• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

7 جنوری 2024ءکی صبح شائع ہونے والے کالم ”نظام دین کی بیٹھک اور عام انتخابات“ میں ووٹرز کے رجحان اور عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں جو حقائق بیان کئے گئے تھے وہ کچھ اس طرح تھے۔’’بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے حامی اس دلیل سے بھی متفق نظر نہیں آتے وہ کہتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ’مداخلت ‘ختم کی جائے‘عام انتخابات ہونے دیں نتائج سامنے آ جائیں گے۔ نظام دین کی بیٹھک کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں لگی طویل بیٹھک پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں کہ یہ نون لیگی لیڈر ماڈل ٹاؤن میں بُکل مارے کیوں بیٹھے ہیں؟ نونی اپنی قیادت سے بھی نالاں نظر آتے ہیں کہ وہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو انہیں بھول جاتے ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو ان کی یاد ستاتی ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی جیل سے باہر نکلیں یا نہ نکلیں، الیکشن کیلئےاہل ہوں یا نہ ہوںرپورٹ یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت اپنے چاہنے والوں کو ہر ذریعے سے متحرک کئے ہوئے ہے کہ میدان کھلا نہ چھوڑیں، آپ دیکھیں گے کہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل ہونے کے بعد پی ٹی آئی کے نئے چہرے سامنے آئیں گے کہ سب حیران وہ پریشان ہو جائیں گے اور پولنگ ڈے پر نظام دین کی سوچ سے ہٹ کر حیران کن نتائج سامنے آئیں گے‘‘یہ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ جو حقائق بیان کئے تھے وہ تمام کے تمام سچ ثابت ہوئے۔ کوئی دعویٰ نہیں، کوئی تیس مارخانی نہیں ، کسی ایجنسی یا طاقت ور کی فراہم کردہ من گھڑت تفصیلات پر تجزیہ نہیں۔ کسی سیاسی جماعت سے کوئی ایسی وابستگی ،ہمدردی یا حاشیہ برداری کا کوئی تمغہ بھی میرے سینے پر نہیں ۔ جو کچھ بھی لکھا یہ میرا ذاتی مشاہدہ اور میری دیانت دارانہ زمینی حقائق پرمبنی ایک رائے تھی ۔ اپنی رائے کے اظہار کیلئے مجھے طویل سفر کرنا پڑے ۔ عام شہریوں سے ملاقاتیں کیں ، ہر حلقے کے لوگوں کے دل میں جو تلخ حقیقتیں چھپی تھیں انہیں سنا۔ رائے دہندگان کو بار بار کریدا کہ کہیں وہ کسی دباؤ یا شخصیت کے زیراثر رائے تو نہیں دے رہے۔ شہری بابوؤں، سرکاری نوکروں، نوجوانوں ، بزرگوں اور خواتین سے رائے لی۔ اپنے گھر کے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیا۔ نوجوان بچوں سے پوچھا، اردگرد بسنے والوں ، رشتہ داروں کے خیالات پرکھے ، شہری آبادیوں کے قریب دیہاتی علاقوں کے نیم دیہاتی، نیم خواندہ افراد کی بیٹھکوں میں بیٹھا ، دکان داروں، کاروباری طبقے سے تعلق رکھنے والوں سے سوال جواب کئے۔ کاشت کاروں، کسانوں، مزدوروں سے پوچھا کہ بھائی آپ کس کوووٹ دیں گے؟ پاکستان کے مستقبل کےبارے آپ کا فیصلہ کیا ہے؟ پاکستان ایک بار پھر نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ خدارا! اپنا حق رائے دہی ٹھیک طریقے سے استعمال کیجئے گا۔ یہ موقع بار بار نہیں آئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا ووٹ ہمیں بحرانوں سے نکالنے کی بجائے کسی بڑی مصیبت میں ڈال دے۔ عوام سے آصف زرداری، بلاول بھٹو، نوازشریف اینڈ کمپنی ،بانی پی ٹی آئی کے شخصی و سیاسی کردار پر طویل تبادلہ خیالات ہوا۔ کہیں کہیں مذہبی ٹچ بھی دیا۔ یقین جانئے! آج کے جنونی نوجوانوں کو کسی بات پرقائل کرنا بالکل ناممکن ہو چکا ہے۔ ان کی سوئی جہاں اٹک چکی ہے وہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ نوجوانوں اور خواتین کی اکثریت قیدی نمبر804کے ساتھ ڈٹی کھڑی نظر آتی ہے۔ جس کا اظہار انہوں نے الیکشن کے دن واضح طور پر کردیا ہے۔ انتخابی نتائج جو بھی ظاہر ہوئے ہیں وہ ان سے مطمئن نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پرویز خٹک ، جہانگیر ترین جیسے پی ٹی آئی کے بھگوڑوں کا ہم نے مکمل صفایا کردیا ہے تو پھر لاہور سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ مضبوط ترین آزاد امیدوار سلمان اکرم راجہ کو تحریک استحکام پاکستان کے کمزور ترین امیدوار عون چودھری کیسے شکست دے سکتے ہیں۔ ووٹروں کی اکثریت ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ وہ ایک ہی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جنہیں بزورطاقت اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہی ہے ہم انہیں کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اکثریتی ووٹر اپنا ووٹ چوری ہونے کی شکایت کر رہا ہے۔ خیبر سے کراچی ، پنجاب سے بلوچستان تک نوجوان ان فیصلوں سے نالاں ہیں اور اس کا تمام تر ملبہ اسٹیبلشمنٹ پر ڈالا جا رہا ہے۔ نون لیگ کی کامیابی کے بارے میں جو تاثر بنانے کی کوشش کی گئی تھی سب تدبیریں الٹی پڑ گئی ہیں۔ بلاول بھٹو کی تنِ تنہا انتخابی مہم چلانے کا عوام نے اچھا تاثر لیا ہے۔ انہوں نے جو محنت کی اس سے بڑھ کر انہیں سندھ میں ثمر ملا ہے۔ نوازشریف نے سندھ اور بلوچستان میں انتخابی مہم نہ چلا کر گویاپہلے دن ہی اپنی شکست تسلیم کرلی تھی۔ نون لیگ اپنے ووٹرز کو آئے روز بدلتے بیانیے پر قائل نہ کر سکی۔ نوازشریف اور لیگی قیادت لاہور میں اپنے آبائی حلقوں میں منظم انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہی، پھر بھی کامیاب قرار پائی۔ لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے انتخابات ہیں کہ جیتنے والے ہارگئے، ہارنے والے جیت گئے۔ آج کا نوجوان اہم فیصلوں میں کسی کی اجارہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ معیشت ، سیاست ، خارجہ و داخلہ امور پر ”ان“ کا کوئی کنٹرول نہ ہو۔ جبر ، زور زبردستی کے نتائج سے بننے والی آئندہ حکومت کے مستقبل بارے سوال ابھی سے اٹھنے لگے ہیں کہ جب تک معاملات انصاف کی راہ پر نہیں چلیں گے، جمہوری طور طریقے نہیں اپنائے جائیں گے ۔ یہ نظام اور نظام دین کی بیٹھک پریشان ہی رہے گی۔ کہا جا سکتا ہے کہ الیکشن اور اس کے متنازع نتائج دراصل عوام کی رائے کی ایک جھلک ہے۔ جس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ عوام نے اپنا جمہوری حق استعمال کیا اور یہ نظام اور نظام دین دونوں کیلئے پیغام ہے کہ غلط حقائق پر مبنی سوچ سے جنم لینے والے خواب حقیقت نہیں۔ ایسے نتائج کی بنیاد پر کھڑی کی گئی عمارت بھی جلد زمین بوس ہو جائے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ جن کی اکثریت ہے انہیں حکومت بنانے کا پہلے موقع دیں۔

تازہ ترین