• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی مخلوط حکومت کی تشکیل سے نہیں لگتا کہ ملک میں پھیلا سیاسی افراتفری کا غبار بیٹھ جائے گا۔ تاہم اس سے ان بہت سے چیلنجوں سے نمٹنے کی راہ نکل سکتی ہے جن کا پاکستان کو سامنا ہے۔ ہر ملک کو ایک حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت ایسی ہو جسے قانونی اور عوامی حمایت حاصل ہو۔ لیکن یہ کوئی نہیں چاہتا کہ کوئی فعال حکومت نہ ہو۔

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا ڈھانچہ شفافیت سے عاری ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور ملک کی خود غرض اشرافیہ کے کردار پر بھی سوال اٹھتا ہے۔ لیکن پاکستان کے مسائل ان سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ پاکستان میں شخصیت اور مظلومیت کے گرد گھومنے والی سیاست میںہونے والی بحث میں معاشی اور سیکورٹی خطرات پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان سیاسی کھیل نامی نشے کی عادت میں مبتلا ہے۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر جاری بحث میں کیے جانے والے ’’انکشافات‘‘، دعوے، جوابی دعوے اور سوشل میڈیا پر مشکوک معلومات کا نہ ختم ہونے والا سیلاب جلتی پر تیل گراتا رہتا ہے۔ متعدد سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کی بدعنوانی اور لوٹ مار کی کہانیاں، حتیٰ کہ عوامی شخصیات کی نجی زندگی کے بارے میں گپ شپ قوم کے جذبات کو دہکائے رکھتی ہے۔ گرچہ یہ سیاسی کھیل بعض اوقات دلچسپ تماشا لگتا ہے لیکن عام طور پر اس کی وجہ سے حقیقی چیلنج نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں جن سے نمٹنا ضروری تھا۔ ان کی وجہ سے ایسی دیو مالائی دنیا جنم لیتی ہے جس میں دشمن ختم ہو جائیں گے، ہیرو داد پائیں گے اور اساطیری ہیرو تمام پانسہ پلٹ دیں گے۔ بہت عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستانی ایسی ویڈیو شیئر کررہے تھے کہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر ایک گیم چینجر ثابت ہو گی جو پاکستان کو ہانگ کانگ اور دبئی سے بھی بڑی عالمی کنٹینروں کی گزرگاہ بنا دے گی۔ اس حقیقت سے ہمیں کوئی غرض نہیں کہ اس وقت گوادر بندرگاہ کی صرف تین برتھیں ہیں جب کہ ہانگ کانگ کی بندر گاہ کی 24 اور دبئی کی جبل علی بندرگاہ کی 67 برتھیں ہیں۔ دنیا میں جبل علی سے بڑی آٹھ بندرگاہیں ہیں۔ دبئی کے پاس جبل علی کے علاوہ نو بندرگاہیں ہیں۔

سیاسی کھیل کے کھلاڑی اور اس کے رسیا سامعین ایک لمحہ توقف کرتے ہوئے سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ایک بندرگاہ جہاں ایک وقت میں صرف تین بحری جہاز آ سکتے ہیں، کس طرح کہیں زیادہ سہولتیں رکھنے والی بندرگاہوں کو مات دے دے گی۔ اسی طرح کئی برسوں سے پوری قوم اس خیال سے وجد میں تھی کہ بدعنوان پاکستانیوں کے ’’بیرون ملک چھپائے گئے اربوں ڈالر‘‘ واپس لائے جائیں گے اور ان سے پاکستان کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ ایک بار پھر، ٹیلی ویژن پر محو گفتگو سیاسی بقراطوں اور واٹس ایپ پر ’’جو سنا سمجھ گئے‘‘ گروپوں کیلئے یہ سمجھنا ناممکن ہے کہ دنیا کاکوئی ملک کبھی ایسا نہیں کر سکا۔ دراصل پاکستان کا سیاسی کھیل یا تو جذبات کا الائو دہکائے رکھنے یا امیدوں کا شیش محل تعمیر کرنے سے زور پکڑتا ہے۔ اس کھیل میں حقیقت کی کوئی گنجائش نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ نئی حکومت کی پاکستان کے بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کولگام دینے کی اول ذمہ داری ہے۔ ملک پر بیرونی قرضوں کا حجم126.3 بلین ڈالر ہے اور اب اور 2026کے درمیان پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مد میں 77.5بلین ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 8 ارب ڈالر ہیں جبکہ اگلے سال قرضوں کی ادائیگی تقریباً 27 ارب ڈالر ہے۔ ٹک ٹاک اور واٹس ایپ ویڈیوز عوامی جذبات کو متاثر کرنے کیلئے اچھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن قرضوں کو ری شیڈول کرنے، نئے سرے سے قرض لینے اور طویل مدتی قرضوں کے بوجھ کو سنبھالنے کا طریقہ نکالنے کیلئے قرض دہندگان کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ دیگر معاشی مشکلات بھی ہیں۔ پاکستان کا 963ارب روپے کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.5فیصد ہے۔ متوقع ٹیکس وصولی اور تخمینہ شدہ سرکاری اخراجات کے درمیان اب بھی بہت بڑا فرق ہے۔ بڑھتی مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، ٹی وی ٹاک شو زکے پنڈت، جو ہمیشہ اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ کس نے کس سے کیا کہا اور انھیں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین کی سازشوں کا بھی علم ہوتا ہے۔لیکن وہ شاید ہی کبھی ان مسائل پر بات کرتے سنائی دیے ہوں۔

سرکاری اخراجات کو کم کرنے کا ایک فوری طریقہ یہ ہے کہ پیسے کے ضیاع کو کم کیا جائے جو پاکستان کے سرکاری اداروں کو سبسڈی کی صورت میں ہوتا ہے۔ عالمی بینک کی 2023کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ریاستی ملکیت میں چلنے والے کاروباری ادارے جنوبی ایشیا میں سب سے کم منافع بخش ہیں۔ ان کی وجہ سے پاکستان کے سرکاری خزانے کو ہر سال500 بلین روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ صرف پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) ہر روز پاکستان کا 500 ملین روپے کا نقصان کرتی ہے۔ دیگر خسارے میں چلنے والے ادارے بھی اس سے مختلف نہیں۔ لیکن ان کاروباری اداروں کی نجکاری، یا انہیں بند کرنے پر 1990کی دہائی سے بحث ہوتی رہی ہے اور اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔

پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ تجارت بڑھانے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے لیکن بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا سیاسی کھیل کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ پاکستان کی اشرافیہ کی غلط پالیسیوں یافیصلے نہ کرسکنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کیلئے مقبول عام بیانیے بھارت، اسرائیل اور امریکہ کی سازشوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے ان ممالک کے ساتھ تعلقات رکھنے والے حکام کو اس بات سے محتاط رہنا چاہیے کہ ان پر قومی غیرت کی توہین کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے بھی بدتر، انھیں غیر ملکی ایجنٹ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں ملک کی سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے عوام بے چین ہیں۔ لیکن یہ پاکستان کی برسوں کی سیاسی گیم کا نتیجہ بھی ہیں۔ ملک کے بنیادی مسائل پر سنجیدہ گفتگو کے بغیر پروپیگنڈے اور ذاتی حملوں نے ان مسائل کو حل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین