• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تصویر بناتا ہوں، تصویر نہیں بنتی، اک خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہیں بنتی،معاف کیجئے گا ! ملکی سیاسی منظرکشی میں بھارتی فلم کے ایک یادگار گیت کے خوب صورت مگر اداس کردینے والے اشعار یاد آگئے۔یقیناًشاعر نے یہ گیت اپنی محبوبہ کی جدائی میں لکھا ہوگا جو سننے والوں کے دلوں پر اثر انداز اور ماحول کو اداس سے اداس تر کرتا چلا جاتا ہے۔ ایسی مایوسی کہ دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا۔ 8 فروری کے رلے ملے انتخابی نتائج بھی کچھ ایسے ہی المیہ ہیں، بڑے بڑوں کے ارمانوں کا خون ہوا ہے۔ بہت ساروں کی محبتیں ساتھ چھوڑ گئی ہیں۔ اکثر اپنی محبوبہ کی جدائی میں مجنوں بنے سر میں خاک ڈالے ویرانوں میں خوار ہو رہے ہیں کہ جیسے ان کی زندگی میں اب کبھی بہارلوٹ کر نہیں آئے گی۔ نتائج ایسے ہیں کہ عاشق اور معشوق دونوں ہی غم سے نڈھال ہیں۔ ہر کوئی اس کوشش میں ہے کہ اس ”فلم “ کی ہیپی اینڈنگ ہو۔ ہم مائنس نوازشریف کے بعد شہبازشریف کو فلم کا ہیرو بنتا دیکھ تو رہے ہیں لیکن تدبیر نہیں بنتی کہ یہی فلم کا سسپنس ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال میںیہ فلم کیسے سپرہٹ ہوگی؟ مولانا صاحب اس وقت ولن بنے ہاتھ میں گنڈاسہ اٹھائے میدان میں کھڑے اسٹیبلشمنٹ کو للکار اور اپنے دیرینہ دوستوں کو بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ موجودہ صدی کا یہ سب سے بڑا کرشمہ رونما ہوا ہے کہ قیدی نمبر804 کو یک دم یہ احساس ہونے لگا کہ اگر میدان خالی چھوڑا تو مستقبل میں کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔ یہ کسی کے دم درود کا نتیجہ ہے یا پھر انہیں کوئی نیا ”سائفر “ موصول ہوا ہے کہ اچانک اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف دشمن نمبر1 مولانا، کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ایک ہی دن میں بیرسٹرسیف کے ذریعے امریکہ کو انتخابی نتائج پر ”مداخلت “ کا ”سائفر“ ارسال کیا تو دوسری طرف اسد قیصر کی قیادت میں پی ٹی آئی کا وفد بڑے مولانا کے گھر بھیج کر دھاندلی کے خلاف احتجاج اور پارلیمان میں عمرایوب کی وزارت اعظمیٰ کے حق میں ووٹ اور تعاون مانگ کر ملک گیر احتجاج کا اعلان بھی کردیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ قیدی نمبر804 اپنی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا یوٹرن لینے پر مجبور ہوگیا ہے معلوم نہیں وہ کسے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے یا سیاسی خودکشی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی جوڑتوڑ تودیکھے ہیں لیکن یہ تو بالکل ہی انوکھا سیاسی رابطہ ہے۔ لگتا ہے کہ سیاسی فریقین خودکش بمبار بننے جا رہے ہیں۔ گیم ابھی آن ہے۔ واقعات کا تجزیہ یہاں سے شروع کریں کہ چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر اینٹی عمران الائنس (پی ڈی ایم) کے رہنما اکٹھے ہوتے ہیں مشترکہ پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کے امیدوار برائے وزارت اعظمیٰ کی حمایت کا اعلان کیا جاتاہے۔ شہبازشریف اپنے بڑے بھائی میاں نوازشریف کا نام تجویز کرتے ہیں۔ آصف زرداری اس موقع پر پاکستان کھپے کا نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ میری خواہش ہے کہ تحریک انصاف بھی حکومت میں شامل ہو۔ بلاول بھٹو نون لیگ کی متوقع حکومت کے ساتھ چلنے کےبارے میںتحفظات کا اظہار کرتے ہیں وہ وفاقی کابینہ کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے۔ اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کے ناکام ہونے یا گرنے کا انتظارکرنا چاہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نون لیگ سے صدر ،اسپیکرقومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ کے مضبوط ترین آئینی عہدے۔ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ، چاروں صوبائی گورنروں کے عہدوں کا مطالبہ کررہی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر ہونے والی پریس کانفرنس کے اگلے روز مولانا صاحب مولا جٹ بنے بڑھکیں مارتے میدان میں اترتے ہیں کہتے ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں نہیں تو پھر ہمیں کسی کا اقتدار بھی قبول نہیں۔ ہم یہ نظام نہیں چلنے دیں گے۔ اب فیصلے پارلیمان نہیں میدان میں ہوں گے۔ ساتھ ہی بانی پی ٹی آئی کی لائن پر چلتے ہوئے کچھ سچے جھوٹے اعتراف اور انکشاف کرتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد جنرل (ر) قمرجاوید باجوہ اور فیض حمید کی آشرباد کا نتیجہ تھی۔ مولانا غصے میں حقائق سے کچھ زیادہ ہی برعکس بول گئے ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے غلط وقت پر دانستہ اعتراف جرم کرکے کسی انجانے شخص کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترتیب وار واقعات کا جائزہ لیں تو آصف زرداری کی پی ٹی آئی کو شریک اقتدار کرنے کی خواہش پر شیرافضل مروت نے نیا شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ زرداری صاحب جس رات مشترکہ پریس کانفرنس میں شریک تھے اسی رات وہ پی ٹی آئی والوں سے رابطوں کی کوشش بھی کرتے رہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے شیرافضل مروت کو کامیڈین قرار دے کر بات تو ختم کردی ہےلیکن فلم ابھی باقی ہے۔ نظام دین کی بیٹھک کے دروازے اب سب کیلئےکھلے ہیں۔ کچھ گارنٹیاں، یقین دہانیاں اور مائنس آل کی بنیاد پر رابطہ کاری چل رہی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کیلئے آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ اِکا دُکا رہنماؤں کی رہائی سہولت کاری کی ابتدائی نشانیاں ہیں۔ اڈیالہ جیل میں عدالتی حکم پر سیاسی ملاقاتوں کی راہداری کھل چکی ہے۔ اب پیغام رسانی پہلے سے زیادہ آسان طریقے سے ہو رہی ہے۔ نظام اپنا کام کر رہا ہے ،سیاست دان اپنا۔ چیف جسٹس کا بھی یہی مشورہ ہے کہ سب اپنے اپنے مینڈیٹ میں رہ کر کا م کریں۔ایوان صدر میں بھی الہ دین کے چراغ روشن ہو رہے ہیں۔ عرصہ سے خاموش بیٹھے ”بوتل کے جن“ نے اپنی جھلک دکھانا شروع کردی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بجھتے چراغ کی آخری ٹمٹماہٹ کیا رنگ لائے گی۔ ”بوتل کا جن“ اپنے ”آقا“ سے کہہ رہا ہے کہ حکم کریں کیا چاہئے۔ نون لیگ ،پیپلزپارٹی کے درمیان مذاکرات کے راؤنڈ پر راؤنڈ چل رہے ہیں۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ جو صدارت مانگ رہے ہیں وہ بھی مائنس ہونے جا رہے ہیں۔ ڈیڈ لاک کی صورت میں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔

تازہ ترین