محفل پر اچانک سکتہ طاری ہوگیا۔ بات ہی کچھ ایسی ہوئی تھی۔ ہم سب دم بخود رہ گئے۔ کچھ دیر تک کسی کی کوئی آواز نہ نکلی، پھر میں نے ہمت کرکے کہہ ہی دیا ’دیکھئے یہ بات ہر ایک پر منطبق نہیں ہوتی، ہر گھر کے اپنے مسائل ہوتے ہیں‘۔ رئو ف صاحب نے ٹشو نکالا، آنسو پونچھے اور میری طرف چہرہ کیا’کیا یہ گھر گھر کی کہانی نہیں؟ ‘۔ میں نے دیگر افراد کی طرف نظر ڈالی، کچھ بے نیازی سے موبائل فون میں گم ہوگئے، کچھ نے ٹی وی اسکرین پر نظریں گاڑ دیں اور کچھ ہتھیلیاں مسلنے لگے۔ صاف لگ رہا تھا کہ رئوف صاحب کی بات سے کوئی اختلاف کرنے کی جرات نہیں کر رہا اسی لیے سب ایک دوسرے سے نظریں چرا رہے ہیں۔
ہم سب ایک مشترکہ دوست رئوف صاحب کے گھر کھانے پر مدعو تھے۔ بات تعلیم کی ہورہی تھی۔ ہر دوست بڑھ چڑھ کر تعلیم کے حق میں دلائل دے رہا تھا۔سب کا زور اس بات پر تھا کہ ملک کے مسائل کا حل تعلیم عام کرنے میں ہے۔ اسی اثناء میں رئوف صاحب کی بات نے سب کو چونکا دیا۔ وہ گرج کر بولے’تعلیم ہی سب کو بے شعور بنا رہی ہے‘۔ یہ سنتے ہی سب رئوف صاحب پر برس پڑے۔تعلیم تو شعور دیتی ہے، آپ تعلیم کو کیسے الزام دے سکتے ہیں۔ جواب میں رئوف صاحب نے پانی کا گلاس بھرا۔ ایک گھونٹ لیا اور گویا ہوئے۔’تعلیم شعور دیتی ہے تو بچے جوں جوں بڑی کلاسز میں جاتے ہیں بدتمیز کیوں ہوتے جاتے ہیں؟۔ ‘ ہم سب ایک دوسرے سے نظریں چرانے لگے۔ رئوف صاحب نے مٹھیاں بھینچیں’آج کل کا بچہ باپ کے سامنے تن کر کیوں کھڑا ہوجاتاہے، یہ تعلیم حاصل کرنے والی نسل جس باپ سے کالج یونیورسٹی کی فیسیں لیتی ہے، جیب خرچ لیتی ہے، مختلف بہانوں سے پیسے اینٹھتی ہے،بعد میں اُسی باپ کو آنکھیں بھی دکھاتی ہے؟ ان سے ذرا سختی سے بات کی جائے تو یہ اپنی بات ہی خود کشی سے شروع کرتے ہیں جسے سن کر ماں باپ کی تمام دلیلیں منتوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔یہ ہر بات میں اپنی مرضی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان سے پوچھ لیں تو یہ ماں باپ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ یہ اپنے دوستوں میں بیٹھ کر والدین سے نفرت کی داستانیں سناتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمدردیاں سمیٹ رہے ہیں۔یہ کون سی تعلیم حاصل کررہے ہیں جس نے انہیں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز ہی بھلا دی ہے۔ یہ اپنے ٹیچرز سے بات کرتے ہوئے پھر بھی ذرا لہجہ نرم رکھتے ہیں لیکن ماں باپ سے بات کر رہے ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے ماں باپ اِن کے بچے ہیں۔یہ سمجھتے ہیں ماں باپ کو دنیا کا کچھ علم نہیں حالانکہ ماں باپ کو دنیا کا بھی علم ہوتاہے اور اولاد کا بھی ، لیکن بعض اوقات و ہ اولاد کا بھرم رکھنے کیلئے اُن کے کرتوت نہیں بیان کرتے۔خدا جانے یہ کون سی تعلیم ہے جو ہر وقت اِن کا بلڈ پریشر ہائی رکھتی ہے۔
