محمد عمیر جمیل، کراچی
آج سے تقریباً ایک ہزار برس قبل ایک درس گاہ میں علم حاصل کرنے والے تین ذہین اور ہوش یار دوستوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ تینوں میں سے جو سب سے پہلے کسی بڑے رُتبے پر پہنچا، تو وہ باقی دونوں دوستوں کو اپنے منصب و دولت میں شریک کرنے کا پابند ہوگا۔ یہ ایک تحریری معاہدہ تھا، جس پر ان تینوں نے اپنے دست خط کیے اور پھر ایک ایک نقل اپنے پاس محفوظ رکھ کر محفل برخاست کر دی۔
معاہدے کے چند برس بعد ان میں سے ایک دوست ترقّی کرتے ہوئے سلجوقی سلطان، الپ ارسلان کا وزیرِ اعظم بن گیا، جسے دُنیا خواجہ نظام الملک طوسی کے نام سے جانتی ہے۔ بعد ازاں، سلطان الپ ارسلان کے انتقال کے بعد نظام الملک طوسی سلجوقیوں کا حُکم ران بنا۔ دوسرا دوست، عُمر خیام ایک کیمیا دان کے طور پر مشہور ہوا۔ گرچہ تیسرے دوست، حسن بن صباح کو بھی خاصی مقبولیت ملی، لیکن اُس کی وجۂ شُہرت اپنے دونوں دوستوں کے برعکس تھی۔
خواجہ نظام الملک طوسی کے نیشا پور میں قیام کے دوران ایک روز حسن اچانک اُن کے پاس پہنچا اور اُنہیں اپنے زمانۂ طالب علمی کا عہد یاد دلایا۔ خواجہ نے معاہدے کی تعمیل کرتے ہوئے موقع محل دیکھ کر حسن کو سلطان کے رُوبرو پیش کیا اور اس کے علم و فن اور غیر معمولی صلاحیتوں کی بے حد تعریف کی۔ سلطان نے نظام الملک کی سفارش کو اہمیت دیتے ہوئے حسن بن صباح کو اپنا درباری بنا لیا۔ حسن نے اپنی ذہانت سے جلد ہی سلطان کے دِل میں گھر کر لیا اور سلطان نے اسے اپنا خاص درباری مقرّر کر دیا۔ لیکن حسن جلد ہی اس منصب سے اُکتا گیا اور وزارتِ عظمیٰ کے خواب دیکھنے لگا۔
تاہم، جب تک نظام الملک طوسی کو سلطان کا اعتماد حاصل تھا، تب تک اس کا وزارتِ عظمیٰ کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ چناں چہ اُس نے اپنے مقصد کے حصول کی خاطر اپنے دوست اور محسن کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کی اور خواجہ کو الپ ارسلان کی نظروں میں گرانے کی تدابیر سوچنے لگا۔ گرچہ خواجہ نظام الدین، حسن کے ارادے بھانپ چُکے تھے، لیکن اُن کا ضمیر گوارا نہ کرتا تھا کہ وہ اپنے دوست کے خلاف کوئی قدم اُٹھائیں اور بعد ازاں وقت نے ثابت کیا کہ خواجہ غلطی پر تھے۔
ایک مرتبہ سلطان الپ ارسلان نے خواجہ نظام الملک طوسی کو سلجوقی سلطنت کی آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات سے متعلق گوشوارہ تیار کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی گوشوارے کی تیاری کے لیے درکار وقت بھی پوچھا۔ نظام الملک نے دو سال کی مُہلت مانگی۔ اس موقعے پر حسن بن صباح بھی موجود تھا، جس نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ ’’مَیں ایسا گوشوارہ ڈیڑھ ماہ میں مرتّب کر سکتا ہوں۔‘‘ سلطان نے حسن کی پیش کش قبول کرتے ہوئے اس کام کی ذمّے داری اُسے سونپ دی۔ تاہم، حسن مقرّرہ مدّت میں ایسا گوشوارہ مرتّب نہ کر سکا کہ جو الپ ارسلان کو مطمئن کر سکے۔ نتیجتاً، سلطان نے حسن کو دربار سے نکال دیا۔
سلجوقی دربار سے نکلنے کے بعد حسن دُنیا کی سیر کو نکل کھڑا ہوا۔ اس دوران اس نے اسماعیلی عقیدہ اختیار کیا اور مصر جا پہنچا۔ مصر سے وہ شام جانے والے ایک بحری جہاز پر سوار ہوا۔ اتفاق سے وہ بحری جہاز سمندری طوفان کی زد میں آ گیا۔ اس موقعے پر حسن نے دیگر مسافروں کو مرعوب کرنے کے لیے کہا کہ ’’ مُجھے بشارت ہوئی ہے کہ یہ جہاز نہیں ڈُوبے گا اور اس پر سوار مسافروں کا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔‘‘ حسن ایک موقع پرست شخص تھا۔ اُس نے سوچا کہ اگر جہاز ڈُوب گیا، تو میرے دعوے کو جُھٹلانے والا کوئی نہیں رہے گا اور اگر ڈُوبنے سے بچ گیا، تو لوگ میری شخصیت کے گرویدہ ہو جائیں گے۔
