• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ نے تاریخ کے نازک ترین موڈ پر، جب ملک سیاسی اور انتظامی انتشار کا شکار ہے، انتخابی عمل کے دوران بڑے پیمانے پر دھاندلی کا دعویٰ کیا جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں انجانے خوف کی طرح پھیل گیا ہے۔سیاسی اور عوامی حلقوں میں ہلچل اور حکومتی حلقوں کی جانب سے وضاحتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔مختلف اطراف سے سیاسی اور غیر سیاسی طبقات کے علاوہ سوشل میڈیا Conspiracy Theory پیش کر کے عدم استحکام اور سیاسی منافرت کی شدت میں اضافہ کرنے میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ان تمام حالات میں بظاہر تحریک انصاف اور مسلم لیگ )ن( کے درمیان سیاسی جنگ کی کیفیت ہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف نے ایک بار پھر قومی اور بین الاقوامی سطح پر سوشل میڈیا بریگیڈ کو فعال کردیا ہے۔ "دھاندلی شوشہ" کا سب سے زیادہ فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی ہے اور حالات ری الیکشنز کی جانب دھکیل رہی ہے تاکہ پورے ملک میں بلاروک ٹوک اور بلاشرکت غیرے ایسا راج قائم کیا جا سکے جس کے ذریعے اپنے "مخصوص ایجنڈے" کی تکمیل کا خواب پورا کرسکے جبکہ مسلم لیگ )ن( اس لئے وہ واحد پارٹی ہے جسے سب سے زیادہ سیاسی نقصان کا سامنا ہے کیونکہ وہ اپنی حکومت قائم کرنے کے عمل سے گزر رہی ہے اور اسی بنیاد پر حکومت کی بجائے دھاندلی تھیوری کا بوجھ اپنے کندھوں پر لے لیا ہے جس کے لئے نواز لیگ باقی سیاسی جماعتوں کے برعکس ایسا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہے جس کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کےدرمیان دھاندلی تھیوری کی "تائید اور تردید" کی سچ اور جھوٹ کی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے، اس جنگ کا نقصان بھی مسلم لیگ )ن( کو اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ ایک تو عوام کسی طور بھی اسٹیبلشمنٹ یا حکومت کا مؤقف تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جس کی بنیاد پر مسلم لیگ )ن( اس مقابلے میں عوامی مقبولیت کھو سکتی ہے اور تحریک انصاف اس رحجان کا فائدہ اٹھانے کے لئے تیار ہے۔لیکن عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ لیاقت علی چٹھہ نے ایسا کیوں اور کس کی پشت پناہی میں اس قدر سنگین اور تباہ کن قدم اٹھایا،کسی مؤثر اور مدلل جواب کی بجائے طرح طرح سے سوشل میڈیا کے بے لگام ٹرالرز کے ذریعے Conspiracy Theories پھیلا کر عوام میں بے یقینی اور عدم تحفظ کا احساس اجاگر کیا گیا۔ایک گمراہ کن تھیوری کے ذریعے عوام کے ذہنوں میں بغاوت کا زہر انڈیلا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کوشش کے باوجود تحریک انصاف کو ہرانے میں ناکام ہوگئی ہے اور محتاط جمع تفریق کے باوجود کارنر نہیں کرسکی جس کی تصدیق کمشنر راولپنڈی ڈویژن بلاخوف و تردید کر چکے ہیں۔دوسرا فریق سابق کمشنر کے بیانیہ کو سازش قرار دیتے ہوئے لیاقت علی چٹھہ کے تانے بانے تحریک انصاف سے جوڑ رہا ہے اور ان کے رابطے پی-ٹی-آئی کے اقابرین سے جوڑنے کی کوششوں میں ہیں۔ جبکہ ایک طبقہ سابق کمشنر کی اس حرکت کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش ثابت کرنے کا خواہشمند ہے لیکن تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ کی زہریلی کمپین کی وجہ سےانتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک گیر تحریک شدت اختیار کررہی ہے۔Conspiracy Theory کا ایک باب اس ساری کہانی کو فلمی ٹچ دینے کی کوشش میں مؤقف پیش کرتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ سابق کمشنر راولپنڈی ڈویژن نے پریس کانفرنس کسی شدید دباؤ کے تحت کی ہے کیونکہ پریس کانفرنس خلاف معمول کے برعکس کمشنر آفس میں کرنے کی بجائے راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں کیوں کی گئی۔ پریس کانفرنس کے دوران ماحول میں پراسراریت اور چہرے پر اطمنان اور خوف کے ملے جلے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں اور یہ بھی محصوص کیا جا سکتا ہے کمشنر نے جلد بازی میں ایسے پریس کانفرنس کی کہ انہیں محدود وقت میں "سکرپٹ" پڑھنا ہے اور پریس کانفرنس ہال سے باہر نکل جانا جیسے وہ اس کے پابند ہیں کہ انہوں نے کم سے کم وقت میں ڈرامے کا ڈراپ سین کرنا ہو۔یہ بیانیہ حقائق کا رخ بند گلی کی طرف مو ڈنے کی ایک کوشش ہو سکتا ہے۔ سنجیدہ سیاسی تجزیہ کاراس سیاسی اور قومی بحران کا فوری امکانی حل دوبارہ انتخابات، ایمرجنسی یا مارشل لاء کے نفاذ میں دیکھ رہے ہیں لیکن ان ترجیحات کو نظرانداز کرنے کی صورت میں 9 مئی کو سانحہ دوہراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ موجودہ حالات میں تحریک انصاف ماضی کی روایات قائم رکھتے ہوئے طاقت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کی کوشش کر سکتی ہے جس کے نتائج پہلے سے کہیں زیادہ ہولناک ہو سکتے ہیں۔

تازہ ترین