• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں خاتون کے لباس سے متعلق جو واقعہ پیش آیا، وہ کچھ یوں بھی ہو سکتا تھا ۔لوگ اکھٹے ہو کر قریب موجود ایک کانسٹیبل کو بتاتے۔ کانسٹیبل ہی فیصلہ کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔خاتون افسر شہربانو نہ ہوتیں تو خاتون قتل ہو سکتی تھیں ۔ 18اپریل 2022ء کو سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ بھارت میں گائے ذبح کرنے کے الزام پر بھی یہی ہوتاہے ۔ کیا وجہ ہے کہ بلھے شاہ جیسا شاعر مسجد اور منبر کو ایک ہی مصرعے میں پروتا رہا ۔ ایسے واقعات کی وجہ جہالت تو ہے ہی ۔ یہ بھی ہےکہ پولیس اور نظامِ انصاف پر کسی کو اعتبار نہیں۔ پولیس اشرافیہ کی باندی ہے ۔ آج کل ایک سیاسی جماعت کو سبق سکھانے میں استعمال ہو رہی ہے ۔ ایف آئی آر سے لے کر عدالتی فیصلے تک جوفریق زیادہ اثر و رسوخ کا مالک ہوتا ہے ، قانون اس کا ساتھ دیتا ہے ۔ ایم پی اے مجید اچکزئی کی طرح آپ باوردی کانسٹیبل کو کچل دیں۔ کچھ بھی نہیں ہوگا۔

باوردی افسران خود جعلی اکائونٹس دکھایا کرتے۔ مقصود چپراسی سب کو یا دہے ۔ ’’میری لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ‘‘ والا بیان بھی۔ ۔ آج وہ سب آزادہی نہیں ، ہمارے سروں کا تاج بھی ہیں ۔ ڈاکٹر شعیب سڈل نے ایک بار یہ کلیہ بتایا تھا : جو سب سے بڑا مگر مچھ ہو،جس کے سب سے زیادہ سیاسی تعلقات ہوں ، اس کے اوپر پوری قوت سے قانون نافذ کر دیا جائے تو نیچے والے از خود بھاگ جاتے ہیں ۔ ایماندار افسروں کی ایک بڑی تعدادکو میں نے سسٹم کے ہاتھوں ہمیشہ روتے ہوئے ہی دیکھا ۔ معطل ہو جانے سے افسر ہاتھ پائوں چھوڑ دیتے ہیں ۔ کئی دبائو میں آکر خودکشی کر لیتے ہیں ۔ جسٹس بابر ستار نے بالکل درست فیصلہ کیا ہے کہ اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان میمن کو عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر چھ ماہ قید کی سزا سنا دی ۔وہ عدالت کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طاقتوروں کی بات مان رہے تھے کہ ایک سیاسی جماعت کو سبق سکھانا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جسٹس بابر ستار اسی معاشرے میں نہیں رہتے، جس کے باقی افسر اور جج کمزوری کا مظاہرہ کرتے رہے ۔ ایک افسر کو طاقتور حلقے غیر قانونی اقدام پر مجبور کرتے ہیں تو اسے چاہیے کہ حقیقت کھول کر بیان کر دے ۔ اور کچھ نہیں کر سکتا تو استعفیٰ دے دے ۔ اچھرہ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پہ اب یہ ٹرینڈ چل رہا ہے کہ خاتون پر ہلہ بولنے والوں کی تو مذمت کرو ہی ، ساتھ ہی مذہبی رجحان رکھنے والے ہر شخص کوذلیل کر کے رکھ دو۔ سوشل میڈیا پر ویسے بھی یہ رجحان عام ہے کہ مذہب کی غلط تعبیر کرنے والوں کو بنیاد بنا کر اسلام ہی کو تختہ ء مشق بنا دو ۔ جو کوئی بیچارہ خدا کو یاد کرنے کیلئے نماز روزے کا رجحان رکھتا ہو، اسے تمسخر کا نشانہ بنائو۔ جامع ترمذی حدیث نمبر 2260 میں لکھا ہے : ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دین پر جمے رہنا ایسا ہوگا جیسے ہتھیلی پہ انگارہ رکھنا ۔ بالکل یہی ماحول ہے اب ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایک شخص واقعتا دین کی بے حرمتی کرتا ہوا پایا جائے توبھی کوئی شخص قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ ہوسکتاہے کہ وہ ذہنی مسائل کا شکار ہو۔ آپ بلھے شاہ سمیت صوفیانہ شاعری کرنے والوں کا کلام پڑھیں تو حیرت انگیز طور پر وہ مندر اور مسجدکو ایک ہی مصرعے میں کیوں پروتے ہیں ۔ آپ بھارت میں گائے ذبح کرنے والوںاور لاہور میں مبینہ آیات والے لباس پہ بھڑکنے والوں کو دیکھیں تو بالکل ایک ہی جیسے ردّعمل کا وہ مظاہرہ کرتے ہیں۔

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدی اپنے آپ نوں پڑھیا نئی

جا جا وَڑدا مسجداں مندراں اندر

کدی مَن اپنے وچ وَڑیا ای نہی

آپ ایسا متشدد رویہ اختیار کرنے والے سے ایک بار صرف یہ سوال پوچھ لیں کہ تمہارا مذہب کیوں سچا ہے اور دوسرے مذاہب کیوں جھوٹے ہیں ۔ اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ دوسری طرف وہ انتہا پسند ہیں ، جن کے نزدیک مذہبی رجحان رکھنے والا ہر شخص قابلِ مذمت ہے ۔ آدمی جائے تو کہاں جائے۔

تازہ ترین