اتفاق سے سمندری طوفان تھم گیا اور جہاز معمول کے مطابق چلنے لگا۔ یہ دیکھ کر تمام مسافر حسن کی شخصیت کے دیوانے ہو گئے اور اسے کوئی پہنچا ہوا بزرگ تصوّر کرنے لگے۔ شام پہنچ کر اُس نے لوگوں کو اسماعیلی عقیدے کی دعوت دینا شروع کی اور اسی کوشش میں ایران پہنچ گیا۔ چند سال میں لوگوں کی بڑی تعداد اسماعیلی عقیدے میں شامل ہو گئی۔ ایران میں اُس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے قلعہ الموت پر قبضہ جمایا اور اس کے حاکم کو بے دخل کردیا۔ پھر اس نے قلعہ الموت کو اپنا مرکز بنا کر اپنی سیاسی و مذہبی قوّت بڑھانے کے لیے جہدوجہد کا آغاز کیا اور سلطنتِ سلجوق کے اندر ہی اپنی ایک الگ آزاد و خود مختار سلطنت قائم کر لی اور ’’شیخ الجبال‘‘ (پہاڑوں کا شیخ) کے نام سے مشہور ہوگیا۔
حسن بن صباح کے مُریدین، جو ’’فدائین‘‘ کہلاتے تھے، اس قدر پُختہ عقیدے کے حامل تھے کہ شیخ کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے سے بھی گریز نہ کرتے۔ وہ حسن کے حُکم پر ہر جائز و ناجائز اور خطرناک سے خطرناک کام بھی کر گزرتے۔ اُنہیں اس بات کا یقین ہوتا تھا کہ شیخ اُنہیں ہر جگہ دیکھ رہے ہیں، جس کے باعث وہ اُس کے حُکم سے انحراف کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہی جاں بازوں کی مدد سے حسن نے دنیائے اسلام کو کئی سال لرزہ براندام کیے رکھا۔
حسن کے ان فدائین کو بھیس بدلنے میں مہارت حاصل تھی۔ وہ اپنا مشن مکمل ہونے تک اپنی اصل شناخت ظاہر نہ ہونے دیتے اور حصولِ مقصد کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیتے۔ شیخ الجبال اپنے فدائین کو خوراک میں بھنگ ملا کر کھلاتا۔ جب وہ بے ہوش ہو جاتے، تو اُنہیں ایک جنت نظیر باغ میں پہنچا دیا جاتا، جہاں دُودھ، شہد اور شراب کی نہریں بہہ رہی ہوتیں اور انواع اقسام کے پھل دار درخت اور گُل دستے ہوتے۔
باغ میں موجود تربیت یافتہ حسین لڑکیاں حُوروں کے رُوپ میں فدائین کی خدمت کرتیں اور جب کچھ عرصے بعد فدائین کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ جنت میں ہیں، تو اُنہیں ایک مرتبہ پھر بھنگ کے نشے میں مدہوش کر کے اُس مصنوعی جنّت سے نکال دیا جاتا۔ مذکورہ باغ کی سیر کے بعد فدائین اُس مصنوعی جنت کی آرزو میں دیوانے ہو جاتے اور شیخ کے ایک اشارے پر اپنی جان بھی قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔
سلطان ملک شاہ کو حسن بن صباح کی ان کاروائیوں کی خبر ملی، تو اُس نے لشکر کشی سے پہلے اُس کے پاس اپنا ایک وفد بھیجا اور اطاعت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن حسن نے انکار کر دیا۔ ایلچی واپس جانے لگے، تو حسن نے اپنے مُریدوں کی جاں بازی کےچند نمونے دکھانے کے لیے اپنے ایک فدائی کو اپنے پیٹ میں خنجر گھونپنے کا حکم دیا۔ وہ فدائی اُسی وقت اپنے ہی خنجر کے وار سے ڈھیر ہو گیا۔
دوسرے کو کہا کہ ’’بلندی سے چھلانگ لگا دو‘‘، تو وہ فوراً پہاڑ سے کُود گیا۔ تیسرے کو حُکم دیا کہ ’’پانی میں ڈُوب جائو‘‘، تو وہ فوراً غرقِ آب ہو گیا۔ سلجوقیوں کے ایلچی یہ مناظر دیکھ کر دم بخود رہ گئے۔ اس موقعے پر حسن نے گرج دار آواز میں اُن سے کہا کہ ’’ملک شاہ کی پوری فوج بھی اس کے ایک فدائی کی طرح جاں بازی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔
لہٰذا، وہ ہمیں پریشان نہ کرے، ورنہ اُسے سخت نقصان اُٹھانا پڑے گا۔‘‘وفد کی واپسی کے ڈیڑھ ماہ بعد قلعہ الموت پر متعدد حملے کیے گئے، لیکن اُسے تسخیر نہ کیا جا سکا۔ تاہم، بعد ازاں حسن بن صباح کی موت اور ہلاکو خان کے حملے کے نتیجے میں عالمِ اسلام کو اس فتنہ انگیز عقیدے سے نجات ملی۔