• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس قصےکو سقراط سے منسوب کیا جاتا ہے کہ اس کے دور میں ایک مذہبی پیشوا نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ جنت کو فروخت کر رہا ہے ۔ مذہبی پیشوا کے اثرات بہت مضبوط تھے ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ مکمل طور پر مذہبی ٹچ اس کو حاصل تھا ۔ لوگ جوق در جوق اس مذہبی پیشوا کے پاس جانے لگے اور اس سے جنت کی دستاویزات خریدنے لگے ، مذہبی پیشوا کی تو چاندی ہو گئی ، بس یہ لکھ کر دے دیتا کہ’’ اس کو جنت فروخت کر دی گئی ہے‘‘ اور اس جنت کی ’’رجسٹری ‘‘کے بدلے میں سکوں پر سکے اس کی تجوری میں جا رہے تھے ۔ سقراط اس کو بہت اچھی طرح سے محسوس کر رہا تھا کہ یہ مذہبی ٹچ والا کام اس پیشوا کا ڈھکوسلہ ہے جووہ اپنی دنیا کو جنت بنانے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ سقراط نے عوام کو سمجھانا شروع کر دیا مگر مذہبی پیشوا کا میڈیا بہت تگڑا تھا بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اس کا سوشل میڈیا بہت مضبوط تھا اسلئے سقراط کی حقیقت پر مبنی گفتگو اور دلائل سے مذہبی پیشوا کے’’ عقیدت مند‘‘ قطعاً متاثر نہ ہوئے اور اسکا جنت فروشی کا دھندہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا ۔ سقراط آخر سقراط تھا وہ سمجھ گیا کہ صرف دلائل یا فلسفیانہ باتوں سے اس مذہبی پیشوا کا طلسم نہیں توڑا جا سکتابلکہ اسکو اسکی’’ پچ‘‘پر ہی شکست دینا ہوگی ۔ چنانچہ وہ ایک دن اس مذہبی پیشوا کے پاس خود گیا اور اس سےجہنم کی خریداری کی خواہش کر دی ، لمحوں کیلئے مذہبی پیشوا بھی چونک گیا مگر پھر اس نے سوچا کہ یہ تو بہت ہی شاندار کاروبار ہاتھ آ گیا ہے کہ اب جنت کے ساتھ ساتھ جہنم بھی فروخت کیا کرونگا ۔ سقراط نے اس سے جہنم کی قیمت دريافت کی اور اس نے بے پر وائی سے تین سکے جہنم کی قیمت بتا دی ۔ سقراط نے تین سکے مذہبی پیشوا کو ادا کئے اور کہا کہ مجھے جہنم کی’’رجسٹری‘‘لکھ دو، اس نے لکھ دی ۔ سقراط اس مذہبی پیشوا کے پاس سے آیا اور شہر کے مرکزی چوک میں پہنچ گیا اور لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے با آواز بلند بولا یہ دیکھو میں نے جہنم کو خرید لیا ہے اور اب میں کسی کو اپنی ملکیت یعنی جہنم میں داخل نہیں ہونے دونگا اس لئے اب تم میں سے کسی کو بھی جنت خریدنے کی ضرورت نہیں، بات عوام کے شعور اور مزاج کے مطابق تھی لہٰذا مان لی گئی اور مذہبی پیشوا کا کاروبار ٹھپ ہو گیا ۔

