مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
اذانِ فجر سے پہلے ہمارے محلّے میں ہر روز ایک مخصوص آواز گونجتی، ’’بابو بھائی! اٹھ جائیں، ڈاکٹر اصغر صاحب، شبیرصاحب، علی حسن صاحب اور فلاں فلاں اٹھ جائیے، فجر کی اذان ہوچکی ہے، نماز ادا کرنے کے لیے مسجد آجائیں۔‘‘ یہ مخصوص صدا ہمارے محلّے کی ہر دل عزیز شخصیت عبدالصبورظفر لگایا کرتے، جنھیں ہم سب پیار سے ’’ظفر پاپا‘‘ کہتے تھے۔ ظفر پاپا شام کے وقت ہمیں کھیلتے دیکھتے تو کہتے۔ ’’ارے بھئی، اسحاق، عاصم کھیل ختم ہوگیا ہے، تو آجائو، مَیں نے گرم گرم گلاب جامن تیار کرلیے ہیں۔‘‘
ظفر پاپا سادہ طبیعت کے مالک ایک شریف النفس، نمازی، پرہیزگار، متقی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار انسان تھے۔ ہم ان دنوں ٹھٹھہ کےایک نواحی علاقے میں مقیم تھے، جہاں وہ ہمارے پڑوسی تھے۔ ان کا ایک بیٹا عاصم، میرا گہرا دوست اور چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ ظفر پاپا تہجد گزار تھے۔ تہجد کی نماز سے فارغ ہوکر باآواز بلند کلامِ پاک کی تلاوت کرتے، پھر جامع مسجد چلے جاتے، روزانہ فجر کی اذان وہ خود ہی دیا کرتے تھے۔ پھر باہر آکر محلّے کے لوگوں کو نیند سے بیدار کرکے فجر کی نماز ادا کرنے کی ہدایت کرتے۔ فجر کی نماز کے بعد اپنے دفتر چلے جاتے۔
شام کو دفتر سے واپس آکر نمازِ عصر کے بعد اپنے گھر میں پرندوں کو دانہ ڈالتے۔ ان کے آتے ہی پرندوں کا جھنڈ لگ جاتا، بڑی تعداد میں چڑیاں، جنھیں مقامی سندھی زبان میں ’’جھرکی‘‘ کہا جاتا ہے، دانہ چگنے آتیں۔ ظفر پاپا کا طویل عرصے سے معمول تھا کہ مغرب کی نمازکے بعد کھانا کھالیتے اورعشاء کی نماز کے فوراً بعد ہی سوجاتے۔ حلقہ احباب زیادہ وسیع نہیں تھا۔ 1980ء کی دہائی میں محلّے میں قائم پولیس اسٹیشن سے متصل خالی جگہ پر چند پولیس اہل کاروں نے اپنی سہولت کے لیے عارضی مسجد کی بنیاد رکھی اور اسے ’’مسجدِ رحمانیہ‘‘ کا نام دیا، جو بعدازاں پکّی مسجد کی شکل اختیار کرگئی۔
احاطے میں مدرسہ بھی قائم کیا گیا، جو الحمدللہ آج بھی قائم ہے۔ محلّے کے بچّے یہاں سے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں، راقم الحروف نے بھی یہیں سے دینی تعلیم حاصل کی۔ ظفر پاپا جب ریٹائر ہوئے، تو اپنا تمام تر وقت مسجد کے لیے وقف کردیا، اس کی دیکھ بھال، تزئین و آرائش میں جت گئے، صبح شام کی محنت اور علاقے کے صاحبِ ثروت افرد کے تعاون سے چھوٹی سی مسجد، عالی شان مسجد میں تبدیل ہوگئی، جس کے بعد ظفر پاپا مسجد ہی کے ہوکر رہ گئے، اُن کا زیادہ تر وقت مسجد ہی میں گزرتا، ان کا یہی معمول جاری تھا کہ اچانک بیمار ہوگئے اورجولائی2010ء کو مختصرعلالت کے بعد انتقال کرگئے۔ اُن کی خواہش کے مطابق ’’مسجد رحمانیہ‘‘ کے صحن میں انھیں دفن کیا گیا۔ ہم جب بھی اپنے آبائی شہر جاتے ہیں، تو اُن کی قبر پر فاتحہ خوانی ضرور کرتے ہیں۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔(آمین) (محمد اسحاق قریشی، اورنگی ٹائون، کراچی)