استعمال کا کیا کمال ہے کہ بلاچھیننے کی خطرناک واردات کو جواں سالوں نے رات دن سرگرم ہوکر سٹیزن جرنلزم کے نتیجے خیز استعمال سے بڑی حد تک ناکام بنا دیا۔ ایک محدود فیصد میں اوورسیز پاکستانی ووٹ دینے امریکہ، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور خلیجی ممالک سے اپنے ہوم ٹائونز پہنچے اور ووٹ کہیں دور پھینک دیا گیا تھا تو پیچھا کرتے وہاں تک پہنچے۔


امجد تو دائروں کے سفر کی نشاندہی کرکے چلا گیا ہر عشرے کے نظام بد میں خطابت و شاعری نے کمال دکھایا۔ فیضؔ، شورشؔ، جالبؔ، فرازؔ نے طاقت پکڑتے مافیہ راج کی نشاندہی کی اور خوب کی آج سیدھی بات کہنا جتنا محال بنا دیا گیا ہے، سیاسی شاعری کا فقدان ہے۔ جو ہیں وہ نظام کے بینی فشری یا خوفزدہ ہو کر عوام سے دورہوگئے۔ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی/ خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے لیکن مافیہ راج بیانیہ سازی اور ٹیکنالوجی سے اس کے پھیلائو سے جتنا خوف زدہ ہے وہ ہی اس کے علاج معالجے کے لئے کافی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ کفارہ ادا کرکے عوام سے آن ملو۔ اور اقبال کو سمجھو۔

آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا

منزل یہ ہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین