• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اُس رات ہم سب دوست اکٹھے تھے ، الیکشن نتائج پر گرما گرم بحث جاری تھی ، ہر کوئی اپنا اپنا تجزیہ پیش کر رہا تھا اور مُصِر تھا کہ اُس کی بات ہی درست ہے۔ ایسے میں ایک دوست نے کمال کی بات کی ، اُس نے کہا کہ جس طرح دین میں اجتہاد ضروری ہے اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی اجتہاد سے کام لینا چاہیے ۔ اِس جملے کی تشریح چاہی تو اُس نے سمجھایا کہ اگر دین سے اجتہاد نکال دیا جائے تو دین جامد ہوجائے گا ، لوگ اُس سے بیزار ہونا شروع ہوجائیں گے اور جدید دور کے مسائل کے حل کیلئے کوئی اور در کھٹکھٹائیں گے ،اسی طرح اگر کوئی سیاسی جماعت اپنی پالیسیوں اور حکمت ِ عملی میں جامد ہوجائے تو وہ بھی قصہ پارینہ بن جاتی ہے ، وقت نہیں رکتا، آگے نکل جاتا ہے اور لوگ کسی ایسی جماعت کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں جو سیاسی اجتہاد کے ذریعے اُن کیلئے نئے دروازے کھولتی ہے۔اِس جملے نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔

پہلے دین میں اجتہاد کی بات کرتے ہیں۔آج کل ایک بات نہایت شدو مد سے کی جاتی ہے کہ نوجوان دین سے دوری اختیار کر رہے ہیں،چونکہ نت نئی سائنسی ایجادات نے مذہب کے دعوؤں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اِس لیے نوجوانوں کے ذہنوں میں بہت سے جائز سوالات ابھرتے ہیں جن کا انہیں تسلی بخش جواب نہیںملتا۔ اِس کے علاوہ ماڈرن سوسائٹی کے تصورات نے بھی مذہب پر کاری ضرب لگائی ہے،مثلاً نا بالغ لڑکی سے شادی، غلامی اور دیگر ایسے پیچیدہ مسائل، جن کے بارے میں آج کل کے نوجوان سوال کرتے ہیں تو جواب میں انہیں سینکڑوں سال پرانی لکھی ہوئی تفسیر کی روشنی میں جواب دے کرخاموش کروادیا جاتا ہے جس سےمسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید بگڑ جاتا ہے اورنوجوان مطمئن نہیں ہوتے۔اسی مسئلے کے حل کیلئے دین ِ اسلام میں اجتہاد کی اجازت دی گئی تھی لیکن بد قسمتی سے علمائے کرام اجتہاد کی افادیت کو تسلیم تو کرتے ہیں، کیونکہ اِس کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ ہی نہیں ، مگر عملاً اجتہادنہیں ہونے دیتے۔غلامی اور نا بالغ بچی کی شادی والی آیات کو لے لیں، ہمارے علما سیدھی طرح اجتہاد کرنے کی بجائے اِن کی تاویلات میں پڑے رہتے ہیں اور یوں اچھے بھلے دیندار لوگوں کو دین سے بد گمان کردیتے ہیں۔حالانکہ ایک سیدھی سی تشریح سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے کہ جس زمانے میں غلامی اور کم عمری کی شادی کو دنیا کا ہر معاشرہ قابل قبول سمجھتا تھایہ آیات اُس زمانے کی ہیں، اسلام کا اعجاز تو یہ ہے کہ اُس نے چودہ سو سال پہلے غلامی سے خود کو پرے کرنے کا حکم دیا جب دنیا کی کوئی تہذیب اِس بارے میں سوچ بھی نہیں رہی تھی ۔ سقراط، افلاطون اور ارسطو ، جن کے افکار پر آ ج پوری مغربی تہذیب کھڑی ہے ، غلامی کو نا صرف جائز سمجھتےتھے بلکہ اُس کے دفاع میں انہوں نے دلائل کا انبار لگایا ۔یہ اُس وقت کی باتیں تھیں، پھر وقت گزرا، تہذیب نے ترقی کی ، انسان کو مزید شعور آیا تو اُس نے بمشکل ڈیڑھ سو سال پہلے غلامی ختم کی۔اگر یہی کام مسلم علما اجتہاد کے ذریعے کر دیتے تو کیا دین اِ سلام کی زیادہ بہتر خدمت نہ ہوتی ؟چونکہ اِس قسم کے پیچیدہ مسائل اجتہاد کے ذریعے نہیں نمٹائے گئے اسی لیے آج کا نوجوان یا تو دین سے دوری اختیار کر رہا ہے یا پھر وہ اُن دینی عالموں کی طرف رجوع کر رہا ہے جو اجتہاد کا نام لیے بغیر اجتہاد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اُن کی فالوؤنگ روایتی علما سے زیادہ ہے۔

