• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس 2فروری 2024تک زرمبادلہ کے ذخائر 13ارب 9کروڑ 76لاکھ ڈالر تھے۔ ان میں اسٹیٹ بینک کا حصہ 8ارب 4کروڑ 40لاکھ جبکہ تجارتی بینکوں کی محفوظ رقم 5ارب 5کروڑ 36لاکھ ڈالر تھی۔ حکومت پاکستان پر آئی ایم ایف سمیت 30جون 2024 تک کل قرضہ 820کھرب روپے تک پہنچ جانے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اور اگر اندرون ملک ریونیو میں اور بیرونی سطح پر تر سیلات زر اور بر آمدات میں اضافہ ہوا تو جون 2025تک قرضو ں کی مالیت 922.4کھرب روپے تک پہنچ جائے گی۔

غربت کا شکار پاکستانی تقریباً 12کروڑ کے قریب ہیں۔ ان حالات میں ووٹر، الیکشن میں کامیاب ہونے والی سیاسی جماعتوں سے یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ راتوں رات ان کے مسائل حل کر دیں گی اور مہنگائی سے نجات مل جائے گی۔ ایسا فوری ممکن نہیں۔نئی حکومت کو بہت بڑے معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا ۔عوام پر مزید ٹیکسوں کی بھر مار ہو گی۔ عوام کی رہی سہی برداشت بھی جواب دے جائے گی۔ نقصان زدہ کچھ انڈسٹر یز پرائیوٹائز کرنی پڑیں گی اس سے عوام کی ایک بڑی تعداد کا بیروزگار ہو کر سٹرکوں پر آجانے کا اندیشہ ہے۔ ایسی مہنگائی ہوگی جو عوام نے نہ کبھی دیکھی نہ سنی ہو گی۔

حالیہ انتخابات کے نتائج میں ردوبدل کے الزامات، سیاسی عدم استحکام اور کسی کمزور حکومت کی تشکیل سے ملک کی معاشی صورتحال پر گہرا اثر پڑے گا۔ گزشتہ کچھ برسوں سے پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے اپنی کشش کھو رہا ہے اور اگر نئی منتخب حکومت کے دور میں بھی ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا تو پاکستان میں محدود پیمانے پرا ٓنے والی سرمایہ کاری کا سلسلہ بھی رک سکتا ہے۔ بادی النظر میں آنے والی حکومت پی ڈی ایم طرز کی اتحادی حکومت ہو گی جس میں قومی اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی متعدد جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ یہ حکومت اگرچہ نئی ہوگی مگر ملک کے مسائل وہی پرانے ہیں اور پی ڈی ایم کی سابقہ حکومت کے دیکھے بھالے ہیں، بلکہ ان میں بہت سے سابقہ حکومت ہی کے پیدا کردہ ہیں۔

آنے والی حکومت کو ان معاشی اور سماجی چیلنجز کا سامنا کرناہوگا جو بے شک نئے نہیں مگر پچھلے کچھ عرصہ کے ملکی حالات نے انہیں سنگین تر بنا دیا ہے۔ آنے والی حکومت کو یہ چیلنج بھی درپیش ہو گا کہ رواں مالی سال کے دوران 25بلین ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادا ئیگی بھی اسے ہی کرنا پڑے گی، یہ رقم اس وقت زرمبادلہ کے کل ملکی ذخائر سے تقریبا ًتین گنا زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات ناگزیر ہوجاتے ہیں مگر اسکی اپنی قیمت ہے جو مہنگائی میں اضافے اور معیشت پر بو جھ کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گی۔ اس طرح مہنگائی میں کمی اور معاشی آسودگی کا خواب فی الحال ’’ہنوزدلی دوراست‘‘ والا معاملہ لگتا ہے۔

نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ نیا معاہدہ کرنا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔ جولائی 2023میں نو ماہ کے لیے کیے گئے، اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے۔ جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا تاہم نئی حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن بر قرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی اور معاشی استحکام کیلئے اس کو آئی ایم ایف سے بہر صورت معاہدہ کرنا پڑے گا۔ حرف آخر جو بھی حکومت سنبھالے گا اس کے لیے مستقبل کی راہ گزار پر خار ہو گی۔ پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے یوں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہو تی ہے۔ بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روز گار کے مواقع اقتصادی ترقی کی راہ میںایک اہم رکاوٹ ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنرمندی کی نشوونما کا فقدان اورمعیاری تعلیم تک محدودر سائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ افراد بے روزگار ہیں۔

ملک مسائل کی دلدل میں ہے مگر ہمارے سیاستدان یہ دیکھتے ہوئے بھی اپنے طور طریقوں پر نظر ثانی کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ تاہم سیاسی انتشار کا نتیجہ شورش کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس ماحول نے ترقی کے جاری منصوبوں کو بھی گہنا دیا ہے۔ اس سیاسی انتشار سے صرف ترقی کا عمل ہی نہیں ملکی تشخص بھی برُی طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں تقریباً 580ارب روپے کا سالانہ نقصان کر رہی ہیں۔ نقصان میں چلنے والے اداروں کو پرائیوٹائز کرنے ہی سے مسائل میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے نئی حکومت کے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ ٹیکس جمع کرنے کا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا، بد عنوانی کا خاتمہ کرنا، صنعت کو فروغ دینا، بجلی اور گیس میں مراعات دینا، تعلیم اور ہنر کو فروغ دینا، ترقی کے لیے درمیانی اور طویل مدتی ترقیاتی پروگرام وغیرہ ہی سے ہمیں معاشی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تازہ ترین