مصنّف: راجا عبدالقیوم
صفحات: 176، قیمت: 1500 روپے
ناشر: قلم فاؤنڈیشن، بینک اسٹاپ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ۔
فون نمبر: 0515101 - 0300
مصنّف روس کے پاکستانی سفارت خانے میں افسر تعلقاتِ عامّہ رہے ہیں اور ان چھے سالوں میں اُنھیں بیلا روس جانے کے بھی مواقع میّسر آئے۔اِس دوران اپنے تجربات و مشاہدات قلم بند کرتے رہے، جو مضامین کی صُورت جرائد کا حصّہ بنے اور اب یہ 28مضامین کتابی صُورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ گویا کہ یہ ایک سفارت کار کی ادبی سرگزشت ہے۔ہمارے ہاں روس سے متعلق شروع ہی سے ایک’’دشمن مُلک‘‘ کی تھیوری کو فروغ دیا گیا، جو پہلی افغان جنگ کے دَوران اپنے عروج پر رہی۔اگر کبھی کسی نے روس سے معمول کے تعلقات کی طرف متوجّہ کرنے کی کوشش کی بھی، تو اُس کا نام مُلک دشمنوں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔ راجا عبدالقیوم کے یہ مضامین دراصل اُن افراد کی رائے کی تائید کرتے ہیں کہ ہمیں روس کو امریکی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے تھا اور نہ اب دیکھنا چاہیے۔
ڈاکٹر فاروق عادل کا کہنا ہے کہ’’مت بھولیے کہ یہ ایک سفارت کار کے مضامین ہیں، اِس سفارت کار نے اگرچہ لکھا تو ایک ادیب کی طرح ہے، لیکن بتا دیا ہے کہ اس طرف رُخ کرکے ہم کون سے سیاسی، سفارتی، تجارتی اور تہذیبی مقاصد کی تکمیل کر سکتے ہیں۔‘‘مصنّف نے اِن مضامین میں جہاں پاکستانیوں سے محبّت کرنے والے روسی ادیبوں اور دانش وَروں سے متعارف کروایا ہے، وہیں وہاں پاکستانی شعرا اور ادیبوں کو جو مقبولیت حاصل ہے، اُس کی بھی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اِس ضمن میں فیض احمد فیض کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اور بار بار کیا گیا ہے۔
پروفیسر فتح محمّد ملک کے مطابق’’کتاب کے متعدّد ابواب روس میں فیض کی بے مثال شہرت اور روسیوں کی فیض سے والہانہ محبّت کی ایک فکر انگزیز دستاویز ہے۔‘‘روس میں مسلمانوں سے متعلق مضامین بھی کتاب کا حصّہ بنائے گئے ہیں، جن میں عام تاثر سے ہٹ کر بہت اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اِسی طرح، دیگر مضامین میں روس کے نظامِ حکومت، اداروں اور تہذیب و تمّدن سے آگاہی ہوتی ہے۔
تحریر خُوب صُورت اور شگفتہ ہے، بقول جبّار مرزا’’ راجا عبدالقیوم کی نثر نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔‘‘ نسیمِ سحر کا تفصیلی مضمون بھی کتاب میں شامل ہے، تو محمّد نواز رضا نے بتایا ہے کہ’’راجا عبدالقیوم شاعر بھی ہیں اور اُن کے دو شعری مجموعے شایع ہوچُکے ہیں۔ اُن کی انگریزی کتاب’’ Iqbal and division of India‘‘ جرمنی سے شایع ہوئی، جب کہ تین کورین ناولز کو اردو میں ڈھالنے کے ساتھ، سعادت حسن منٹو کے پانچ افسانوں کو انگریزی کا رُوپ دے چُکے ہیں۔‘‘