میں معافی چاہتا ہوں تمہید میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا۔اجتہاد ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر پھر کبھی تفصیلاً لکھوں گا۔ اِس مثال کواب سیاسی جماعتوں پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں۔ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہےجس میں وہ بات صحیح لگتی ہے ،مگر وقت ایک جیسا نہیں رہتا، جو انسان خود کووقت کے مطابق نہیں ڈھالتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے اور وقت اسے روند کر آگے بڑھ جاتا ہے ۔ایک اور مثال دیکھیے۔آپ میں سے جو لوگ اسّی کی دہائی میں پیدا ہوئے اُن کا لڑکپن ایک کمپنی کے نام سے یقیناً آشنا ہوگا، کوڈک۔1888 میں قائم کی گئی یہ کمپنی فوٹوگرافی کے میدان میںاجارہ دارہ رکھتی تھی لیکن یہ کمپنی اکیسویں صدی میں برپا ہونے والے ڈیجیٹل انقلاب کو نہ بھانپ سکی، نتیجے میں کیا ہوا؟جیسے جیسے دنیا ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہوئی، کوڈک کا زوال تیز ہوتا گیا۔ 2000 کی دہائی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی آمد نے فوٹو گرافی کے منظر نامے کو یکسر تبدیل کردیا، لوگوں نے آن لائن تصاویر شیئر کرنے کی حیرت انگیز سہولت کی وجہ سے ڈیجیٹل کیمروں کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ کوڈک کو اُس وقت ہوش آئی جب پانی سر سے گزر چکا تھا، کمپنی نے ڈیجیٹل فوٹوگرافی میں قدم تو رکھا مگر نیم دلی سے،ایک تو دیر ہوچکی تھی اور پھر اُس وقت تک کوڈک کی حریف کمپنیاں میدان پر چھا چکی تھیں اور اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے جس جارحانہ حکمت عملی کی ضرورت تھی ،کوڈک میں اُس کا تصور بھی نہیں تھا۔جب تک کوڈک کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تب تک دیگر کمپنیاں کوڈک کو پچھاڑ چکی تھیں۔پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا،فلم کی فروخت میں کمی اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے پیش نظر کوڈک کی مالی حالت ابتر ہوگئی،پرنٹرز اور ڈیجیٹل کیمروںکی دنیامیں قدم رکھ کرکوڈک نے اپنا احیا کرنے کی کوشش تو کی مگر بے سُود۔بالآخر 2012میں کوڈک نے دیوالیہ پن کیلئے درخواست دائر کردی۔

مذہبی اجتہاداور کارپوریٹ دنیا کی یہ مثالیں کوئی اچھوتی نہیں، اِن میں فقط ایک ہی سبق ملتا ہے کہ اگر آپ جامد ہوگئے تو دنیا آپ کیلئے محض اِس لیے نظریں نہیں بچھائے گی کہ کسی زمانے میں آپ بہت اچھے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا، آج کی دنیا تو ہر روز بدلتی ہے،اسّی یا نوّے کی دہائی میں جو تبدیلی دس سال میں آتی تھی آج وہی انقلاب دس دن میں آجاتا ہے اور ہمیں احساس ہی نہیں ہو پاتا۔ سیاسی جماعتوں کو بھی یہ بات سیکھ لینی چاہیے کہ پاکستان کی سیاست اورمعاشرت اب وہ نہیں رہی جو آج سے چالیس سال پہلے تھی،اِس دور کی کمیونیکیشن اسٹرٹیجی نوّے کی دہائی سے یکسر مختلف ہے ، اگر آپ نے اب بھی اجتہاد نہ کیا تو لوگ آپ کا انتظار نہیں کریں بلکہ آگے نکل جائیں ۔اور شاید لوگ آگے نکل چکے ہیں۔ کوڈک کمپنی سے سبق سیکھیں، نیم دلانہ کوششوں کی بجائے جارحانہ حکمت عملی اپنائیں، شاید کچھ بچت ہو جائے!

تازہ ترین