• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم سلطانہ

جیسے ہمارے ہاں پنجاب کو پنجاب سے پہلی وزیر اعلیٰ نصیب ہوئی ہے ویسے ہی پہلی بار تاریخ رقم ہو گئی کہ صلاحیت صاحب قیادت ہو سکی ہے جنس اس ضمن میں کوئی ضروری عنصر نہیں، پاکستان کے مرد وزن بلاتفریق میدان میں اپنی خداداد قابلیت کو آزمائیں تو جمہوریت اپنا پورا نقاب اٹھا دیگی اور وطن عزیز میں پیریٹی کا دور دورہ ہو گا۔ مریم نواز کی سیاسی عمراتنی ہی ہے جتنی پی ایم ایل این کی، ہم نے یہ انداز بھی حکمرانی کا پہلی بار دیکھا کہ منصب سنبھالتے ہی اپنے دائرہ کارکردگی کا رخ کر لیا اور اپنی ذمہ داری کو چاق و چوبند انداز میں ادا کرنے کا ڈول ڈال دیا۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے کی باگ ڈور بنت پنجاب کا سنبھال لینا ایک ایسی بیداری ہے کہ جس کے اثرات اس عظیم صوبے کے ہر فرد پر پڑیں گے، عورت کو اس کا حق دینا ماں کو بااختیار کرنا ہے ہمیں یقین ہے کہ پنجاب میں خاتون کو زمام حکمرانی دی نہیں گئی بلکہ ایک خاتون نے سیاسی ذہانت اور طویل سیاسی تربیت کے بل بوتے پر حاصل کی۔ دانشمندی سب کو دی گئی ہے مردوزن میں سے کسی کی میراث نہیں جتنی محنت، کوشش ہو گی اتنا ہی پھل دامن میں گرے گا دنیا بھر میں اقوام نے کاموں کو جنسی اعتبار سے تقسیم نہیں کیا ہمیں اپنی بہادر اور ذہین مریم سلطانہ سے توقع ہے کہ وہ پنجاب میں مثبت تبدیلیاں لائیں گی اور خواتینِ پنجاب کے ساتھ ساتھ مردوں کا بھی قبلہ سیدھا کریں گی اور جو افراد صالح ہیں انکی حوصلہ افزائی کریں گی کہ وہ یہ صلاحیت رکھتی ہیں۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

فریاد قلم

صدیوں سے قلم رواں اور ہم یہ نہ جان سکے کہ کہاں ہیں ،اسی قلم نے جہالت کو قلم قلم کر دیا مگر ہم نے اس کو نہ جانے کیسے چلایا کہ سیدھے راستے بھول گئے اور کسی کے لباس پر حروف نما پرنٹ دیکھ کر اسے اسلام کی توہین سمجھا اور صاحب لباس کو جلانے کے درپے ہوگئے کیا ہم وہی ہیں جن سے کہا گیا ’اقرا ‘بہرحال ہم تو قلم کی فریاد لے کے آئے ہیں کہ وہ جوں ہی چلتا ہے پھیری والوں کی یلغار ہو جاتی ہے اور قلم ان کی اشیاء لکھنے لگتا ہے قلم کی دہائیاں بہت ہیں ایک وہ قلم جو سچ لکھتا ہے اور ایک وہ جو جھوٹ رقم کرتا ہے قلم یہ رونا بھی روتا ہے کہ لکھتا ہے اور کچرے کا ڈھیر بن جاتا ہے جس قلم کی اللہ نے قسم کھائی اسے انسان نے ایسے ایسے مضامین کی نذر کر دیا کہ انسان نے جرم سیکھا ۔کئی قوموں نے قلم کو اس انداز سے استعمال کیاکہ ستاروں پر کمند ڈالنے کا کارواں چل پڑا کچھ اہل قلم نے نااہل قلم کے قافلے رواں کر دیئے نتائج آج ہمارے سامنے ہیں نوبت یہ ہےکہ قرآنی آیات کو الٹا لکھ کر کالا جادو کرکے کسی کی لٹیا ڈبو دی۔ قلم، خالق قلم کی فعال آیت ہی سے تھامنےسے پہلے دل ، جگر ،دماغ تھام لیں کہ یہی قلم راستے تراشتا ہے حق اور باطل کے ،جن ا قوام نے قلم کا غلط استعمال کیا آج حرف غلط کی مانند ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں کہ قلم پر ستم ڈھا کر اس کے ذریعے بہت کچھ تباہ کر ڈالتے ہیں۔ قلم صرف مثبت عمل کو عام کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اگر یہ منفی تحریریں کاغذ پر پھیلاتے تو یہ قلم نہیں شیطان کے کامیاب ہتھیاروں میںسے ایک ہے ،جس سے ہم اپنی عافیت کو برباد کرتے ہیں۔ قلم کے غلط استعمال سے ہم اپنی بری نیت ظاہر کرتے ہیں وگرنا قلم تو خیر پھیلانے کیلئےتخلیق کیا گیا ہے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

