• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں ادب کا میلہ دیکھنے ہم بھی گئے۔ جاکر دیکھا۔ وہ تو حیرت کا میلہ نکلا۔ ادب کے نام پر سویرے ہی سے سینکڑوں لوگ چلے آرہے تھے۔ جوق در جوق کا عالم تھا جہاں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ ایک مجمع کراچی کے ایک قدیم بڑے مقامی ہوٹل کے بیچ کیسے سما گیا، یقین نہیں آتا۔ عقل حیران ہے کہ آج کے پُر آشوب دور میں جب گھر سے نکلتے ہوئے خوف ساتھ ہولیتا ہے، والدین اپنے بچّوں کو ساتھ لے کر شہر سے ذرا پرے،سمندر کے کنارے سجائے گئے اس میلے میں کس خوشی سے شریک ہو رہے تھے۔ میلہ، جسے اس کے منتظمین جشن کہتے ہیں، دکانوں ، اسٹالوں ، نمائش گاہوں اور کھیل تماشوں سے آراستہ نہیں تھا پھر بھی پورے پورے کنبے آرہے تھے۔ ہوٹل کی سماعت گاہوں میں ادب،معیشت اور تاریخ کی باتیں ہو رہی تھیں۔ کہیں نثر کے چرچے تھے اور کہیں نظم کے تذکرے۔ بڑے بڑے مصنف اپنے کام کی باریکیاں سمجھارہے تھے۔ وہ اپنی تازہ کتابوں کی رونمائی کر رہے تھے۔ افسانے اور ناول کی بات ہو رہی تھی۔ اداکار اپنے جوہر نہیں دکھا رہے تھے بلکہ اس کی خاطر ہونے والی مشقّت کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ دنیا کی سیاست کو سمجھنے والے ہر لمحہ بدلتی دنیا کے نت نئے رُخوں کی نشان دہی کررہے تھے۔ان سب سے الگ ایک بڑی نیکی سرانجام پارہی تھی اور وہ یہ کہ جشن میں آنے والے بچوں کے دل بہلائے جارہے تھے۔ باتوں باتوں میں انہیں کتنی ہی کام کی باتیں بتائی جارہی تھیں۔ ان کے لئے بنائے گئے بہت بڑے پنڈال سے بار بار قہقہوں اور تالیوں کا شور بلند ہوتا جوماندہ دلوں میں آس بندھاتا تھا اور روح میں ایک دعا کی شمع روشن ہوتی کہ یہ فرشتوں جیسے نونہال زمانے کی دستبرد سے محفوظ رہیں۔ اُن کے ہونے سے یقین ہوتا تھا کہ ہم رہیں یا نہ رہیں ، ادب کے نام پر ایسے بارونق میلے ضروررہیں گے۔
کراچی میں اس نوعیت کا یہ پانچواں جشن تھا۔ اس کا اہتمام عالمی اشاعتی ادارہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کرتا ہے۔ اس مناسبت سے اس میں شرکت کرنے کے لئے صرف مقامی ہی نہیں، دنیا بھر کے اکابرین کراچی آتے ہیں اور دنیا کے نقشے پر چند روز کے لئے سہی، روشنیوں کایہ شہر ایک بار پھردرخشاں ہو جاتا ہے اور اسی مناسبت سے میلے میں کتابوں کی نمائش اور فروخت خوب خوب ہورہی تھی۔ ہم نے دیکھا کہ اسی تعلق سے علم و آگہی کی گفتگو بھی جاری تھی۔کچھ ایسا منظر تھاکہ جودروازہ کھولئے اس کے پچھواڑے حکمت و دانش کے دریا رواں تھے۔ گزرے ہوئے زمانے، آج کا دور اور آنے والی گھڑیاں ، یہ سب گفتگو کا عنوان بنے ہوئے تھے۔ مورخ ان کو پرکھ رہے تھے اور جو ہوچکا ، اس کی بنیاد پر آنے والے دنوں کی نشان دہی کر رہے تھے ۔کہیںکہیں بڑے ستانے والے سوال موضوع بن رہے تھے، کہیں اتفاق کی کیفیت تھی اورکہیں اختلاف پر آوازیں اونچی ہورہی تھیں۔ کہیں بہت ہنسانے والی داستانیں بیان ہورہی تھیں۔ جہاں یہ سب نہیں تھا وہاں سُر بکھیرے جارہے تھے اور جہاں سُروں نے ہلچل مچائی وہیں سُر رقص میں ڈھل گئے تھے۔
داستانوںپر یاد آیا کہ میلے میں ہم نے ایک اور عجوبہ دیکھا۔ وہ جو پُرانے زمانوں میں داستان گو ہوا کرتے تھے وہ خدا جانے کہاں سے لوٹ آئے۔ دانش حسین، دارین شاہدی اور محمود فاروقی بھارت کے فلم ساز ، اداکار اور ڈرامہ آرٹسٹ ہیں لیکن خالی وقت میں وہی تینوں قصّہ گو ہو جاتے ہیں۔ انہیں لمبی لمبی قدیم داستانیں زبانی یاد ہیں اور جملے پر جملہ اور فقرے پر فقرہ اس روانی سے سنائے جاتے ہیں کہ ذرا دم لینے کو بھی نہیں رکتے۔سر تاپا سفید لباس پہنتے ہیں۔ کبھی مسلمانوں کی داستانیں سناتے ہیں اور کبھی ہندووں کی کتھائیں، بس اس مناسبت سے اپنی ٹوپیاں تبدیل کرلیتے ہیں۔اوپر سے کمال یہ کہ قدیم داستانوں کے زیر زبر پیش اور شین قاف بالکل صاف اور تلفظ بے حد صحیح ۔ بس ضیا محی الدین سے ذرا کم۔ ضیا صاحب نے بھی اپنا جلسہ سجایا اور نئی پرانی تحریریں اور نظمیں یوں سنائیں جیسے چاندی کے پانی میں دھلی ہوئی ہوں۔ ان کو سننے کے لئے بڑا مجمع آیا لیکن ناہید صدیقی سے ذرا کم۔ناہید نے غالب او رفیض کے کلام کو رقص کے اوراق پر متحرک تصویر کر دکھایا۔ایک اور عجوبہ فرانسیسی نوجوان ژولیاں تھا جسے لاہور ایسا بھایا کہ بیس برس سے وہیں آباد ہے اور ہم لوگوںکی طرح اردو بولتا اور لکھتا ہے۔ژولیاں کے لکھے ہوئے تین اردو ناول شائع ہو چکے ہیں۔ جشن ادب میں سب سے نمایاں شخصیت گاندھی جی کے پوتے ڈاکٹر راج موہن گاندھی کی تھی۔ بھارت سے آئے تھے اور اپنے ساتھ علم و دانش کا خزانہ لائے تھے۔ ان کی گفتگوسننے کے لئے بڑا مجمع آیا تھا جس نے کھلے میدان میں بیٹھنے کے باوجود ان کا کہا ہوا ایک ایک لفظ توجہ سے سنا۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ تاریخ کے آدمی ہیں لیکن آج کی دنیا پر جیسی ان کی نگاہ ہے، شاید ہی کسی کی ہو۔ ہر ایک سے یوں ملتے ہیں جیسے پرانے ملاقاتی ہوں اور ان کے منہ سے صاف اردو سن کر گاندھی جی کی وہ اردو تحریر یاد آتی ہے جو انہوں نے جناح صاحب کو لکھی تھی۔ خصلتیں تو خاندان میں چلتی ہی ہیں، عظمتیں بھی چلتی ہیں۔
