• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی آکسفورڈ کانفرنس کے ہرسیشن میں چیف جسٹس کا فقرہ دہرایا جا رہا تھا کہ یقین دلائیں کہ فوج کا کوئی کاروبار نہیں ہے۔ فوج صرف ملکی دفاع کرے گی۔ تقریباً 70سیشن مختلف موضوعات پر تھے۔ مگر ہرسیشن چاہے ’’جہاں آباد کی گلیاں‘‘ پر ہو کہ’’ خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘‘ کہ ’’مکھوٹا‘‘ ناول پر کہ انڈر گرائونڈ یعنی ترقی پسند تحریک کے آغاز کے حوالے سے ۔ ہرسیشن کے دوران اور چائے کے وقفے کے دوران، چیف جسٹس کے سوال کے جواب کی منتظر پوری قوم، ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھی۔ چیف جسٹس کے سوال کا کوئی جواب آیا۔ کانفرنس کے 70موضوعات کے علاوہ جو سوال ہر ایک گھنٹے بعد مجمع میں کھڑے اسد عمر ہوں کہ شبر زیدی کہ ملیحہ لودھی کہ زہرہ نگاہ، ہر ایک سے پوچھا جاتا رہا کون حکومت بنا رہا ہے؟یہ بھان متی کا کنبہ کیا ہو گا اور ماہرین معیشت خود بھی کانفرنس میں اور چائے کی محفلوں میں بار بار کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی معیشت نہ عمران خان سے چلی نہ 16مہینے شہباز شریف سے اور نہ نگرانوں سے ۔ اب کونسا طوطا توپ چلائے گا۔ نعمان الحق کی تصوف کی کتاب اور پھر کانفرنس کے اختتامیہ طویل خطاب میں بہت عمدہ اور شائستہ مضمون نجیبہ عارف کا تھا۔ جس میں پوری قوم کو تہذیب ، اپنی زبانیں سنبھالنے کی استدعا کے ساتھ نوجوان نسل کو کتاب پڑھنے اور اندھی مغربی تقلید کی بجائے نفرتوں اور تعصبات کو ختم کرنے کیلئے نوجوان نسل کو صرف کرکٹ میچ نہیں کہ یہ تفریح ہے۔ اس تفریح کو سیاست بنا کر معیشت کو کھوکھلا کر دیا گیا۔آکسفورڈ والوں نے پڑھے لکھے اور جن کو نوجوان دانشور بھی کہا جا سکتا ہے ان تمام خواتین و حضرات کو ہر موضوع پر ماڈریٹر بنایا تھا۔ اس طرح ہم لوگ ان کی دانش اور گفتگو سے بھی فیض یاب ہوئے اور ساری زبانوں کے ادب پر مذاکروں سے وہاں نئے موضوعات کی ندرت پر بھی روشنی پڑی۔ عوام کے حقوق پہ کھل کر بات کرنے والے اگر جبران ناصر، عاصمہ شیرازی اور حارث خلیق ہوں توآپ اندازہ کر لیں کہ کتنا تلاطم تھا۔

لندن سے ایک فلسطینی خاتون سلمیٰ بھی آئی تھیں۔ ان کو سننے اور پھر بعد میں ان سے بات کرنے پہ طبیعت اور بوجھل ہو گئی کہ وہ بھی الجزیرہ سن کر اور عالمی قوتوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل مسلسل چار مہینوں سے پورے غزہ کو اجاڑنے کے بعد، اب ملحقہ مسلمان ملکوں پربھی حملے کا منصوبہ بنا رہاہے اور عالمی عدالت کے خلاف بھی بول رہا ہے۔