یہ گھر سے باہر کتنے خوش رہتے ہیں لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی اِن کے اندر کا جن بیدار ہوجاتاہے۔ یہ جوں جوں تعلیمی میدان میں آگے بڑھتے جاتے ہیں مزید خونخوار ہوتے جاتے ہیں۔ ماں باپ تڑپتے پھرتے ہیں کہ ہمارا بچہ کہاں گیا، لیکن اِنہیں اتنا مزا پیزا ، برگر کھا کر نہیں آتا جتنا ماں باپ کو تڑپا کر آتاہے۔کیسی شاندار تعلیم ہے جو حاصل کرنے کے دوران سارا خرچہ بھی باپ نے اٹھانا ہوتاہے اور بعد میں نوکری بھی باپ نے ہی کسی کا منت ترلہ کرکے ڈھونڈنی ہوتی ہے۔بچپن میں ہم لوگ باپ کا تھپڑ کھا کر صرف رو سکتے تھے، جبکہ بولنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ یہ تعلیم یافتہ نسل تھپڑ کے نام سے ہی ناواقف ہے، انہیں باپ کا گھورنا ہی تھپڑ لگتا ہے اور جوابی طو رپر ایسی گھوری ڈالتے ہیں کہ باپ بھی سہم جاتاہے۔کس کام کی وہ شمع جو روشنی نہ دے سکے، کس کام کا وہ بازو جو باپ کو کندھا نہ دے سکے۔ کس کام کی وہ تعلیم جو کسی کو انسان ہی نہ بنا سکے۔کیسی عجیب بات ہے کہ تعلیم حاصل کرتا بچہ یہ کہے کہ ’مجھے نہ چھیڑیں مجھے پہلے ہی بہت ٹینشن ہے‘۔ کس بات کی ٹینشن؟ تعلیمی اخراجات سے لے کر ذاتی اخراجات تو اِن کا باپ بھر رہا ہے۔گھر کے بِل بھی باپ کے ذمہ ہیں۔اور پھر بھی ٹینشن اِن کو ہے،کیوں؟ ذرا جان کر دیکھئے،اِنہیں کبھی یہ ٹینشن نہیں ہوگی کہ اِن کی درسگاہ کی کوئی اسائنمنٹ ادھوری ہے، امتحان کی وجہ سے پریشان ہیں یا نصابی کتاب میں لکھی کوئی چیز سمجھ نہیں آرہی،یہ چیزیں اِن کی ٹینشن نہیں رہیں، اِن کی ٹینشن ہوگی کہ موبائل فون کا پینل چینج کروانا ہے، دوست کے ’بریک اپ‘ کا مسئلہ نہیں حل ہورہا،لمبے بال رکھنے ہیں یا چھوٹے، شیشے کا مطلوبہ فلیور نہیں مل رہا،آن لائن جو ایئرپوڈز منگوائے تھے وہ جینوئن ہیں یا کاپی۔نہ اِنہیں اپنی کوئی چیز سنبھالنی آتی ہے نہ کوئی چیز اپنی جگہ پر رکھنے کی تمیز۔ہمارے وقتو ں میں باپ گھر میں آتا تھا تو بچے گھر میں موجود ہوتے تھے۔ اب بچے گھر آتے ہیں تو باپ ایک کونے میں سہما ہوا پڑا ہوتاہے۔کیا یہی سکھا رہی ہے تعلیم اور تعلیمی ادارے؟
محفل میں خاموشی چھا گئی ....اورکچھ ہی دیر میں ٹشو کا ڈبہ خالی ہوگیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائےدیں00923004647998)