اس ادبی میلے کا ایک دلچسپ حصہ میلے سے باہر سمندر کے کنارے لنگر انداز اُس بڑی سی کشتی پر تھا جس پر صبح سویرے ناشتے کا بندوبست تھا۔ فروری کی صبح کی وہ ہلکی سی خنکی اور سمندر کے پانی سے لگی لگی چلنے والی ہوا ، اس کے ساتھ بھاپیں اٹھتی ہوئی گرم چائے اور تازہ تازہ حلوہ پوری میں وہ لطف نہ تھا جو ہر صبح انتظار حسین اورمسعود اشعر کے ساتھ گزارے ہوئے وقت میں تھا۔ ان کی باتوں میں جو مزا تھا سو تھا، اصل لطافت انتظار حسین کی پرندہ نوازی میں تھی۔ انہیں ہر صبح یہ خیال ستاتا تھا کہ ہم اتنا لذیذ ناشتہ کر رہے ہیں توپانی پر منڈلانے والی مرغابیاں اس سے کیوں محروم رہیں۔ وہ بڑے اہتمام سے روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے توڑ کر ایک طشت میں جمع کرتے اور کشتی کے کنارے پر جا کر پرندوں کے لئے پھینکتے۔ پرندے صبح کے ناشتے پر شوق سے جھپٹتے ۔اُس وقت یہ قیاس کرنے کو جی چاہتا کہ ہو نہ ہو ، انتظار حسین کے ذہن میں کسی نئی کہانی کے نقش ابھررہے ہوں گے۔
کوئی مانے یا نہ مانے، اس ادبی میلے سے جو بہترین کام نکلا وہ احباب سے ملاقاتوں کا تھا۔ منظر یہ تھا کہ میلہ گاہ میں داخلے کے دروازے سے ایک خلقت اندر چلی آرہی تھی اور راہ داری سے گزر رہی تھی۔اب آپ کچھ نہ کیجئے اور سامنے سے آنے والوں کے چہرے دیکھتے جائیے۔ کیسی کیسی شنا سا صورتیں ہیں کہ قریب آتی جاتی ہیں۔ وہ پرانے جاننے والے، وہ نئے چاہنے والے ایک ہجوم کی صورت چلے آتے ہیں اور ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہماری بانہیں آپ ہی کھل جاتی ہیں اور سینے خود ہی فراخ ہوئے جاتے ہیں۔ اسکول کے زمانے کے پرانے طالب علم، صحافت کے دنوں کے وہ ساتھی، ریڈیو کے زمانے کے ملاقاتی ، بعض پہلی ہی نظر میں پہچانے گئے، بعض کو دیکھ کر منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ آپ کو کہیں دیکھا ہے۔ ایک خاتون کودیکھا۔ میں نے کہا کہ تم وہی چھوٹی سے لڑکی تو نہیں جو پورے بتیس برس پہلے حیدرآباد سندھ میں میرے سامعین کی ٹی پارٹی میں ملی تھیں۔ جواب ملاکہ جی میں وہی عابدہ ہوں اور کیا آپ کو میری سہیلی شاہدہ یاد نہیں۔ وہ بھی یاد تھی۔ عابدہ نے جھٹ ٹیلی فون نکالا اور اسی وقت نمبر ملا کر حیدر آباد میں شاہد ہ سے بھی بات کرادی۔ عابدہ اب دو بچوں کی ماں اور کامیاب ایڈووکیٹ ہے۔ اس روز مجھے محسوس ہوا، دنیا بدلی نہیں، بڑی ہوگئی ہے۔ ٹی پارٹی والے دن میں نوآموز براڈکاسٹر تھا اور ادبی میلے والے روز میری سوانح کی رسم اجرا تھی۔ کتاب خرّم سہیل نے لکھی تھی، لوگ آٹو گراف میرے لے رہے تھے۔مجھے دوبارہ خیال آیا۔دنیا بدلی نہیں تھی۔
یہ تھا وہ میلہ۔ وہی میلہ جس میں کھوجانے کو جی چاہتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ہم کھوئیں اور کوئی ہمیں آواز دے، کوئی ہم کو پکارے کہ انسانی رشتوں کی یہی معراج ہے۔ ہے کہ نہیں؟
تازہ ترین