مرتّب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے والد مرحوم، پاکستان ریلوے کے لوکو شیڈ میں ڈیزل اورالیکٹرک وائرمین تھے۔ اُن دنوں ریلوے ملازمین کو سفر کے لیے مفت پاسز جاری کیے جاتے تھے، تو اُن مفت پاسز سے بہت سے ملازمین اپنی فیملی کے ساتھ دوسروں شہروں میں مقیم اپنے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے یا تفریحی مقامات پرچلے جاتے تھے۔ لیکن ہمیں اس سے استفادے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ میرے کلاس فیلو عمران کے، جو ہمارا پڑوسی بھی تھا، رشتے دار کراچی میں رہائش پذیر تھے۔
ایک روز اُس نے مجھ سے کہا کہ ’’تم لوگ تو کہیں آتے جاتے نہیں، ریلوے کی طرف سے دیئے جانے والے پاسز ضائع ہوجاتے ہیں، اگرتم وہ پاسز ہمیں دے دو، تو ہم بھی کراچی سے مفت میں ہوآئیں۔‘‘ چناں چہ مَیں نے اپنے والد سے ذکر کیا، تو انھوں نے ریلوے کے پاسز بنواکرمیرے حوالے کردیئے، مَیں نے اُنھیں وہ پاسز دیتے ہوئے کہا کہ ’’اگرمجھے بھی اپنے ساتھ کراچی لے جائو، تو مَیں بھی کراچی دیکھ لوں گا۔‘‘ اُنھیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا، مفت میں پوری فیملی کراچی جارہی تھی، تو انھوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ لے جانے کی ہامی بھرلی۔
اُس وقت مَیں جماعت پنجم میں زیر تعلیم تھا۔ خیر، مَیں اپنے دوست عمران کی فیملی کے ساتھ بذریعہ بولان میل کراچی کے لیے روانہ ہوگیا۔ ہم کراچی پہنچے، تو مَیں وہاں کی بلند وبالا عمارات دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ واہ، کیا کہنے کراچی کے۔ ناظم آباد کے علاقے میں عمران کے رشتے داروں کا گھر تھا۔ گھرکے قریب ہی ایک عالی شان جامع مسجد بھی تھی۔ جہاں ہم سب باقاعدگی سے نماز پڑھتے تھے۔ مسجد میں مجھے اصلاحی تحریک کے کچھ مبلّغ مل گئے، جو یونی ورسٹی روڈ پر واقع اصلاحی تحریک کے عالمی مرکزکے ہفتہ وار اجتماع میں جایا کرتے تھے۔ میری فرمائش پر مجھے بھی وہ اپنے ساتھ اس اجتماع میں لے گئے۔ مغرب کی نماز کے وقت جب ہم اصلاحی مرکز کی وسیع و عریض جامع مسجد میں داخل ہوئے، تو نمازیوں کی کثیر تعداد دیکھ کر میرا دل سجدہ ریز ہوگیا۔
مَیں نے پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک ساتھ نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ خیر، نمازِ عشاء کے بعد اصلاحی تحریک کا سحر انگیز خطاب سننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ خطاب کے اختتام پر جب لوگ مسجد سے نکلنے لگے، تومجھے بھی واپسی کی فکر دامن گیر ہوئی، لیکن جب آس پاس نظریں دوڑائیں، تو میرے ساتھ آنے والا کوئی شناسا نظر نہ آیا۔ سوچا آس پاس ہی ہوں گے، مل جائیں گے، مگر کافی تلاش کے باوجود بھی میرے ساتھ آنے والا کوئی نہ ملا، تو تشویش ہوئی، بالآخر تھک ہار کر مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا، مَیں تو کراچی میں انسانوں کے اس سمندر میں کسی سے واقف بھی نہ تھا۔
مجھے یوں پریشان بیٹھے دیکھ کر ایک صاحب نے قریب آکر مجھ سے پوچھا، تو میں نے سارا قصّہ سنادیا کہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا ہوں۔ وہ صاحب پاک فوج سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے مجھ سے اس علاقے کا نام دریافت کیا، جہاں میں مقیم تھا، مجھے صرف یہی پتا تھا کہ جہاں میں ٹھہرا ہوا ہوں، اُس علاقے کا نام ناظم آباد ہے، مَیں نے یہی نام بتایا تو کہنے لگے، ناظم آباد تو بہت وسیع و عریض علاقہ ہے، تم ناظم آباد کے کس حصّے میں رہتے ہوئے، لیکن مجھےاس کے علاوہ کچھ بھی پتا نہیں تھا،لہٰذا انھوں نے مجھے ناظم آباد کی بس میں بٹھایا اور کنڈکٹر کو ہدایت کی کہ ناظم آباد کے مین اسٹاپ پر اتار دے۔
خیر، ناظم آباد اسٹاپ پر اُتر کر تھوڑی ہی دُور چلا ہوں گا کہ مجھے مطلوبہ گلی مل گئی اور سامنے ہی وہ مسجد بھی نظر آگئی، جہاں سے ہم اصلاحی مرکز کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ خیر، جب مَیں میزبان کے گھر داخل ہوا، تووہاں عمران کی والدہ جائے نماز پر بیٹھی میری ہی سلامتی کی دعا مانگ رہی تھیں۔ مجھے دیکھا، تو فوراً سجدئہ شکرادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خیرخیریت سے گھر پہنچادیا۔ سچ ہے، اگر دُعا خلوصِ دل سے کی جائے اور جذبہ صادق ہو، تو اللہ ربّ العزت بھی مدد فرماتا ہے۔ (ابنِ غلام نبی، سبّی روڈ، کوئٹہ)