میں جا کر بلوچستان کے سیشن میں ابھی بیٹھی تھی کہ ایک لڑکی نے آکر کہا میں آپ کے ساتھ بیٹھوں، آپ مجھے لاپتہ تو نہیں کروائیں گی۔ وہ صحافت میں ماسٹرز کر رہی تھی اور اس کی بڑی بہن اسلام آباد والے گروپ میں سخت سردی میں پولیس کی ٹھنڈی گولیاں کھاتی، پھر بھی زمین پر بیٹھی دہائی دینے کے بعد ، آخر کو ناکام واپس گئی تھی۔ اس کے والد 2009 میں لاپتہ ہو گئے تھے اور اب تک کچھ لوگوں نے بتایا تھا کہ ابھی وہ زندہ ہیں اور علاقے کا نام وہ لڑکی بھی نہیں بتا رہی تھی۔ لفظ ’’لاپتہ‘‘ مشاعرے میں بھی قافیہ تھا اور نوجوان شاعر کو اس غزل پہ بہت داد ملی۔ عقیل عباس جعفری کو بھی ’’نامعلوم لوگ‘‘ قافیے پر بہت داد ملی سمجھ جائیے کہ یہی موضوعات بار بار زیر بحث آتے رہے۔ جس وقت ندیم فاروق پراچہ کی کتاب جو ایک سال پہلے چھپی تھی اور جو عمران کی سیاست اور نوجوانوں کی دیوانگی سے متعلق تھی۔ اس سیشن میں خود نوجوان بھی کم تھے اور جذبے کی صداقت عیاں تھی کہ اس الیکشن میں آزاد امیدوار زیادہ منتخب ہوئے ہیں۔ چونکہ ان کے نام ابھی پردۂ سیمیں پر نہیں کہ ہم جانیں کہ واقعی آزاد لوگ کتنے جوان اورکتنے سچے ہیں۔ بلوچستان سیشن میں ایک محقق جو امریکہ سے آئے تھے۔ ان کی باتیں سن تو لیں مگر بلوچی لوگوں نے جس میں کالج کے بچے بھی تھے، مستقل یہ گفتگو کی کہ بلوچوں کو خیالات کے اظہار کی آزادی نہیں ہے۔ ان کا گلہ تھا کہ بلوچ لوگوں کی نمائندگی ادب اور سیاست دونوں میں بہت کم ہے۔تعلیم کے موضوع پر پورے سیشن میں یہ تشویش جاری رہی کہ یہ موجود ہیک اور کریک سسٹم، کروڑوں ناخواندہ بچوں کے لئے تعلیم کے مواقع نہیں رکھتا۔ یہیں یہ سوال بھی اٹھا کہ جب تک ہمارے بلدیاتی اداروں کو مستحکم اور مالی طور پرمضبوط نہیں کیا جائے گا۔ دیہات جیسے ہیں ویسے ہی رہیںگے اور آبادی بجائے اپنے گھر میں رہنے کے ، شہروں میں کچی آبادی بنا کر رہنے اور روزگار تلاش کرنے میں کئی نئے سماجی مسائل سے دو چار ہو رہی ہے۔ جس میں نوجوان ڈرگز اور خود ساختہ ایجنسیوں کے ہاتھوں غیر ممالک جانے اور کشتیوں میں ڈوبنے کے مراحل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

اس وقت پنجاب میں 30یونیورسٹیاں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی ایک یونیورسٹی میں بھی وائس چانسلر نہیں ہے۔ سندھ میں آدھے اسکولوں میں استاد نہیں ہیں اور ہو یہ رہا ہے کہ پرانے استادوں کو دوبارہ رکھ کر کام چلایا جا رہا ہے اور نصاب کونسا پڑھایا جا رہا ہے یہ سوال 75برس سے جواب کا منتظر ہے کہ ہمارے بچے، اپنے علاقے کی تاریخ و ثقافت سے ناآشنا ، کتابوں میں جو لکھا ہو وہ رٹ کر امتحان میں پاس بھی ہوتےہیں اور اسی طرح کھیلتے ہوئے کبھی سول سرونٹ بن جاتے ہیں۔ شکر یہ ہے کہ اس وقت مساوی خواتین، قانون اور شہروں کے نظام کو چلا رہی ہیں کئی خواجہ سرا بھی پولیس اور کسٹم میں متعین ہیں۔

سب سے خوبصورت اور دل کو مطمئن کرنے والا منظر، نوجوان بچوں کا بطور رضا کار، اس کانفرنس میں کام کرنا تھا۔ ان کی بے ساختہ مسکراہٹ اور بھاگ بھاگ کر ہم بڈھوں کا ہاتھ پکڑ کر ایک سیشن سے دوسرے سیشن لے جانا ، ہمارے آنے والے دس سال کی خوشگوار حیرت ہو گی۔

تازہ ترین