اب عام انتخابات کے بعد حکومتوں کے قیام کا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اور اس مرحلہ کے آغاز کے ساتھ ہی نئی حکومتوں کو ناکام بنانے کی غرض سے جنت کو بیچنے کے دعویدار بھی مزید متحرک ہو جائیں گے اور انکے کاروبار کو ٹھپ کرنے کی غرض سے ایسا ہی بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس کو عوام یا یوں کہہ لیجئے کہ مذہبی ٹچ سے متاثرین سمجھ سکیں ۔ مريم نواز شریف نے پنجاب حکومت کو سنبھالنے سے قبل پنجاب کی ترقی کا ایک بہت بہتر ویژن پیش کیا ہے ۔ نواز شریف اور شہباز شریف کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ انہوں نے ترقی کے ، منصوبوں کے جو بھی وعدے کئے وہ انہیں عملی شکل دینے میں بھی کامیاب رہے اور اسلئے مريم نواز شریف سے بھی یہ ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کو ہی اپنی منزل قرار دیں گی مگر اس کارکردگی کے مقابلہ میں مفروضہ جنت بیچنے والے روڑے اٹکائیںگے اور میڈیا کے تینوں شعبوں میں اگر گہری نظر سے حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو بہت شدید مسائل پیدا ہونگے ہمارے سامنے کی بات ہے کہ عثمان بزدار دور گزارنے کے باوجود پنجاب سے ووٹ حاصل کرلئے گئے حالانکہ پنجاب کے ووٹر کے سامنے نواز شریف اور شہباز شریف کے ادوار بھی موجود تھے ، یہ پروپیگنڈے کی طاقت ہے ،یہ مسائل صرف پی ایم ایل این کو پریشان نہیں کرینگے بلکہ اگر عوام کے مخصوص طبقہ کے ذہن میں یہ تصور راسخ ہو گیا کہ ریاست انکے مسائل حل نہیں کر سکی تو وہ ریاست سے لا تعلق ہوتے چلے جائیں گے اور ریاست کمزور ہوتی چلی جائے گی اس بار کارکردگی اور کارکردگی کا بیانیہ دونوں ہم قدم ہونگے ساتھ ساتھ چلیں گےتو ریاست توانا ہوگی۔اور اگر کوئی اپنی خود ساختہ جنت بیچتا چلا گیا اور اس کے پروپیگنڈے کا مقابلہ نہ ہو سکا تو سیاست تو سیاست ریاست کو بھی ناقابل بیان نقصان پہنچے گا ۔

ویسے بھی ریاست کو معاشی میدان میں غیر معمولی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اپنی سیاسی نا کامی پر اتنے بد لحاظ ہو چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کو خط لکھ کر پاکستان کو دیوالیہ کرانے تک کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ حالانکہ دنیا پاکستان کے معاشی مسائل کو سمجھنے کیلئے تیار کی جا سکتی ہے ۔ ابھی دو چارروز قبل متعدد اعلیٰ مغربی سفارت کاروں سے ملاقاتیں ہوئیں اور سب کے سامنے یہ بات رکھی کہ اگر آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط پر بضد رہا تو یہ ایسے ہی ہوگا جیسا مصر وغیرہ کی معیشت کیساتھ ہوا تھا عوام ناقابل برداشت بوجھ تلے دبتے چلے جائیں گے، سفارت کار یہ سب سمجھنے اور اپنے ممالک کو سمجھانے پر بھی آمادہ نظر آئے اور اگر یہ مسئلہ مغربی سفارت کاروں ، پالیسی سازوں کو سمجھا دیا جائے جو کہ سمجھایا جا سکتا ہے تو آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بہت اچھی شرائط پر معاہدے کئے جا سکتے ہیں ۔ اسی طرح انڈیا کی جانب سے بھی یہ ہی ہوا چل رہی ہے کہ وہ پاکستان کی آئندہ کی حکومت سے گفتگو کرنے کیلئے تیاریاں کر رہا ہےاور یہ مرحلہ بھی بہت احتیاط اور بہت دانش کامتقاضی ہوگا کہ دنیا یہ جان سکے کہ ہم اپنے ہمسایہ سے تعلقات کی بہتری اور مسائل کے حل کیلئے تیار ہیں ۔تاہم اگر کسی ایک بھی محاذ پر جعلی جنت بیچنے والوں کے پروپیگنڈے کا مقابلہ نہ کیا جا سکا تو بھاری مشکلات کا پتھر سیاست اور ریاست دونوں کو اٹھانا ہوگا۔

تازہ ترین