سیاسی تنازعات

76برس ہو گئے ،ہمیں سیاسی تنازعات حل کرتے ہوئے حالانکہ ہم اور سیاسی ذمہ داران اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی ملک کے زوال و عروج کا دارومدار سیاسی مسائل کے بہترین حل پر ہوتا ہے، بالعموم سیاسی مسائل کا ہمارے ہاں سارا الجھائو صرف ذاتی مفاد پر ہوتا ہے جبکہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ایسا نہیں ہوتا اگر ہوتا بھی ہے تو ملک کے مفاد پر نہیں ہوتا، عوام کی بنیادی ضروریات کو کوئی ملک نقصان نہیں پہنچاتا یاد رہے کہ عوامی ضروریات اور خوشحالی سیاسی تنازعات کے کم از کم ہونے پر مبنی ہوتے ہیں یہ کیسی روش ہے کہ ایک آگے بڑھ رہا ہے اور دوسرا اس کا گھر لوٹ رہا ہے آج اگر ہمارے مسائل باقی ممالک کے بحیثیت مجموعی3/1بھی ہوتے تو یوں ضروریات زندگی کے تعاقب میں دوڑتے نہ پھرتے مگر چلو پیرس کے ایفل ٹاور کو چھوتو لیتے ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سیاست منجمد ہے صرف بے تحاشا دولت رکھنے والوں کیلئے مزید در مزید دولت کے دروازے کھلتے ہیں وہ ہی ہر بار ٹکٹ لہراتے ہیں اور عوام اپنی سفید پوشی لہراتے ہیں ،یہ سیاسی تنازعات درحقیقت برادری ازم اور دولت پرستی کی وجہ سے ہیں دولت کے بل بوتے پر ایک دوسرے کو حقیر بنانے کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ ہے یہ رکے تو غریب کی مفلسی بھی رکے، ایک ایسا جال بچھا دیا گیا ہے کہ بندہ مفلس اِدھر اور ایلیٹ اُدھر۔ دوسرے ملکوں کے حکمران سیاستدان اپنوں کو خوشحال بنانے کیلئے دوسرے کو بڑی مہارت سے لوٹتے ہیں اور ہمارے ارباب بست وکشاد اپنوں کو افلاس کی چکی میں پیس کر، اپنی دولت باہر بھیج کر ان کے خزانے بھرتے ہیں ہمارے نصابوں میں سیاسی تنازعات کی آڑ میں لوٹ مار کرنے کی بین الاقوامی چالبازیوںاور اپنی غلطیوں سے پردہ اٹھنے کی باتیں نہیں ہوتیں یہی وجہ ہے کہ بیدار جسم جوان پیدا نہیں ہوتے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

شدت تنازع

٭مخصوص نشستیں ،تنازع میں شدت

اللہ کرے زور تنازع اور زیادہ

٭ہم نے امریکہ سے خواہ مخواہ اختلاف مول لے لیا۔

جبکہ چھوٹے چھوٹے مفلس ملک سیانے نکلے اور موٹے موٹے ہو گئے۔

٭ہم نے اختلاف کمایا، کرنسیاں کھودیں،

کیا زمانے میں جینے کا یہی طریقہ ہے

ہمارے دانشور بھی خاصے عقلمند ہیںاسلئے کوئی گلہ نہیں ۔

٭الیکشن ہو بھی گئے سب کچھ سمیٹ کر صاحبان اقتدار سو بھی گئے

بس کوئی ان کی نیند خراب نہ کرے ۔

٭سنا ہے مہنگائی کا سونامی آنےوالا ہے حالانکہ سونامی والا چلا بھی گیا ہے ۔

٭٭ ٭ ٭ ٭

تازہ ترین