معروف ناول نگار، ڈرامہ نگار اور افسانہ نگار بانو قدسیہ کو قارئین سے بچھڑے 5 برس بیت گئے۔
بانو قدسیہ 28 نومبر 1928ء کو بھارت میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں اور تقسیمِ ہند کے بعد لاہور آ گئیں۔
انہیں بچپن سے ہی اردو ادب کا بے حد شوق تھا اور اکثر اوقات رسالے پڑھا کرتی تھیں تاہم انہوں نے اردو ادب میں ہی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔
پڑھنے لکھنے کے شوق کی وجہ سے انہوں نے اپنے کالج کے زمانے سے ہی رسالوں میں لکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ انہوں نے ریڈیو کے لیے بھی لکھنا شروع کیا۔
اردو ادب سے بے حد لگاؤ کے باعث انہوں نے اردو میں متعدد ناول لکھے جن میں ’راجہ گدھ‘ اور ’امر بیل‘ اس قدر مشہور ہوئے کہ ان کا نام بہترین ناول نگاروں میں شامل کیا جانے لگا۔
بانو قدسیہ اسٹیج شو اور ٹیلی ویژن کے لیے بھی پنجابی اور اردو زبان میں ڈرامہ اسکرپٹ لکھا کرتی تھیں، ان کے ڈراموں میں ’پیا نام کا دیا‘، ’فٹ پاتھ کی گھاس‘، ’آدھی بات‘ اور دیگر شامل ہیں۔
بانو قدسیہ وہ لکھاری ہیں جن کی تحریر میں محبت کی تلخ حقیقت، شگفتگی، شائستگی اور اردو زبان پر مضبوط گرفت نظر آتی ہے۔
انہوں نے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے شادی کی جن کا اردو ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔
بانو قدسیہ کی بہترین تحریروں اور اردو ادب میں بہترین کارکردگی پر 1983ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں ہلالِ امتیاز اور 2010ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ انہوں نے 2012ء میں کمالِ فن کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔
بانو قدسیہ شدید علالت کے باعث 4 فروری 2017ء کو دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں لیکن اردو ادب میں ان کے خلاء کو کوئی پُر نہیں کر سکتا۔